... loading ...
ریاض احمدچودھری
یورو میڈ ہیومن رائٹس کی جاری اسرائیلی جارحیت پر رپورٹ میں بتایا گیا کہ سات اکتوبر سے اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیل پچیس ہزار ٹن سے زیادہ بارود برسا چکا ہے، جو دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔ جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔رپورٹ میں کہا ہے کہ حملوں میں چار ہزار سے زائد بچے اور دوہزار سے زائد خواتین شہید ہوچکے ہیں، اسرائیل غزہ میں ہر گھنٹے بیالیس بم برسا رہا ہے، جس سے بارہ عمارتیں ملیہ میٹ ،پندرہ شہید اور پینتیس فلسطینی زخمی ہو رہے ہیں۔اس سے قبل فلسطینی محصور شہر غزہ پر گرائے گئے بموں کی دھماکا خیز قوت ہیروشیما ایٹم بم سے زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، غزہ کے حکام کا کہنا تھا کہ غزہ پر بموں کی ہیروشیما سے بڑی قیامت ڈھائی گی ہے، دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیروشیما کی تباہی سے بھی زیادہ غزہ میں تباہی مچی۔غزہ حکام نے بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر 18 ہزار ٹن بم گرائے ہیں، جو دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کی دھماکا خیز قوت سے 1.5 گنا زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ اور دنیا کی 28 تنظیمیں مل کر بھی اسرائیل کے آگے بے بس اسرائیلی جارحیت کو رکوانے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ اسرائیلی فورسز کے غزہ پر فضائی حملے جاری ہیں اور غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران مزید 316 فلسطینی شہری شہید،درجنو ں زخمی ہو گئے۔ 7 اکتوبر سے اب تک شہید ہونیوالے افراد کی تعداد 10 ہزار 812 ہوگئی ہے۔مجموعی طور پر غزہ میں ابتک 2918 خواتین اور 4412 بچے شہید ہو چکے ہیں۔اس عرصے میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 26 ہزار 905 فلسطینی زخمی ہوئے۔
اسرائیل کی بدترین جارحیت کی حمایت میں الحادی قوتوں کا گٹھ جوڑ اور مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے جبکہ ان کا دوغلا پن بھی مسلم دنیا کے سامنے آچکا ہے۔اگر مسلم ممالک اب بھی متحد نہ ہوئے تو وہ الحادی قوتوں کی بربریت کا نشانہ بن کر فلسطین کی طرح ایک ایک کرکے اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔ امریکہ اور دوسرے طاقتور ملکوں کی من مانیوں نے اقوام متحدہ کو ایک غیرفعال ادارہ بنا دیا ہے’ یہ طاقتور ملک نہ صرف عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں بلکہ تاریخ کے بدترین جارح اور ناجائز ریاست کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ ایک بے بس اور لاچار ادارہ بن کر انکی لونڈی کا کردار ادا کررہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اقوام متحدہ اسرائیل کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتا اور اسکی پشت پناہی کرنیوالوں کو اسکی حمایت سے روکتا مگر اسکی حالت یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل سمیت اسکے نمائندگان اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطین میں بدترین انسانی المیے پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر بااختیار ہونے کے باوجود اسکے جنونی ہاتھ روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ طول اختیار کرگئی تویہ جنگ پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان نے بتایا اسرائیلی فوج کی جانب سے طبی عملے کو ہدف بنانے کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے، مزید 2 ہسپتال بند ہوچکے ہیں جس کے بعد مجموعی تعداد 18 ہوگئی ہے، جبکہ غزہ کے 9 لاکھ رہائشی ادویات، پناہ گاہ یا تحفظ کے بغیر زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ادھر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے غزہ میں بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے فلسطینیوں میں بیماریاں پھیلنے کا سنگین خطرہ ہے، صحت کا نظام تباہ ہوگیا ہے، پناہ کیلئے نہ کوئی چھت ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کیلئے صاف پانی تک رسائی ممکن ہے جس وجہ سے مختلف انفیکشن پھیلنے کا خطرہ ہے جس میں پیٹ کی خرابی جیسے مسائل شامل ہیں۔ اکتوبر کے وسط سے ڈائیریا کے 33ہزار551 سے زیادہ کیسزرپورٹ ہوئے ہیں، یہ کیسز زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں دیکھے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے غزہ میں صحت، نکاسی آب، صاف پانی اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں اور مکمل نظام منہدم ہونے کے قریب ہے۔ ظالم اسرائیلی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں سکولوں، ہسپتالوں کے اطراف بمباری کی جبکہ جبالیا، نصیرات اور شاطئی کیمپوں میں رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا۔ حملوں سے عبادتگاہیں اور مساجد بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔بمباری سے غزہ کے ہسپتال اور معالج سینٹرز تقریباً غیر فعال اور منہدم ہو چکے ہیں، جس کے باعث غزہ کے سنگین بیماریوں میں مبتلا ساڑھے 3 لاکھ مریض علاج کے بغیر تڑپنے پر مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے غزہ پٹی میں اموات کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کیخلاف اسرائیلی فورسز کی کارر و ا ئیوں میں کہیں واضح غلطی ہے۔
اسرائیل نے شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو انخلا کی اجازت دینے کیلئے روزانہ چار گھنٹے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ وقفے کے دوران ان علاقوں میں کوئی فوجی کارروائی نہیں ہوگی۔ اسرائیل کم از کم تین گھنٹے پہلے وقفے کا اعلان کریگا۔جان کربی نے کہا ہم سمجھتے ہیں یہ وقفے صحیح سمت میں ایک قدم ہے جس سے شہریوں کو فعال لڑائی سے دور محفوظ علاقوں تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔ یہ وقفے انسانی امداد کو ان علاقوں میں منتقل کرنے کی اجازت دیں گے جہاں ان پر عملدرآمد کیا گیا ہے اور وہاں موجود فلسطینیوں کو باہر نکلنے کا موقع ملے گا۔اسرائیلی فورسز غزہ میں زمینی لڑائی کے علاوہ فضا ئی حملے بھی کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں شہر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر رابطہ برائے انسانی امور کا کہنا ہے گزشتہ روز 50,000 افراد نے غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے کی طرف نقل مکانی کی۔