... loading ...
ریاض احمدچودھری
” قرآن مجید” اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ، جو آخری نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے ۔ قیامت تک کوئی اورکتاب نازل نہ ہو گی۔ یہ خدائی عطیہ، ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے ، جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے ، اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جاسکتا ہے۔ عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی ادبی نشست میں “حامل او رحمة اللعالمین”کے عنوان پرجناب قاری بزرگ شاہ الازہری نے بتایا کہ کتابت قرآن مجیددورنبوتۖمیں پوراہوچکی تھی لیکن قرآن مجید منتشر اوراق میں منقسم تھااورخط کوفی میں کپڑوں پر،موٹے گتے پر،اونٹ کے شانے کی ہڈی پر،کھجور کی چھال پر،پتھرپراورحلال جانوروں کی کھال پرلکھاگیاتھا جب کہ دورصدیقی میں جنگ یمامہ کے بعد حضرت زید بن ثابت کی نگرانی میں قرآن مجید دوگواہیوں کی شرط کے ساتھ دوبارہ لکھاگیا۔انہوں نے بتایا کہ جبریل علیہ السلام ہررمضان المبارک میں آپۖ کے ساتھ قرآن مجیدکادورکرتاتھا۔ نزول قرآن مجیدسے اب تک دنیاکی سب زبانیں تغیروتبدل کاشکارہوچکی ہیں لیکن قرآن مجیدکی زبان آج بھی زندہ ہے۔
دنیاکے تمام علوم اس کتاب میں سمٹ آتے ہیں۔ گزشتہ تمام انبیاء علیھم السلام کے معجزے ختم ہوچکے لیکن ختمی مرتبتۖکایہ معجزہ تاقیامت زندہ رہے گا۔یہودیوں کی مقدس کتب میں کی گئی تحریف انہیں مسلمان کی گردن زدنی کی اجازت دیتی ہے لیکن قرآن مجید کوئی تحریف نہیں ہوئی۔قرآن مجید کا نزول ضرورت وحاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا ، کبھی ایک آیت، کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں۔ نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی۔یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل، بلکہ ناممکن تھا۔ یہ بات ضروری ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے چناں چہ پورا قرآن مجید بلاکسی کم وکاست کے لکھا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں موجود تھا، اس میں نہ تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی، البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں، کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی۔
صحابہ کرام میں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، وہ خدمتِ نبوی میں پہنچ کر آیات لکھ لیتے تھے۔ جب کسی سورت میں آیت کا اضافہ ہوتا تو معلوم کرکے مرتب فرما لیتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہ کرام کے پاس سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدقہ نسخہ قرآن موجود تھا، بعض کے پاس پورا قرآن بھی تھا اور بعض کے پاس چندسورتیں اور چند آیتیں تھیں، لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل ابتدا سے کثرت سے جاری تھا، اس کی شہادت درج ذیل روایتوں سے ملتی ہے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے والی روایت میں ہے کہ : ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے ہی مسلمان ہوچکے تھے، وہ حضرت خباب بن ارت سے قرآن پڑھ رہے تھے، جب حضرت عمر نہایت غضب ناک حالت میں ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ تھا ،جس کو انہوں نے چھپادیا تھا، اس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔
آپ ۖ کے وصال مبارکہ کے نتیجہ میں وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی یمامہ کے مقام پر مسیلمہ کذاب سے ہولناک جنگ ہوئی جس میں مسلمان فوج کی قیادت حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) فرما رہے تھے۔ اس معرکے میں کم و بیش 1200 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں کم و بیش 700حفاظ کرام تھے۔مزید یہ کہ ان شہید ہونے والے حفاظ و قراء میں حضرت سالم (رضی اللہ عنہ) بھی شامل تھے۔حضرت محمد الرسول اللہۖ نے چار جلیل القدر حفاظ و قراء سے قرآن پاک سیکھنے کا حکم مبارک فرمایا تھا اور حضرت سالم (رضی اللہ عنہ) ا ن چار میں سے دوسرے نمبر پر تھے۔ مزید یہ کہ حضرت سالم (رضی اللہ عنہ)کے فوجی دستے میں دیگرایسے کئی جلیل القدر قراء و حفاظ بھی شامل تھے جن کے پاس قرآن پاک تحریری شکل میں بھی موجود تھا ۔چنانچہ اس پْر درد واقعہ کے بعد حالات کی نزاکت اور مستقبل میں ممکنہ مسائل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کو قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں اکٹھا کرنے کی سعی کا مشورہ دیا۔سیدنا حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے اس عظیم منصوبہ کی ذمہ داری حضرت سیدنا زید بن حارث (رضی اللہ عنہ)کو سونپتے ہوئے انہیں تتبع قرآن کا حکم مبارک فرمایا۔
اس طرح نہایت محتاط انداز میں قرآن پاک کا ایک نسخہ مبارک جمع کر لیا گیا جو حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے پاس اور آپ کے وصال کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس محفوظ رہا اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)کی شہادت کے بعد وہ صحیفہ اْم المومنین حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہ)کے پاس محفوظ رہا۔جلد ہی اس تیار شدہ و تصدیق شدہ مصحف کی بیشتر نقلیں تیار کروا کر مختلف علاقوں میں تقسیم کروا دی گئیں ۔حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے دورِ خلافت میں حضرت حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) آرمینیہ اور آذربائیجان جانے والی افواج کا حصہ تھے ۔انہوں نے اپنے سفر کے دوران دیکھا کہ ایک مقام پر شام اور عراق کی فوجیں جمع ہیں اور ان میں قرات قرآن پاک پر شدید اختلافات ہیں۔ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس موجود عہدِ صدیقی (رضی اللہ عنہ) میں لکھا جانے والا مصحف قرآن منگوایا ۔مصاحفِ عثمانی میں سورتوں کی ترتیب لوحِ محفوظ میں مکتوب ترتیب کے عین مطابق تھی۔ اس کی کتابت میں اعراب و نقاط استعمال نہیں کیے گئے تھے۔یہ قرآن مجید کوفی قدیم (خطِ حیری )میں لکھے گئے تھے ۔آپ نے اْن علاقوں میں پہلے سے موجود تمام قرآن پاک منگوا کر نسخ کروا دئیے ۔ اس طرح امتِ محمدی ایک بہت بڑے فتنہ نما اختلاف سے محفوظ رہا۔ آج بھی قرآنیت کا بنیادی اصول ہے کہ جس قرآن کا رسم الخط مصاحفِ عثمانی کے مطابق ہو گا وہی قرآن کہلائے گا۔