... loading ...
ریاض احمدچودھری
ملک میں 90 روز میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ میںبتایا کہ الیکشن کمیشن 11 فروری 2024 کو ملک میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہے۔جس پر عدالت نے حکم دیا کہ صدر مملکت سے مشاورت کر کے الیکشن کی تاریخ سے متعلق آگاہ کیا جائے۔سپریم کورٹ کے حکم پر صدر عارف علوی سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان نے ملاقات کی جس میں الیکشن کمیشن کے ارکان بھی موجود تھے۔ملاقات میں فیصلہ ہوا کہ ملک بھر میں عام انتخابات 8فروری 2024بروزجمعرات ہونگے۔نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب لیاقت بلوچ نے سپریم کورٹ میں انتخابات انعقاد سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کی مشاورت کے بعد8 فروری 2024ء کو انتخابات کے انعقاد کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے ہمارا مسلسل یہی مطالبہ تھا کہ بے یقینی کے خاتمہ کے لیے انتخابات کے دن کا اعلان کیا جائے۔ الیکشن انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ کی کاوشیں لائقِ تحسین اور اطمینان بخش ہیں۔ سیاسی استحکام اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں۔
الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد یقینی بنائے اور انتخابات میں دولت کی حرام کاری بند کرنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرے۔ الیکشن میں پیسے کی ریل پیل جمہوریت، جمہوری اداروں اور انتخابی عمل کے لیے زہر قاتل ہے۔ انتخابی عمل پر عوام کے اعتتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی عمل صاف، شفاف اور ہر قسم کی مداخلت سے پاک ماحول میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔ سیاسی انجینئرنگ، دھونس، دباؤ اور حق تلفی کی بنیاد پر کرائے گئے الیکشن ملک میں انارکی کو فروغ دینے اور پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کا باعث ہوگا۔انتخابات میں تاخیر پر جماعت اسلامی نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی تھی جس میں مؤقف اپنایا گیاتھا کہ عام انتخابات میں تاخیر آئین کے آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہے لہذا عدالت 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو احکامات جاری کرے۔
قائمہ کمیٹی سیاسی انتخابی اْمور جماعت اسلامی کے صدرلیاقت بلوچ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اب ہر دباؤ سے آزاد ہوکر انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اب آئین کی خلاف ورزی، انتخابات کی تاخیر کے ذمہ داران کا بھی تعین کرے۔ تمام جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔ کسی جماعت یا شخصیت کو بلاوجہ الیکشن سے باہر رکھنا آئین اور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ اس لیے انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہر طرح کی سیاسی انجینئرنگ کے نظریہ ضرورت کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ قومی اسمبلی کی مدت کے خاتمے کے 60 دن کے اندر نئے انتخابات کے لیے تیار رہنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، لیکن انتخابات کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کی خاطر سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مدت ختم ہونے سے چند دن قبل قومی اسمبلی تحلیل کردی اور حکومت کو 60 دن کے بجائے 90 دن کی مہلت مل گئی۔ اس سے قبل پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلیوں کو وزرائے اعلیٰ نے تحلیل کردیا تا کہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے حکومت پر دبائو ڈالا جاسکے، لیکن دونوں صوبوں کے گورنروں نے انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار کردیا اور دلیل یہ دی کہ چونکہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی ہے، اس لیے وہ انتخابات کی تاریخ نہیں دیں گے۔ پنجاب اور کے پی کے میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا تنازع بھی عدالت عظمیٰ میں گیا تھا۔
جناب لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ جو لوگ باربار آزمائے جاچکے ، ان کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑے گا، اصل مسئلہ فرسودہ نظام ہے، جسے بدلنا ضروری ہے۔ پون صدی بعد بھی پاکستان حقیقی منزل سے دور ہے۔جاگیرداروں، وڈیروں اور ظالم سرمایہ داروں نے سازش کے تحت کروڑوں مسلمانوں کی قربانیوں کو رائیگاں کیا۔ ملک میں پارلیمنٹ، عدلیہ، الیکشن کمیشن آزاد نہیں، معیشت آئی ایم ایف کے قبضے میں ہے۔ جمہوریت کی بات کرنے والی نام نہاد سیاسی جماعتیں خود جمہوریت کے تصور سے ناآشنا، فیملیز اور وڈیروں کے کلبز ہیں۔ آئین پاکستان سے کھلواڑ اور ملک کی نظریاتی اساس پر حملے ہوتے ہیں۔ ملک کی شہ رگ کشمیر دشمن کے قبضہ میں ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سال میں کئی بجٹ پیش ہوتے ہیں۔ ڈالر سستا ہونے کے باوجود مہنگائی پر کوئی اثر نہیں پڑا، مہنگا ہونے پر گھنٹوں میں قیمتیں اوپر چلی جاتی ہیں۔ملک میں جمہوری پارلیمانی اقدار مستحکم نہیں ہونے دی گئیں۔ حکمران جماعتیں کرسی اور اختیار کا ناجائز استعمال کرتی ہیں۔ اِسی لیے اسمبلیوں کی مدت کی تکمیل کے بعد عبوری حکومت کے قیام کے لیے غیر جانبداری آئین کی روح ہے۔ سیاسی جمہوری پارلیمانی پارٹیاں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور انتخابات کے لیے غیرجانبدار عبوری حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کام میں کوئی بھی مداخلت نہ کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز بروقت اور شفاف غیرجانبدارانہ انتخابات پر اتفاق کرلیں۔ 2013، 2018کی طرح 2023ء کے عام انتخابات متنازع نہ بنایا جائے۔ ایسا عمل ملک کی سلامتی ، وحدت اور اقتصادی نظام کے لئے اور زیادہ تباہ کن ہو گا۔
اس وقت ملک سیاسی انتشار سے دوچار ہے جس کا واحد حل مقررہ مدت میں انتخابات کا انعقاد ہے۔ کچھ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی کشمکش کے باعث نگران سیٹ اپ کا دورانیہ طویل ہو سکتا ہے، اگر انتخابات میں تاخیر کی گئی تو ملک میں مزید افراتفری کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور عوام میں بھی اضطراب بڑھ سکتا ہے۔موجودہ حالات کے تناظر میںاب ملک انتخابات میں تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے نگران سیٹ اپ کو اپنی ساری توجہ اس جانب دینی چاہیے اور الیکشن کمیشن سمت تمام ریاستی اداروں کو اس معاملے میں نگران حکومت سے تعاون کرنا چاہیے تاکہ بروقت انتخابات کا انعقاد ممکن ہواور ملک کو سیاسی انتشار سے نکالا جاسکے کیونکہ ایک منتخب عوامی حکومت ہی ملک کو بحران سے نکال کر عوام کو ریلیف مہیا کرسکتی ہے۔