... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
یہ ایک دل دہلا دینے والی رات تھی! ایک نہ ختم ہونے والی گھن گرج جس کی کوئی اور چھور نہ تھی۔ مختلف قسم کی آوازوں میں چنگھاڑ مسلسل بڑھتی جاتی تھی۔ کان پھٹنے کے قریب تھے۔ یہ ایک نہیں کئی صور تھے، جو حضرت اسرافیل کے پھونکے ہوئے لگ رہے تھے۔ کیا حضرت اسرافیل نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس گناہ گار دنیا کے خاتمے کے لیے ایک صور کافی نہیں؟ کیاا س صور میں فلسطین کا غصہ بھی شامل ہے؟ میں سوچتا ہوں ، مگرجواب کی مہلت نہیں۔ایک کے بعد ایک صور، اندھیرا گہرا ہوتا جاتا تھا، تیرہ تر تاریکی میں ایک محیط تر خوف طاری تھا۔ کوئی روش ، رستہ دکھائی نہ پڑتا تھا۔ یہ میں کہاں ہوں؟ میں چیختا ہوں!!میںکہاں ہوں؟ میری آواز بے پناہ شور میں خود مجھے بھی سنائی نہیں دیتی۔
اچانک کوئی ہاتھ مجھے تھام لیتا ہے۔ ذرا پیچھے دھکیل کر ایک نئے رستے پر لے جاتا ہے۔ یہاں ایک مختلف ماحول ہے۔ جیسے شام کے بادل اور صبح کی پریاں ایک لمحے میںٹہرے ہوئے ہوں۔ کچھ پُرنور چہرے ، لبادۂ سکوت اوڑھے ہوئے تھے۔ مگر ان پر کوئی ملکوتی رعب وجلال تھا جسے دیکھنے کی آنکھیں تاب نہ رکھتی تھیں۔ ایسے لگتا تھا کہ مہتاب ان کے سروں کا تاج ہے۔ بزرگانہ شان وشکوہ کے ساتھ جوانوں والی آب وتاب نے ان میں نہ ختم ہونے والی کشش پیدا کردی تھی۔ ایک ابدیت کی روشنی کا ہالہ چہار سو اُنہیں گھیرے ہوئے تھا۔ یہ بہر الفضائل اور عین المکارم مخلوق کون ہے،جو زمینی زندگی کو ہزار آنکھوں کی عمیق العمیق سے دیکھتے ہیں اور ہزار کانوں سے ہستی و نیستی کی آوازیں سنتے ہیں۔ یہ ابدی قوتوں کے حضور امید بن کر کھڑے تھے۔ گویاشیطان کی سرکشی کے خلاف چشم یزداں میں فرشتوں کی آبرو ہوں۔اور الہٰی فیصلے کے صائب ہونے پر ایک محکم دلیل ہوں۔ یہ کون ہیں ؟ یہ کون ہیں؟ میں یہ سوال کرنا چاہ رہا تھا کہ میری آواز حلق میں پھنس جاتی ہے۔ گویا میرے بولنے اور سننے پر بھی میری اپنی کوئی قدرت نہ ہو۔ میں خود پر بھی تصرف نہ رکھتا تھا۔ مگر یہ منظر میرے اندر اُترتا ہی جاتا تھا۔ یہاں ایک ملکوتی سکوت تھا۔ پاکیزگی کا نہ ختم ہونے والا احساس پیدا ہوتے ہی بڑھتا اور بڑھتا ہی جاتا تھا۔ بصارت ، جیسے بصیرت ہو، سماعت جیسے کامل واقفیت ہو۔ غیب جیسے حاضر ہو۔ یہ کیسا سماں ہے؟ اس سماں پر کسے قدرت حاصل ہے؟ یہ سوال میرے اندر ہلچل مچاتے ہیں مگر لب پر نہیںآتے؟ میں خود پر قدرت نہیں رکھتا؟ میںکون ہوں؟ میں کہاں ہوں؟ تب میرے منہ سے ”اللہ” نکلتا ہے۔ میرے اللہ!!! بس یہ لفظ ادا ہوتے ہیں نظر آنے والا ہر منظر میرا ہو جاتا ہے۔ سب میری طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ میں حیران حیران سب کو دیکھتا ہوں!!یہ تو سب جانے پہچانے لوگ ہیں۔ ایک طرف زمرد کی پوشاک پہنے ہوئے میرے دوست چلے جارہے ہیں؟ ان میں سب سے زیادہ چمکتے دمکتے چہرے اُن دوستوں کے ہیں جو وطنِ عزیز کی تاریک راہوں میں مارے گئے۔جن کے لہو کا کوئی سراغ نہیں۔ ان میں کچھ صحافی بھی ہیں۔ میں پوچھتا ہوں؟ یہاں کیسے پہنچے؟ تمہارے خون کا حساب ”ارض پاک” میں ”پاک’ ‘ ہوا، تمہارے مدعی بھی قاتلوں کی طرح لگتے ہیں؟ ایسا کیوں ؟ کہیں لہو کا سراغ کیوں نہیں چھوڑا، کوئی دست ، کوئی ناخنِ قاتل، کوئی آستیں پہ نشاں تک کیوں نہیں؟
وہ مسکراتے ہیں۔ قطار اندر قطار ایک رفتار سے چلے جاتے ہیں، میں اُن کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں۔ پوچھتا ہوں: جواب دو۔۔۔ دوست کوئی اشارہ کرو۔۔۔ وہ ٹہرتے ہیں اُن کے ساتھ پوری قطار ایک ساتھ رک جاتی ہے۔ جیسے سب ایک ہی رفتار، ایک ہی دماغ اور ایک ہی حرکت کے عادی اور ساتھی ہوں۔
میرا شہید دوست کہتا ہے: ٹہر جاؤ! ٹہر جاؤ !! تمہاری بستیوں کے درودیوار پر ایک آسیب اُترنے والا ہے۔۔۔ تب تم شہر شہر اُٹھوگے۔۔ گھر گھر چھوڑوگے اور رہگزر پر پڑے ہو گے!!تمہاری آنکھوں میں غضب کی بجلیاں ہونگیں؟ اور یہ سوال بھی کہ بستیوں کے محافظ یہ آسیب روک کیوں نہیںپائے؟ ہم دربدر کیوں ہوئے؟ جب تمہارا یہ کمالِ ضبط سوال کی صورت اس حرفِ معتبر تک پہنچے گا تو تمہیں ہمارے قاتلوں کا سراغ بھی ملنا شروع ہو جائے گا۔ صبر! ایک ذرا صبر!!! وہ چلنے لگتے ہیں، ایک ساتھ ، ہم رفتار ، میں پیچھے رہ جاتاہوں، اپنے سوالات، خوف اور حیرت کے ساتھ۔ تب تب ایک ہاتھ پھر میرے ہاتھ کو پکڑتا ہے۔اور ایک آواز گونجتی ہے: ادھر آؤ تمہاری تلاش تمہاری منتظر ہے! میں آواز کی سمت چلنے لگتا ہوں۔اللہ اکبر! حضرت علامہ اقبال وہاں اپنے پیر مولانا روم کے ساتھ ادب سے بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔ میں پیچھے ہو کر بیٹھ جاتا ہوں۔ کبھی مولانا روم کو اور کبھی حضرت علامہ اقبال کو آنکھ بھر بھر کر دیکھتا ہوں۔ میں حضرت علامہ اقبال سے سوال کرناچاہتا ہوں، وہ مجھے اشارے سے روک دیتے ہیں اور اپنے پیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جیسے ادب کے تقاضے سمجھا رہے ہوں۔ میں اپنے سوئے ادب کو جواز دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں: اے ٣٥٠٠ غزلوں اور دو ہزار رباعیوں ، رزمیہ نظموں کے شاعر ، اے فیہ مافیہ کے مصنف، صاحب مثنوی ! ہم اپنے صوفیوں کا کیا کریں؟ وہ سرزمین پاک میں غزالی اور رومی بنے بیٹھے ہیں۔ طاقت ور حلقوں کی ترجمانی میں مذہب خرچ کرتے ہیں۔ ان کے تیوروں میں کیا ساحری ہیں، کہ سرکاری دوعالمۖ کے امتی بھی گمراہ ہو جاتے ہیں؟ ان سے سوال کرنا سوئے
ادب ہے، ان کی پیش گوئیوں میں گمراہی ہے۔ ہم کیا کریں؟ مولانا روم فرماتے ہیں:
چوں بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
(نہ معلوم کتنے ایسے ابلیس ہیں جن کی شکل آدمیوں جیسی ہے پس ہر ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دینا چاہیے )۔
علامہ اقبال انتہا ئی ادب سے اپنے پیر کو سن رہے تھے۔ تب میں نے وطنِ عزیز کی ایک مخلوق کا ذکر کیا جو ہمت کے آگے مصلحت کے درس دیتی ہے۔ جو جوانوں کو شرمندہ کرتی ہے اور مسلمانوں کی جدوجہد کو استعمار کی سازشوں کی کہانی میں اُلجھاتی ہے۔ مولانا روم نے یہ سن کر فرمایا:
کارِ مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است
(جواں مردوں کا کام روشن و گرم ہوتا ہے اور کمینوں کا کام حیلہ و بے شرمی)۔
مولانا روم ابھی یہ شعر سنا ہی پائے تھے کہ کسی نے آکر اُن کے کان میں سرگوشی کی کہ شمس تبریز اُنہیںیاد کر رہے ہیں، وہ فوراً اپنے پیر کے بلاوے پر کھڑے ہوگئے۔ تب علامہ اقبال نے مجھ سے پوچھا: وطنِ عزیز کا کیا حال ہے؟ (جاری ہے)
(حضرت علامہ اقبال کے یوم ولادت (٩ نومبر) کی مناسبت پر لکھا گیا)