... loading ...
حمیداللہ بھٹی
اپنے وطن کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک میںرہنے کے لیے وہاں کاویزہ یارہائشی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی دستاویزات کے بغیر رہنے والے غیر قانونی شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بغیر دستاویزات رہنے والوں کی تعداد چھ ملین بتائی جاتی ہیں، جن میں اکثریت افغانوں کی ہے۔ لیکن چین، ایران ،بھارت ،بنگلہ دیش ،میانمار،افریقہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے کچھ شہری بھی غیر قانونی طورپریہاں مقیم ہیں ۔پاکستان کا شمار ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کسی بھی ملک کا باشندہ اجازت نامے اور پوچھ تاچھ کے بغیر جہاں چاہے بلا روک ٹوک آجا سکتا ہے۔ اِس کی بڑی وجہ ملکی قوانین کی نرمی اور حکام کی لاپروائی ہے۔ ایسی آزادی کوئی ملک نہیں دیتا جیسی پاکستان میں غیر ملکیوں کو حاصل ہے۔
آج چارعشروں سے سرحدوں پردی گئی نرمی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہرجگہ غیر ملکی دندنانے اور ملکی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے پھرتے ہیں بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیر قانونی غیر ملکی امن و امان میں خلل کے ساتھ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں ۔حالانکہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے باوجود افغان شہریوں کا وطن واپس جانے کے بجائے یہاں براجمان رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ پاکستان نے افغانوں کی چالیس برس مہمان نوازی کے بعد اب تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کوملکی قوانین کا پابندبنانے کی طرف دھیان دیاہے۔ اِس کے لیے غیر ملکیوں کو رضاکارانہ طورپر ملک چھوڑنے کے لیے اکتیس اکتوبر تک مہلت دی گئی تاکہ وہ روانگی کا مناسب بندوبست کر سکیں۔ اِس مہلت کے دوران ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائدافغانی طورخم اور چمن کے راستے اپنے وطن چلے بھی گئے لیکن افغانوں سمیت دیگر غیر ملکیوں کی بڑی تعداد اب بھی ملک میں موجود ہے جنھیں رضاکارانہ انخلا کی مہلت ختم ہونے بعد کارروائی کا سامنا ہے۔
پاکستان میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کے لیے دیا گیا وقت ختم ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے ایسے باشندوں کی واپسی کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے یکم نومبر سے وزارتِ داخلہ کا متعلقہ اِداروں کو بغیر دستاویزات مقیم غیر ملکیوں کو گرفتار کرنے، نظر بندرکھنے اور بے دخلی کا اختیار اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ابتدائی طورپر حکام نے فہرستیں بناکر علاقوں کی نشاندہی کر لی ہے ۔مہلت ختم ہونے کے بعدوفاقی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ ملکی قوانین کی روشنی میں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو بے دخل کر سکے۔ بہتر تو یہ ہے کہ جو غیر ملکی ابھی نہیں گئے، وہ اپنے کاغذات مکمل کر انے کے لیے حکام کی جانب سے دی گئی رعایتوں سے فائدہ اُٹھائیں۔ بلاشبہ ایسے لوگ اب متعلقہ اِداروں سے تعاون کرنے سے ہی مزیدپریشانی سے محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن جو تعاون نہیں کرتے یا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں،اُن سے سختی ضروری ہوگئی ہے کیونکہ حکام کی نرمی سارے منصوبے کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں حکومتِ پاکستان کے لیے بہتر ہوگا کہ غیر ملکیوں کا افغانستان سمیت جن ممالک سے تعلق ہے وہاں کی حکومتوں سے بھی رابطے میں رہے تاکہ گرفتارہونے والوں کو فوری واپس بھیجنے کا بندوبست ہو سکتے واپسی کے عمل میں تعاون سود مندثابت ہو سکتا ہے اِس طرح یہ لوگ دل برداشتہ یا کسی مشکل کا شکار ہوئے بغیراپنے اصل وطن جا سکیں گے ۔
غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کے عمل کو ہر مکتبہ فکر نے سراہا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کسی سے بھی نرمی نہ کی جائے حکومتی ڈیڈ لائن کو سنجیدہ نہ لینے والوں کے خلاف ملک گیر آپریشن سے سب کو پیغام ملاہے کہ پاکستان میں اگر کسی غیرملکی نے رہنا ہے تو اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔ باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ حکومت اعلان تک محدود نہیں رہی بلکہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرنے کے ساتھ اب تک سینکڑوں فراد کو حراستی مراکز میں پہنچایاجاچکاہے ۔اِس کے باوجود یہ اعلان کرناکہ رضا کارانہ واپسی اختیار کرنے والوں کو عزت واحترام سے رخصت کرتے ہوئے اِس دوران خوراک ،طبی امدادسمیت دیگر ضروری سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں ۔یہ نہایت احسن فیصلہ ہے مگر واپس نہ جانے والوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کی صرف دھمکی ہی نہ دی جائے بلکہ عملی کارروائی بھی شروع کی جائے ۔افغان پی او آراور اے سی سی کارڈ رکھنے والوں کوبے دخل نہ کرنے کی یقین دہانی اِس امر کی عکاس ہے کہ پاکستان کا طرزِ عمل انسانی حقوق اورعالمی قوانین سمیت ہر حوالے سے ذمہ دارانہ ہے اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ غیر ملکیوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ نہ ہراسانی ہے نہ ہی بلاجواز ہے ۔
اِداروں کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ افغانوں کی ذہن سازی پربھارت نے اربوں کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ یہی لوگ دہشت گردی اور دیگر مجرمانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں اب بھی بھارت کے یہ نمک خوار واپسی کے عمل میں رخنہ ڈال سکتے ہیں۔ افغان باشندوں کے لیے قائم کیمپوں اور نقل و حرکت کے دوران یہ شرپسند شرانگیزی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں ۔ایسے لوگوں پر خاص طورپر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسی تصاویر اور ویڈیو بنا سکتے ہیں جن سے افغان خواتین اور بچوں پر تشدد کا تاثر دے سکیں۔ کچھ افغان دھڑے بھارتی ہدایات پر کٹھ پتلی کی طرح حرکت کرتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر راقم کی نظر سے ایک ایسی تصاویر گزری ہیں جس میں ایک بچے کو گاڑی سے باندھ کر لے جایا جارہا ہے۔ نیز کچھ بچے اور بچیاںا سکول سے نکالنے پر نمناک ہیں ۔صاف ظاہر ہے یہ تصاویر مذموم مقاصد کے لیے خاص طورپر بنائی گئی ہیں۔ اغیار کے کارندوں سے حددرجہ محتاط رہ کرغیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے خلاف بلاتعطل اور بلا تفریق آپریشن جاری رکھنے کی ضرروت ہے۔ تاکہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا مکمل طورپر خاتمہ کیا جا سکے ۔ کیا اِس حقیقت کو جھٹلا یاسکتا ہے کہ افغانیوں نے پاکستان میں منشیات وکلاشنکوف کلچراوراسمگلنگ دھندے کو پروان چڑھایا اور عشروں کی مہمان نوازی کا یہ صلہ دیا ہے کہ نہ صرف پاکستانیوں کی تحقیرکرتے بلکہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ پاکستانی پرچم کی توہین کے تمام واقعات میں براہ راست افغانی ملوث ہوتے ہیں ۔دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات میں بھی بھارت کے ہم خیال یہی افغانی ہیں۔ بہتریہ ہے کہ پاکستان سے نفرت کرنے والے یاتواپنے ملک واپس چلے جائیں یا بھارت کو عزیز رکھنے والے دہلی کے مہمان بن جائیں۔ اِن احسان فراموشوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ بھارت تو اِن سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ زیرِ تعلیم افغان طلبا کے مزید قیام کی تجدید سے انکارکرچکاہے جبکہ جارح افواج سے آزادی دلانے کے لیے پاکستان کی قربانیاں کسی طرح افغانوں سے کم نہیں۔
قومی مفاد کے فیصلے پرہر حکومت کے شراکت دار فضل الرحمٰن کہتے ہیں افغان مہاجرین دو طرفہ مسئلہ ہے اِس لیے افغان حکومت کو اعتماد میں لیکر مہاجرین کی واپسی کا طریقہ کارطے کیا جائے۔یہ موصوف اپنے محدودسیاسی فائدے کے لیے ملکی مفاد کا بیانیہ بدلنے کے ماہرہیں۔ طالبان حکومت نے بھی پاکستان سے کہا ہے کہ دستاویزات کے بغیر مقیم افغانوں کو ملک سے نکلنے کے لیے مزید وقت دیا جائے اور مختصر نوٹس پر جبری ملک بدر نہ کیا جائے۔ اِس کے جواب میں پاکستان بھی مطالبہ کرسکتا ہے کہ آپ بھی پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ پوراکریں اورآئیں دونوں ہمسایہ ملک خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے مل کر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔