... loading ...
سمیع اللہ ملک
اسرائیل نے غزہ پٹی جو سات میل چوڑی اور26میل لمبی ہے،ویاں روزانہ کی بنیادپر60فضائی حملوں میں ہزاروں ٹن بارودکی برسات کررہاہے۔حماس کے ٹی وی چینل،ریڈیو اور دیگرعمارتوں کو نشانہ بناکرکھنڈرات میں تبدیل کردیاگیا ہے۔فلسطینی حکام کے مطابق حالیہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں آٹھ ہزارسے زائدفلسطینی مردوزن اوربچے شہیدکردیے گئے۔اب تک غزہ کی تمام عمارتیں ملبے کاڈھیربن چکی ہیں گویاغزہ کاملبہ لاشیں اگل رہاہے اورایک اندازے کے مطابق دوہزارسے زائد افرادان ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
ان قیامت خیزمناظرمیں ہرآنے والادن سب سے زیادہ خونریزدن ثابت ہورہاہے،جب وحشیانہ فضائی حملوں،گولہ باری اورفائرنگ سے بلاتمیزبے گناہ بچے،مردوزن کے پرخچے اڑادیئے گئے ہیں۔اسرائیلی خونی درندے فوجیوں کے روپ میں معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اوربوڑھوں کو بلاتفریق خون میں نہلارہے ہیں اوراب تواجتماعی قبروں کے گڑھے کھودکراندرزندہ انسانوں کو دھکادیکر گولیوں کانشانہ بنایا جارہاہے لیکن انسانی حقوق کے علمبرداروں کوگویاسانپ سونگھ گیااورزبانیں گنگ ہوگئیں اور انتہائی بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کواسرائیل کوتنبیہ کرنابھی مناسب نہیں سمجھا۔وسطی غزہ میں اسپتال پربھی گولہ باری کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔جیٹ طیارے شہری آبادیوں کوملبے کے ڈھیرمیں تبدیل کر رہے ہیں،رہی سہی کسر صہیونی اسنائپرزنے پوری کردی جوراہ چلتے ہرشہری پرگولیاں برساکرموت بانٹ رہے ہیں۔کئی گھروں میں لاشوں پرماتم کرنے والے خود خون میں نہاگئے اورکوئی رونے والابھی نہیں بچا۔غزہ کے ہسپتالوں میں گنجائش اورادویات ختم ہونے سے زخمیوں نے تڑپ تڑپ کی جان دے دی ہے اورآنے والے دنوں میں باقی ماندہ زخمی بھی شایداللہ کی طرف لوٹ جائیں۔
اسرائیلی بمبارطیاروں نے وسطی غزہ میں واقع اقصی ہسپتال کونشانہ بنایاجس میں مریضوں سمیت107افرادشہیداور183زخمی ہوگئے۔خان یونس میں گھرپربمباری سے بیس افرادموقع پر شہیدہوگئے اوربعد ازاں15شدیدزخمی بھی اپنے پیاروں سے جاملے۔اسرائیلی درندگی کے سب سے ہولناک مناظرغزہ کے علاقے شجائیہ میں نظرآئے جہاں کی تاریک گلیوں کے ہرگھرمیں جابجاخون بکھراہواہے اورابھی تک سیاہ دھواں کے نشانات بھی موجوہیں۔ درخت گرے پڑے اورہرقسم کے کھمبے ٹیڑھے میڑھے ہوکراپنی تباہ حالی کی داستاں اپنی زباں میں پیش کررہے ہیں۔سڑکوں پر ملبے کے ڈھیراوراسرائیلی بمباری سے سڑکوں پرجگہ جگہ گڑھے اسرائیل کے ظلم وستم کاماتم کررہے ہیں۔
گولہ باری میں ذراساوقفہ ہوتے ہی ایک کے بعددوسری،تیسری اورپھرلگاتارخون میں لت پت لاشیں نکالی جارہی ہیں۔ایک گلی میں لاشیں ہی لاشیں ہیں لیکن ان کے اعضا بکھرے پڑے ہیں اوربعض لاشیں توناقابل شناخت ہیں،تاہم ان کے ہاتھوں کی مہندی سے شناخت کیاگیا کہ یہ کسی خاتون یابچی کالاشہ ہے۔اگلی نکڑپرمیاں بیوی بھاگتے ہوئے جارہے تھے،باپ نے شیرخوار بچے کوسینے سے لگارکھاتھااورلاشوں پرسے گزرتے ہوئے ان کے قدم تھم جاتے تھے،زردچہروں کوکان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی،انہی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں زندگی محفوظ ہو۔جونہی باپ ایک دوکان کے شیلٹرکے نیچے پہنچ کراپنی بیوی کو آوازدیتاہے کہ اچانک ایک گولہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھٹتاہے جواس کی بیوی اور تین سال کی بچی کوہوامیں پرزے پرزے کرکے اڑادیتاہے ۔یہ مناظردیکھ کرمیرے ہوش وحواس جواب دے جاتے ہیں اورمجھ میں اتنی تاب نہیں کہ مزیددیکھ سکوں اورکچھ لکھ سکوں ۔مجھے یادہے کہ جنگ کے دنوں میں ٹی وی پرایساہی مناظردکھائے جارہے تھے کہ بمباری ہورہی تھی اورایمبولنس کاپہنچنا ناممکن ہورہاتھا۔لوگوں کے پاس دوہی راستے تھے،گھروں میں رہ کراپنی زندگی کی باقی ماندہ سانسیں اورگھڑیاں گنیں یاجان بچانے کیلئے بھاگنے کاخطرہ مول لیاجائے۔بھاگنے والے اپنے روتے بلکتے بچوں کااٹھائے ننگے پاں کسی محفوظ مقام کی تلاش میں ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں سے واپسی کاکوئی راستہ نہیں ۔تین افراداپنی بوڑھی ماں کواٹھائے جا رہے تھے، جب ان سے پوچھا: کیا دیکھا ہے؟ان کامختصرجواب تھا ”خوف اورموت”۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم ممالک سمیت عالمی قیادت تومجرمانہ خاموشی اختیارکئے ہوئے ہے تاہم اہل غزہ کے حق میں دنیا بھرکے عوام کے سراپااحتجاج نے اسرائیل کی بربریت اورمغربی طاقتوں کی بے حسی اورجانبدارانہ رویے کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔فرانس میں نکالی جانے والی ایک ریلی کاپولیس سے بھی تصادم ہوا۔مشتعل مظاہرین نے احتجاج کے دوران میں توڑپھوڑبھی کی۔حکومت فرانس بھی اسرائیل کے خلاف عوام کاغم وغصے سے معمور احتجاج کچل نہیں سکی۔یورپ کے دیگرشہروں لندن،برمنگھم،مانچسٹر،
گلاسگو، ویانا، ایمسٹرڈیم اورسٹاک ہوم اورخودامریکاکے کئی بڑے شہروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ریلیاں احتجاج کررہی ہیںلیکن صدافسوس کہ بعض عرب ممالک سے میرے رب نے یہ توفیق ہی سلب کرلی ہے۔امریکی صدرکی اسرائیل کے حق دفاع کی بودی دلیل نے اقوام عالم کوایک مرتبہ پھربہت مایوس کیا۔ادھروائٹ ہائوس کے ترجمان نے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا:اسرائیل اورفلسطین کے درمیان کشیدہ صورتحال کی اصل ذمہ داری حماس پرعائدہوتی ہے اس لئے اسرائیل کوحق ہے کہ وہ اپنے دفاع میں حماس کوبالکل ختم کردے۔
یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہونے ایک مرتبہ پھردہمکی دی ہے کہ ہلاکتوں کے باوجود آپریشن جاری رہے گااوراس آپریشن کیلئے انہیں عالمی طاقتوں کی مضبوط حمایت حاصل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ حماس کی راکٹوں کی بارش نے نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے تمام حمایتیوں کوششدرکرکے رکھ دیاہے۔یہ سب تگ ودوفلسطینیوں کی مسلسل پامالی روکنے کی مساعی ہیں۔نہتے فلسطینیوں کاقصوریہ ہے کہ وہ اپنی ہی سرزمین کے ایک حصے میں آبادہونے کی جدوجہدکررہے ہیں اوراپنے لئے آزادی کاحق مانگتے ہیں،وہ حق جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تسلیم کیاجاچکاہے لیکن اس جدوجہدآزادی کے دوران میں اگرکبھی کبھار عدم تشدد کاکوئی واقعہ پیش آجائے تواسرائیل کواپنے دفاع کے نام پرقتل عام کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں محکوم قوموں کایہ حق تسلیم کیاگیاہے
کہ اگران پرپرامن جدو جہدکے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں تووہ اپنے تسلیم شدہ حقوق کی خاطرہتھیاراٹھاسکتی ہیں۔