... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
پنجاب کی نگران حکومت نے ا سموگ کی بڑھتی ہوئی خطرناک صورتحال کے پیش نظر لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ، حافظ آباد میں 4روز کے لئے ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی نافذکر دی ہے جس کے تحت9نومبر کوسرکاری چھٹی کے علاوہ جمعہ کو بھی تعطیل کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ہفتہ اور اتوارکو پہلے ہی چھٹی ہوتی ہے۔ ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر، سینما، پارکس اورریسٹورنٹ بند رہیں گے جبکہ مارکیٹیں ہفتے کو بند رکھی جائیں گی۔نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ شادی ہال، بیکریاں،فارمیسی، پبلک ٹرانسپورٹ اور کنسٹرکشن اورفیکٹریاں بند نہیں ہوں گی تاکہ مزدور کا چولہا جلتا رہے۔ انھوں نے بتایا کہ سموگ کی وجہ سے بچوں اور بزرگوں کو سانس اور آنکھوں کے امراض لاحق ہو رہے ہیں اس لئے کابینہ کمیٹی برائے ماحولیات و ا سموگ میں ماہرین ماحولیات اور صحت کی سفارشات کی روزشنی میں یہ فیصلے کیے گئے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق چند سال قبل جب انڈیا کے کسانوں نے اپنی فصلوں کی بڑی تعداد میں باقیات کو جلانا شروع کیا تو اس کے نتیجہ میں ا سموگ نے صحیح معنوں میں جنم لیا اس سے قبل ٹریفک اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کو ماحولیاتی آلودگی کے نام سے جانا جاتا تھا۔اگرچہ انڈیا روایتی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کو ماننے سے انکار کردیتا ہے کہ انڈین کسان ہر سال فصلوں کی باقیات کو جلا دیتے ہیں جس سے فضاء میں بے حد دھواں پیدا ہو چکا ہے جو اب تحلیل نہیں ہورہا بلکہ مزید بڑھ رہا ہے۔پاکستان میں ا سموگ کا سب سے بڑا حملہ لاہور شہر پر ہوا ہے جہاں ایئر کوالٹی جان لیوا حد تک آلودہ ہوچکی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو نے سن2021میں دنیا بھر کے ممالک میں پائی جانے والی فضائی آلودگی پر ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کے آلودہ ترین شہر لاہور سے اگر فضائی آلودگی کا خاتمہ کردیا جائے تو یہاں رہنے والے افراد کی اوسط عمر میں مزید چار سال تک کا اضافہ ہوسکتا ہے۔تحقیقی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی تھی کہ پاکستان میںبڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے باعث شہریوں کی اوسط عمر میں نو ماہ کی کمی ہورہی ہے ۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق اسموگ اس وقت سب سے بڑی فضائی آلودگی ثابت ہوچکی ہے کیونکہ سموگ زدہ ماحول میں سانس لینے والے افرادمختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سن2021میںانڈیا کے شہر دہلی میں جب تین سال سے چودہ سال تک کی عمر کے بچوں پرا سموگ کے اثرات پر ریسرچ کی گئی تواس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے،ماہرین کو ریسرچ کے آخر میںیہ جان کر حیرت ہوئی کہ اسموگ میں زیادہ عرصہ رہنے والے 45فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے ہوچکے تھے ۔امریکہ،یورپ اور ایشیائی ممالک میں سموگ کی وجہ سے قبل از وقت موت کی شرح بڑھ رہی ہے کیونکہ اسموگ کی وجہ سے لوگوں کو ابتدائی طور پر کھانسی،الرجی ، آنکھوں اورگلے میں جلن ہونے لگتی ہے اس کے بعد سانس لینے میں دشواری بڑھنے لگتی ہے اور پھربروقت علاج اور احتیاط نہ کرنے پر پھیپھڑے خراب ہوجاتے ہیں جبکہ ا سموگ کا شکار ہونے والے حاملہ خواتین کے ہاں پیدائشی نقائص اور کم وزن والے بچے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
انسانوں کی طرح جانوروں اور مویشیوں کو بھی اسموگ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔صوبائی محکمہ لائیوا سٹاک کی ایک رپورٹ کے مطابق اسموگ کی وجہ سے جانور، مویشی اورمرغیاںہلاک ہورہی ہیں جس کی وجہ سے مرغبانی اور ڈیری فارم سے وابستہ افراد کے کاروبارکو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ان دنوںایک طرف ہسپتالوں اور کلینکس میں سموگ سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تودوسری جانب ویٹرنری ہسپتالوں اورکلینکس میں اسموگ سے متاثرہ جانور، مویشی اور مرغیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔مویشی پالنے والے زیادہ تر مالکان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے مویشیوں کو سموگ سے بچانے کے لئے بند کمرے یاہال تعمیر کرواسکیں اسی لئے بڑی تعداد میں مویشی ا سموگ زدہ ماحول میںبندھے ہوئے ہیںاور دم گھٹنے کی وجہ سے ایک ایک کرکے ہلاک ہوتے جارہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے متعین کردہ چارٹ کے مطابق اس قدر آلودہ فضاء انسانی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ پنجاب میں تمام بھٹے ابھی تک مکمل طور پر زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل نہیں کیا جاسکے اس کے علاوہ فیکٹریوں اور کارخانوں میں صنعتی دھوئیںکو ا سموگ پالیسی کے تحت خارج کرنے کا نظام اور وسائل مہیا نہیں کئے گئے جبکہ سڑکوں پر ابھی بھی دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں چل رہی ہیں جس کی وجہ سے اسموگ میں کمی لانا ممکن نہیں۔نگران حکومت کی جانب سے ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ا سموگ میں کمی کی توقع کی جارہی ہے تاہم اسموگ کے مکمل خاتمہ کے لئے چین کی طرز پر اقدامات کرنا ہوں گے ۔