وجود

... loading ...

وجود

سیاسی جماعتوں کی انتخابی صف بندی

اتوار 12 نومبر 2023 سیاسی جماعتوں کی انتخابی صف بندی

حمیداللہ بھٹی

خوش آئند بات یہ ہے کہ دیر سے ہی سہی ملک میں عام انتخابات یقینی ہیں۔ توقعات کے برعکس چاہے عدالتی حکم پرہی سہی صدرِ مملکت عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ نے مشاورت کے دوران آٹھ فروری پر اتفاق کر لیا جس سے انتخابی حوالے سے موجود خدشات اور افواہوں کابڑی حدتک خاتمہ ہو گیا ہے اوراب سیاسی جماعتوں نے سنجیدہ ہوکر انتخابی صف بندی کا آغاز کر دیا ہے۔ ملک کی بڑی جماعتیں انتخابی اتحاد بنانے کے مرحلہ شروع کر چکی ہیں۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ملکی سیاست کو دوبارہ دو جماعتوں تک محدود رکھنے کے لیے پی پی اور ن لیگ نے کسی حد محاذآرائی کا تاثر دینا شروع کر دیا ہے۔ اِس میں کتنی صداقت ہے؟ وثوق سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ سیاسی نبض شناس مستقبل کا جو سیاسی منظر نامہ دیکھتے ہیں اُس کے مطابق کسی ایک جماعت کا انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا محال ہے اوروہ وفاق سمیت پنجاب میں ایک اور اتحادی حکومت کا امکان ظاہرکرتے ہیں ۔شاید اسی امکان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیاسی قیادت انتخابی صف بندی میں مصروف ہے تاکہ نتائج کے بعد کسی جماعت کو ساتھ ملانے میں مشکل پیش نہ آئے اور نتائج مکمل ہوتے ہی حکومتیں تشکیل دینے کا مرحلہ شروع کیا جا سکے۔
ویسے تو ہمارے ملک کی سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں سیاسی رہنمابیانیہ بدلتے، ، ہمرکاب سیاستدانوںسے دوری اورمخالفین کو ساتھ ملانے پر ہمہ وقت آمادہ وتیار ہوتے ہیں دوست کو دھوکا دینا اور بدترین مخالف سے ہاتھ ملانا عام سی بات ہے جسے جس فیصلے سے سیاسی مفادکی رمق تک نظر آئے اُسے ہی قومی مفاد کہنے لگتا ہے کبھی کسی نے سوچا تھا کہ پی پی اور ن لیگ اتحاد ی حکومت تشکیل دیں گی نیز یہ کہ شریف خاندان کے فرد کو ملک کا وزیرِ اعظم بنانے کے لیے آصف زرداری جوڑتوڑسے بھی گریز نہیں کریںگے ؟لیکن ایسا نہ صرف ہوا بلکہ اقتدار کے سولہ ماہ میں دونوں جماعتیںایک رہیں اب کیونکہ دوبارہ انتخابی نقارہ بج چکا ہے لہذادونوں چاہتیں ہیں کہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں اِن کے علاوہ کوئی اور جماعت اہمیت حاصل نہ کرپائے بلکہ یہی دونوں اہم رہیں اِن کوششوں میں دونوں جماعتوں کو کامیابی ہوتی ہے یانہیں اِس کا نحصار آمدہ انتخابی نتائج پر ہے بظاہرطاقتور حلقوں کو پی پی سے ن لیگ زیادہ عزیز ہے اِس خیال کو ایسی کوششوں سے بھی تقویت ملتی ہے کہ شریف خاندان کے سر سے مقدمات کا بوجھ ہٹانے پر تیزی سے کام جاری ہے جس سے مستقبل میں ن لیگ اور شریف خاندان کے اہمیت حاصل کرنے میں کوئی ابہام نہیں رہا۔
نواز شریف اور عمران خان دونوں کو مقدمات کا سامنا ہے اول الذکرکو منی لانڈرنگ وغیرہ میں نااہلی اور قید کی سزائیں سنائی جا چکیں جبکہ ثانی الذکر پرکئی ایسے مقدمات ہیں جن کے جلدہی فیصلے متوقع ہیں اسی بنا پرفی الحال ملک کی دونوں مقبول جماعتوں کی قیادت کے لیے سب اچھا نہیں البتہ نواز شریف کو عمران خان پر ایک حوالے سے فوقیت حاصل ہے کہ اُنھیں انصاف دلانا اولیں ترجیح ہے ملک میں آنے سے قبل اور پیش ہوئے بغیر ضمانت مل جاتی ہے نوازشریف کی بجائے عطاتارڑاُن کی جگہ نشان انگوٹھا لگادیں تو بھی کوئی معترض نہیں ہوتانیز آمد پر نادراکی بے چینی دیکھنے کے لائق تھی جس کے اہلکار طلب کیے بغیر ہی ائرپورٹ جاکر انگلیوں کے نشانات حاصل کرنے پہنچ گئے علاوہ ازیں عدم طلبی پر نیب وکیل عدالتوں میں حاضر ہوجاتے اور اپنے اِدارے کے سربراہ سے ہدایات لیے بغیر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ضمانت پر کوئی اعتراض نہیںلیکن عمران خان اور شاہ محمودقریشی کے بارے ایسی کسی نرمی کاموہوم سا بھی امکان نہیں بلکہ قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور دیگر اہم رہنما بددستور عتاب کا شکار رہیں گے مگر جس طرح امریکہ سمیت کچھ ممالک عام انتخابات کو شفاف بنانے پر زور دے رہے ہیں ممکن ہے نظر بند ایک بزرگ شخصیت کو رہاکرنے اوراُسے پی ٹی آئی کو مقتدر حلقوں کی منشا کے مطابق چلانے جیسا کام سپرد کردیاجائے اسی بناپرمستقبل کے سیاسی منظر نامے میں پی پی اور ن لیگ کااہم ہونا حیران کُن نہیں ہوگا لیکن جس طرح مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کے حق میں فضا سازگاربنائی جارہی ہے سندھ کی حد تک بھی ایسی کسی کوشش کے آثار نہیںبلاول بھٹوتمام جماعتوں کے لیے یکساں لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرنے اور تنگ آکر پی ٹی آئی کی طرف دستِ تعاون بڑھانے کی بات بھی کی مگر بات بنتی دکھائی نہیں دیتی طاقتور حلقوں کی ن لیگ پر مہربانیاں جاری ہیںماضی میں سیاسی جماعتوں نے جمہوری روایات کی پاسداری کرنے کی بجائے دیگر زرائع پر بھروسہ کیااور اقتدار حاصل کرنے کی مراد پائی مگر ملک سیاسی عدمِ استحکام کا شکارہوتا گیا اب جبکہ ایک بار پھر ملک میں انتخابی سرگرمیوں کا اتحاد تشکیل دینے کے عمل سے آغازہوچکاسیاسی جماعتوں سے الگ الگ سلوک اچھا نہیں اسی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ غیر جمہوری اور غیر سیاسی روایات نہ چھوڑنے سے مستقبل میں سیاسی استحکام کی منزل حاصل ہونا محال ہے۔
انتخابی صف بندی میں سیاسی جماعتوں کی اولیں ترجیح بظاہر ن لیگ ہے خالد مقبول صدیقی ،فاروق ستار اور مصطفٰے کمال پر مشتمل ایم کیو ایم کے وفد کا نوازشریف اور شہباز شریف سے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے پر تبادلہ خیال کرنا اور انتخابی اتحاد کا اعلان کرنا اِس خیال کو تقویت دیتا ہے اسی طرح تحریکِ لبیک پہلے ہی ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے علاوہ ازیں سندھ میں جی ڈی اے ،بلوچستان اور کے پی کے میں جمعیت علمائے اسلام ف ،قوم پرست جماعتوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی سے اتحاد بھی خارج ازا مکان رَد نہیں باپ پارٹی کارجحان بھی اسی طرف ہے بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے کئی جیتنے کی پوزیشن میں چہروں کی شمولیت کے باوجود پی پی سے سیاسی جماعتیں اتحاد بنانے میں محتاط ہیں اسی بناپر کہہ سکتے ہیں سولہ ماہ کے اقتدار کے باوجود دونوں جماعتوں میں اب سب اچھا نہیں بلکہ خرابی جنم لے چکی ہے سندھ میں پی پی مخالف جماعتوں سے ن لیگ کے اتحاد پر آصف زرداری اور بلاول سخت خفگی ظاہر کرچکے جماعت اسلامی سختیوں کی شکار پی ٹی آئی پرتوجہ دے کر کراچی کے بلدیاتی انتخابات کاپی پی سے بدلہ لینا چاہتی ہے جاری انتخابی سرگرمیوں کے تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود سندھ سے پی پی کی شکست کاخواب پوراہونا فی الحال مشکل ہے۔
انتخابی اتحاد تشکیل دیتے ہوئے کسی سیاسی جماعت کی نظردرپیش قومی مسائل پر ہے؟ بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ کسی سیاسی جماعت نے اِس حوالے سے قابلِ عمل اور کسی حد تک کوئی نتیجہ خیز حکمت ِ عملی مرتب کی ہے بلکہ سبھی جماعتوں کی نظر قومی مسائل حل کرنے سے زیادہ انتخابی فتح پرمرکوز لگتی ہے مزید ستم ظریفی یہ کہ انتخابی اتحاد تشکیل دینے کاکام تو زورو شور سے جاری ہے لیکن منشور مرتب کرنے سے کوتاہی کی مرتکب ہیں ن لیگ منشور کمیٹی بنانے تک محدود ہے یہ سیاسی جماعتوں کی ملکی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ توانائی کے بحران نے کاروباری ،صنعتی اور زرعی معاملات کو شدید متاثر کیا ہے۔ گیس بحران الگ سے شدت اختیار کرنے لگا ہے لیکن مہنگی بجلی اور گیس کے نرخ کیسے کم کرناہیں ؟ کسی جماعت کے پاس کوئی حل نہیں ۔مہنگائی جیسے مسائل سے ہرخاص و عام دوچار ہے ،لگتاہے قومی قیادت کے لیے یہ بھی مسئلہ اہم نہیں۔ قرضوں کے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے بھی مجرمانہ حدتک سنجیدگی کافقدان ہے۔ حالانکہ مقروض پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود عالمی سطح پر غیر اہم ہوتاجارہاہے ۔ہمارا بجٹ عوامی مسائل نہیںآئی ایم ایف کی ہدایات مد ِنظر رکھ کر بنایاجانے لگاہے لیکن کسی سیاستدان کو اِن مسائل کا احساس تک نہیں۔ اگر ہوتا تو کوئی حل تجویز کیا جاتا اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی صف بندی سے ممکن ہے ۔آئندہ سیاسی منظر نامے میں اہم حیثیت حاصل کرلیں اور اقتدار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں لیکن ملک و قوم کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کاکام بدستور ادھوراہی رہے گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر