... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
حکومت کو چاہیے کہ کراچی اور لاہور کو بھی جڑواں شہر قرار دے دے، کیونکہ اس وقت دونوں شہروں میں صفائی ستھرائی ،فضائی آلودگی اور قبضہ گروپوں کی صورتحال ایک جیسی ہے ۔سیاسی آلودگی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی نے بھی ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ ایک طرف لوٹ مار کے سیاسی نظام نے ہمیں معاشی طور پر مفلوج کررکھا ہے تو دوسری طرف فضائی آلودگی نے ہمیں جسمانی طور پر کمزور اور لاغر کردیا ہے اور ان دونوں حملوں نے ہمیں ذہنی مریض بنا کررکھ دیا ہے۔ پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور کو اس وقت فضائی آلودگی نے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ تو بھلا ہو ہماری عدالتوں کا جو ہر عوامی فلاحی کاموں میں ہمیشہ بازی لی جاتی ہیں۔ اب بھی شہر کی گندی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے کمشنر کو شہر میں اسموگ ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس شاہد کریم نے اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کمشنر لاہور سے کہا کہ آپ اس شہر کے مالک ہیں اور شہر کی کیا حالت کر دی ہے، شہر کی صورتحال دیکھ کر شرمندگی ہونی چاہیے۔ عدالت نے کمشنر لاہور کو اسموگ ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو تاحکم ثانی سیل کردیا جائے۔ عدالت نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھی بند کرنے کا حکم دے دیا ۔
اگر ہم شہر قائدکی صورتحال کا جائزہ لیں تو وہاں پر بھی موسم کی تبدیلی سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا، شہرکی ہوا میں آلودگی کی شرح 168 پرٹیکیولیٹ میٹرکی ریکارڈحد عبور کرگئی ہے جو عام انسان کو بیمار کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کا بھی سب کو اندازہ ہے اور پارکوں کا بھی ان دونوں مقامات عام شہریوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ایک صحت کو بچانے کے لیے اور دوسری جگہ اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے لیکن ان دونوں مقامات پر سانس لینا مشکل ہوچکا ہے۔ شہروں کے اندر گرین بیلٹس فضائی آلودگی کو بہت حد تک کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں شہروں کی خوب صورتی میں شان دار انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ گرین بیلٹ ایریاز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔لاہور اورشہر قائد کی خوب صورتی میں بھی گرین بیلٹ کا اہم کردار رہا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ بھی مافیاز کا ہدف بن گئے ہیں۔ کراچی ماسٹر پلان کے تحت ہر دُہری سڑک کے ساتھ گرین بیلٹ کا ہونا ضروری ہے۔ مگر اس شہر میں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ 30 سے 40 فی صد گرین بیلٹس پر ریسٹورینٹس اور کار شورومز کا قبضہ ہے جب کہ بقیہ حصوں پر کچرا کنڈیاں اور پتھارے بنے ہوئے ہیں یا یہ گرین بیلٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس وقت چالیس فی صد سے زائد گرین بیلٹ پر قبضہ مافیا بیٹھی ہوئی ہے جو المیے سے کم نہیں کیونکہ بہت سے گرین ایریاز ناقص منصوبہ بندی اور بد انتظامی کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ شہر میں گھومنے نکلیں تو کئی علاقوں میں گرین بیلٹ کا تو نام و نشان نہیں ملتا ۔ البتہ اس کی جگہ کچرا کنڈیاں بدبو اور گندگی پھیلاتے ضرور ملتی ہیں۔
کراچی شہر میں 10 ہزار کلومیٹر تک سڑکوں کا جال ہے جس کے ساتھ 100 فی صد گرین بیلٹ کا لازمی حصہ ہونا چاہیے مگر قبضہ مافیا اور متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی نے ان گرین بیلٹ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کراچی جو کبھی اپنے معتدل موسم کے لیے مشہور ہوتا تھا اب سخت ترین گرم موسم اور فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ اس کی بڑی وجہ بڑھتی آبادی، درختوں کی کمی،کنکریٹ سے بنی عمارتیں، دھواں چھوڑتی فیکٹریاں اور گاڑیاں ہیں ۔ ڈی جی پارکس جنید اللہ اس حوالے سے بہت خوبصورت کا م کررہے ہیں۔ اگر انکی کوششیں اسی طرح جاری رہی تو کراچی میںہریالی نظر آنا شروع ہوجائیگی اور لوگ ماحولیاتی تبدیلی بھی محسوس کرینگے کیونکہ انہوں نے کراچی میں ڈھائی لاکھ پودے لگا دیے ہیں۔ اسی طرح کراچی سے ملتی جلتی صورتحال لاہور کی بھی ہے جہاں قبضہ گروپوں نے گرین بیلٹ سمیت مختلف پارکوں پر بھی قبضے جما رکھے ہیں جبکہ لاہور کا کائی فٹ پاتھ بھی قبضہ گروپوں سے خالی نظر نہیں آتا۔ باقی لاہور کو ایک طرف صرف مال روڈ اور ہال روڈ کو ہی ایک نظر دیکھ لیں ۔مال روڈ پورے لاہور کا دل ہے اور اسکے ساتھ ہی ہال روڈ ہے جہاں ملک بھر سے لوگ خریداری کرنے کے لیے آتے ہیں جو وہ یہاں دیکھ کر جاتے ہیں اسی پر وہ اپنے شہروں میںعمل کرتے ہیں ۔ ہال روڈ میںفٹ پاتھ نظر ہی نہیں آتا۔ ہال کے روڈ یونین کے عہدیداروں نے فٹ پاتھ بھی ٹھیکہ پر چڑھا رکھے ہیں۔ جہاں سے لاکھوں روپے روزانہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہ روڈ پنجاب اسمبلی وزیر اعلی آفس،ہائیکورٹ اور سیکریٹریٹ کے قریب ترین ہے جہاں پورے پنجاب کو کنٹرول کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں اور انکی آنکھ کے نیچے اس روڈ پر قبضہ گروپوں کا راج ہے جو بدمعاشی سے ہال روڈ کی ایک ایک انچ پردھڑلے سے قابض ہیں اور مقامی پولیس انکی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔ کارپوریشن اس طرف منہ نہیں کرتی کیونکہ یہ بااثر لوگ ہیں اور انکے مقابلہ میں کسی دور دراز علاقے کی خالی سڑک پر کوئی ریڑھی لگائے اپنے بچوں کا رزق تلاش کررہا ہے تو اسے کارپوریشن والے اسکی ریڑھی کو اٹھا کر ایسے پھینکتے ہیں جیسے ہمارے لوگ اپنا کچرا کسی کے مکان کے سامنے پھینکتے ہیں لاہور باقی شہروں کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس شہر کو مثالی بنانے میں ہماری انتظامیہ کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی جسکے بعد مجبورا عدالت کو ہی ہر کام میں مداخلت کرنا پڑی۔