... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، ایک خبر کے مطابق ایک بھارتی شخص 27 سال سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی کوشش کررہا ہے اور دے نہیں پارہا۔بھارت میں طلاق ایک ممنوع موضوع ہے، ایک ایسا ملک جہاں شادی کی قانونی منسوخی عام طور پر صرف ان صورتوں میں حاصل کی جاتی ہے جب میاں بیوی میں سے کسی ایک کی طرف سے تشدد یا ظلم کا واضح ثبوت ہو۔ خاندانی اور سماجی دباؤ اکثر لوگوں کو ناخوش شادیوں میں منسلک رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان ناقابل تردید حقائق کی تصدیق حال ہی میں ایک بار پھر ایک عدالتی مقدمے میں ہوئی جس نے بین الاقوامی خبروں میں سرخیاں بنالیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں ایک عمر رسیدہ شخص تقریباً 40 سال سے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کیے ہوئے ہے اور گزشتہ 27 سال سے اسے طلاق دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے مگر ہر بار سپریم کورٹ اسکی کوشش کو ناکام بنا دیتی ہے۔ رواں ماہ بھی سپریم کورٹ نے اس کی طلاق کی درخواست خارج کر دی۔درخواست گزار نرمل سنگھ پنیسر کی عمر89 سال ہے اور ریٹائرڈ ایئر فورس آفیسر اور قابل ڈاکٹر ہیں جو تقریباً تین دہائیوں سے اپنی 82 سالہ بیوی پرم جیت کور جو کہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں، کو طلاق دینے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بھارتی سپریم کورٹ نے طلاق کی منظوری دینے سے انکار کردیا۔
ہمیں تو یہ بھارتی بڑے میاںکوئی بدقسمت انسان ہی لگتے ہیں، اس عمر میں بھلا طلاق کی کون سوچتا ہے؟ پیر قبر میں لٹکے ہوئے ہیں اور موصوف اپنی اہلیہ سے علیحدگی چاہتے ہیں۔انہیں شاید علم نہیں کہ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بڑے میاں اتنے بدقسمت ہیں کہ چالیس سال سے ان کی اپنی زوجہ ماجدہ سے نبھ نہیں رہی اسی لئے وہ بار بار عدالت جاتے ہیں کہ علیحدگی ہوجائے لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی قانونی شق ان کی خواہش کے آگے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یہ صاحب اگر پاکستان میں ہوتے تو شاید جتنی ان کی عمر ہے اتنے جی نہ پاتے، یہاں تو قبرستان کا آپ وزٹ کریں جگہ جگہ مردحضرات ہی دفن نظر آئیں گے، ہر دس میں سے نو قبریں مردوں کی ہوتی ہیں، وجہ صرف اور صرف خواتین، جن کی وجہ سے وہ ٹینشن لیتے ہیں اور بلڈپریشر، ہائپر ٹینشن ،شوگرکے مریض بن جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔عورتیں اس بڑی تعداد میں اس لئے نہیں مرتیں کہ انہیں کوئی ٹینشن نہیں ہوتی کیوں کہ ان کی کوئی بیوی نہیں ہوتی۔۔ایک صاحب بتارہے تھے کہ ۔۔کل میں نے بیگم سے کہا ڈیٹ پر چلتے ہیں، ڈنر باہر کریں گے۔۔ بیگم نے کہا عشا ء پڑھ کر چلتے ہیں، پوری تسلی سے سترہ رکعات پوری کیں، گھر کی حفاظت کا وظیفہ کیا، شوہر کو قابو رکھنے کا وظیفہ کیا، سارے گھر پر، سب کو دم کیااور تھک گئیں۔۔بولیں ،ڈیٹ ویسے بھی انگریزوں والی حرکت ہے اور غیر اسلامی کام ہے، پھر ہم دونوں کروٹ بدل کر سو گئے، رات آنکھ کھلی تو تہجد چل رہی تھی،کچھ شوخی سوجھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا، مگر خشمگیں نگاہ کی تاب نہ آئی ،فجر ادا کی اور سو گئے۔اگلی شام سیکریٹری کے ساتھ ڈیٹ پر گیا،اسے ڈنر کرایا، ہاتھ بھی پکڑا،کچھ شوخیاں بھی کر گزرے، رات دیر گئے اسے اس کے گھر ڈراپ کیا،اپنے گھر پہنچے۔ بیگم جائے نماز پر بیٹھی شوہر قابو کرنے کا وظیفہ کر رہی تھی اور آسمان سے اترا کوئی مقدس فرشتہ معلوم ہو رہی تھی،خدا نظر بد سے بچائے۔ ہمارے پیارے دوست نے گزشتہ ہفتے ہمیں بتایا کہ کل دن میں ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی،فون اُٹھایا اور کہا!!!جی جناب؟؟دوسری طرف سے کوئی خاتون تھیں بولی۔۔جی کے بچے!!! صبح ناشتہ کیے بغیر کیوں چلے گئے آفس؟؟ کتنی بار کہا ہے رات کی لڑائی کو صبح بھول جایا کرو لیکن تمہیں سمجھ نہیں آتی۔۔آج تم آؤ تو سہی گھر، تمہاری طبیعت صاف کرتی ہوں، تیرے بچوں کا خیال نہ ہوتا تو کب کی تمہیں دفع دور کر چکی ہوتی!!!وہ خاتون نان اسٹاپ بولے جا رہی تھیں اورمَیں ہکا بکا سوچ رہا تھا کہ یہ کون معصوم عورت ہے جو مجھے اپنا میاں سمجھ کر کلاس لے رہی ہے۔۔ادھر تو منگنی کا بھی دور دور تک کوئی سین نظر نہیں آتا۔۔وہ ذرا رُکی تو مَیں نے کہا۔۔ محترمہ آپ نے شاید رانگ نمبر پہ کلاس لے لی ہے لیکن مَیں آپ کا شکر گزار ہوں دو منٹ ہی سہی مجھے شادی شدہ والی فیلنگز آ گئیں آپ کی کلاس سے۔۔کہنے لگی۔۔ مَیں بھی کوئی شادی شدہ نہیں ہوں،بس دل کی تسلی کے لیے رانگ نمبر پر مرد کی آواز سُن کر کلاس لے لیتی ہوں تو عجیب سی تسکین حاصل ہوتی ہے۔۔اسے کہتے ہیں، شدیدکنوارے۔۔
ویسے یہ حقیقت ہے کہ شادی شدہ لوگوں کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی، جو شادی سے پہلے شیر ہوتا ہے وہی شادی کے بعد چوہا ہوجاتا ہے۔وہ جو شادی سے پہلے بڑے بڑے رسک لے لیتا ہے، شادی کے بعد پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ ہمارے خیال میں شیر جیسی زندگی ہونی چاہیے۔۔بس صبح اٹھے، نہ دانت صاف کیے نہ منہ دھویا، ہرن کے پیچھے پانچ منٹ بھاگے ،اسے پکڑا، کھایا، پانی پیا ، ڈکار مارا اور پھر سارا دن کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر سستاتے رہے رات کو سو گئے۔نہ گھر کے کرایہ کی ٹینشن نہ بجلی کے بل کی۔۔نہ ہرن پکانے کے لیے گھی یا تیل خریدنا پڑا، نہ نمک نہ مرچ ۔ نہ ٹوتھ پسیٹ کا خرچہ نہ صابن یا شیمپو کا۔پٹرول 500 روپے لیٹر ہو جائے شیر کی جانے جوتی۔نہ بچوں کو اسکول چھوڑنے جانا ہے نہ لینے۔ نہ اسکول کی فیسوں کی ٹینشن نہ بچوں کی تعلیم کی۔بچے بڑے ہونے لگے تو انہیں بس اتنا سکھا دیا کہ ہرن کیسے پکڑنا ہے،بس تعلیم مکمل۔۔کپڑوں کا بھی کوئی خرچہ نہیں نہ عید پر نہ کسی شادی پر۔ بس جو کپڑے اللہ نے ایک بار پہنا کر بھیج دیے انہی کے ساتھ پوری زندگی گزار لی۔ان کے ہاں شادیاں بھی نہیں ہوتیں نہ اپنے بچوں کی شادی پر لاکھوں کا خرچہ نہ کسی اور کی شادی پر سلامی دینے کا جھنجھٹ۔ ٹیپو سلطان ایسے ہی نہیں کہتے تھے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔بلکہ ہمارے خیال میں تو شیر کی ایک دن کی زندگی انسانوں کی پوری زندگی سے بہتر ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دوسروں کی پلیٹ میں رکھا۔۔”سموسہ” اور۔۔”سیلفی” میں اپنا۔۔”چہرہ” ہمیشہ بڑا ہی لگتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔