... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
شکر ہے نگران وزیر اعلیٰ نے پرائمری اسکولوں کا رخ بھی کیا جہاں ہمارے نونہال تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی حاصل کرتے ہیں اور پھر ان بچوں نے آگے چل کر ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے۔ آج جو لوگ ہمارے اس تعلیمی نظام پر قابض ہیں یا ان سے پہلے والے انہوں نے اس نظام کو بگاڑنے میں بہت حد تک اپنا پنا کردار ادا کیا ہوگا۔ ہمارے پرائمری کے ان ا سکولوں میں بچوں کی ذہن سازی بھی ہوتی ہے جو بات اس عمر میں ان کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے وہ پھر مرتے دم تک نہیںجاتی۔ ہمارے پرائمری ا سکولوں میں جو گندگی ہوتی ہے وہ پھر عمر بھر نہیںجاتی۔ آج اسی لیے تو ہمارا ہر شعبہ گندگی سے بھرا ہوا ہے۔سب سے اہم چیز باتھ رومز ہوتے ہیں جو ہمیشہ گندگی اور بدبو سے بھرے رہتے تھے کیونکہ وہاں کبھی سیکریٹری گیا نہ ہی وزیر تو ایم ایس نے وہاں کیا کرنے جانا ہوتا ہے۔ رہی بات مریضوں کی وہ تو ڈاکٹروں اور ملازمین کے کرخت رویے سے پہلے ہی ڈرے اور سہمے ہوئے ہوتے ہیں اور اس گندگی اور بدتمیزی پر کوئی بولتا بھی نہیںتھا ۔اس کی بڑی وجہ شاید یہی ہے کہ ہمیں ان چیزوں کا بچپن سے ہی عادی کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز محسن نقوی نے لاہور کے خوبصورت ترین علاقے میں جو منظر ایک سرکاری پرائمری سکول کا دیکھا آپ ذرا اسی منظر کو 30یا 40سال پہلے کا تصور کریں تو اس وقت کیا حالت ہوتی ہوگی جس کی تربیت آج ہمارے بابوئوں میںجھلک رہی ہے اور ان کی وجہ سے ہمارے بچوں کا مستقبل کی خراب ہورہا ہے۔ کل کو یہی بچے جب کسی نہ کسی اہم عہدے پر ہونگے تو آج کی گندگی کل بھی ان کے ذہنوں میں ہوگی اور وہ اس کو برا نہیں سمجھیں گے۔
اب میں اس خبر کی طرف آتا ہوں جس نے مجھے جھنجوڑ کررکھ دیا وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے گورنمنٹ جونیئر ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹاؤن کا 2 گھنٹے تفصیلی دورہ کیا بعض کلاس رومز میں فرنیچر تک موجود نہیں تھا بچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے تھے واش رومز میں گندگی تھی اورپانی بھی غائب تھااورالیکٹرک واٹر کولرزبھی خراب تھے کلاس رومز میں ٹوٹا ہوا فرنیچر تھا اور وائٹ بورڈز خراب،دروازے خستہ حال میں تھے،کھڑکیوں کے شیشے اور جالیاں غائب تھیں۔ کلاس رومز میں صفائی کی ابتر صورتحال تھی جبکہ 750 بچوں کے سکول کے لئے صرف ایک خاکروب ہے سکول میں کھیلوں کی سرگرمیاں بند تھیں،کلاس رومز میں پینٹ اکھڑا ہوا تھا اور جالے لگے تھے،لائٹس کم تھیں اوربعض پنکھے بھی خراب تھے۔ کمپیوٹر لیب نان فنکشنل اور سائنس لیب کی بری حالت تھی جس پر وزیراعلیٰ نے فوری طور پر صوبائی وزیر تعلیم منصور قادر،سیکریٹری اسکولز ایجوکیشن،سیکرٹری تعمیرات ومواصلات اور چیف ایگزیکٹو آفیسر اسکولز ایجوکیشن کوا سکول بلایا ۔وزیراعلیٰ محسن نقوی ہر کلاس روم میں گئے۔ بچوں سے ملاقات کی اور ان سے مسائل پوچھے ۔بچوں نے پینے کے صاف پانی،واش رومز میں پانی نہ آنے،ٹوٹے فرنیچر اورخراب وائٹ بورڈز کے بارے میں شکایات کیں۔ بچوںنے کلاس رومز میں کم لائٹس، پنکھے نہ چلنے اور کھیلوں کی سرگرمیاں نہ ہونے اور تدریسی کتب مارکیٹ سے خریدنے کی بھی شکایات کیں۔بچوں نے وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بتایا کہ ا سکول اور کلاس رومز کی ہم خود صفائی کرتے ہیں۔وزیراعلیٰ محسن نقوی نے بچوں سے صفائی کرانے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے پنجاب بھر میں بچوں سے اسکولوں میں صفائی کرانے پر پابندی عائدکردی ۔سیکریٹری اسکولز ایجوکیشن کو فوری نوٹیفکیشن جاری کرنے اور سختی سے عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ جس اسکول میں بچوں سے صفائی کی شکایت سامنے آئی تو متعلقہ پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے لاہور اور سموگ سے متاثرہ شہروں کے اسکولوں کے بچوں کو فری ماسک دینے کا حکم دیا اورواش رومز، واٹر کولرز کو ٹھیک کرنے اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی اور مارکیٹ سے تدریسی کتب خریدنے والے بچوں کے پیسے واپس کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ سکول میں کھیلوں کی سرگرمیاں بحال کی جائیں گی۔
ماڈل ٹاؤن جیسے علاقے کے ا سکول میں بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں ہم انہیں کیا جواب دیں ۔ذمہ دار محکمہ تعلیم ہے ۔یہ بچے ہمارا تابناک کل ہیں انہیں تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ بہترین ماحول دینا ہمارا فرض ہے۔ یہ لاہور کے اس علاقے کاا سکول ہے جو سب سے خوبصورت علاقہ ہے ۔اگر ہم پنجاب کے دوردراز کے اسکولوں کو دیکھ لیں تو ایسا لگے گا کہ یہ قیام پاکستان سے پہلے کا دور ہے اسی حوالہ سے پیس فار لائف ویلفیئر فائونڈیشن کے صدر میاں عامر رزاق نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ غریب طبقات کے بچوں پر ناقابلِ برداشت تعلیمی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کے لیے خصوصی رعایتیں اور سہولیات فراہم کی جائیں ۔دو کروڑ نوے لاکھ بچوں کاا سکول تعلیم سے باہر ہونا بڑا قومی المیہ ہے ملک بھر میں تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر طلبہ و طالبات کے لیے نئی یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل کالج قائم کیے جائیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام اور مخلوط نظامِ تعلیم کے خاتمہ کے ذریعے معیارِ تعلیم کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لیے میٹرک تک لازمی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنہیں محفوظ ماحول میں حصولِ تعلیم کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی تعلیمی ترجیحات کا لازمی حصہ ہونا چاہیے ۔جبکہ کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام میں اساتذہ کرام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے گِرتے ہوئے معیارِ تعلیم کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے دیگر ضروریات و لوازمات کے ساتھ ساتھ یہ بھی اشد ضروری ہے کہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو خصوصی احترام اور معقول تنخواہیں دی جائیں تاکہ شرح خواندگی میں اضافہ اور علمی، تیکنیکی میدانوں میں نئی منازل تک رسائی کے ذریعے ہم خطے کے دیگر ممالک سے آگے نکل سکتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔