وجود

... loading ...

وجود

غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم

جمعه 03 نومبر 2023 غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم

معصوم مرادآبادی

غزہ کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جنگ اب تیسرے ہفتہ میں داخل ہوچکی ہے ۔انتہائی تباہ کن فضائی حملوں کے بعد اب زمینی کارروائی کی تیاری ہے ۔بظاہر اسرائیل کا نشانہ حماس ہے ، لیکن گزشتہ دوہفتوں کے دوران غزہ پر جو آگ برسائی گئی ہے ، اس کی زد میں صرف عام شہری آئے ہیں، جن کی تعداد چارہزار سے تجاوزکرچکی ہے ۔ ان میں ایک ہزار سے زیادہ بچے ہیں۔غزہ میں برسرکار ایک خاتون ڈاکٹر نے عالمی رہنماؤں سے بلکتے ہوئے یہ سوال پوچھا ہے کہ معصوم بچوں کا قصور کیاہے ؟ ان کے جنازوں کو کہاں رکھیں؟غزہ کے اسپتالوں میں جنازے رکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔ غزہ میں عام شہریوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ۔ جو لوگ جان بچانے کے لیے اسپتالوں، عبادت گاہوں اور دوسری محفوظ جگہوں پر پناہ لے رہے ہیں، وہاں بھی اسرائیلی بم ان کا پیچھا کررہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو ایک900سالہ قدیم چرچ اور ایک مسجد پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوگئے ۔
حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل نے جو وحشیانہ کارروائیاں انجام دی ہیں، ان میں قدم قدم پر ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے ، جو عالمی قوانین کی رو سے جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔گزشتہ منگل کو غزہ کے الاہلی عرب اسپتال پر کی گئی بمباری اس کی سب سے بدترین مثال ہے ۔ ظالم صیہونی حکومت نیجب بم برسائے تو اسپتال زخمیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ 2008کے بعد یہ اسرائیل کی طرف سے کی گئی سب سے جارحانہ کارروائی ہے ۔حملے کے بعدجو تصاویر منظرعام پر آئیں ان میں اسپتال شعلے اگل رہا تھا۔ شیشوں کی کرچیں اور انسانی اعضاء ہرطرف بکھرے ہوئے تھے ۔ اس وحشیانہ کارروائی میں کم ازکم پانچ سو افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے ۔ اس تباہی وتاراجی کے بعد اسپتال انتظامیہ نے جب پریس کانفرنس کرکے میڈیا کو تفصیلات بتائیں تو ڈاکٹروں کے قدموں میں بھی لاشیں بچھی ہوئی تھیں اور ان کے پاس قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ اسپتال پرکی گئی درندگی اور وحشت کی وجہ سے جب اسرائیل پوری دنیا میں مطعون ہوا تو اس نے یہ جھوٹ بولنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی کہ اسپتال دراصل حماس کے حملے میں تباہ ہوا ہے ۔ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ جنگ میں سب سے بڑا خون سچائی کا ہوتا ہے ۔مغربی ملکوں کی اکثریت اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی میں مصروف ہے ۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے اسرائیل کی سلامتی اور مضبوطی ان کی بقاء کے لیے بہت ضروری ہے ۔اسی لیے امریکی امداد غزہ کی بجائے اسرائیل پہنچ رہی ہے ۔
غزہ کے الاہلی اسپتال کی تاراجی کا منظر ان مناظر میں سب سے دردناک منظر ہے جو گزشتہ دوہفتوں کی بمباری کے دوران اسرائیل نے غزہ میں تخلیق کئے ہیں۔دنیا میں جنگوں کا سلسلہ نیا نہیں ہے ۔ اب تک ہزاروں جنگیں لڑی گئی ہیں، لیکن جنگوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔ جنگوں کے دوران نہتوں، بے قصوروں، بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ چہ جائیکہ زخمیوں اور لاچار وں پر بم برسائے جائیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جنگ دنیا کی ایک ایسی غاصب اورظالم طاقت کے ساتھ ہے جس نے گزشتہ 75 برسوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف ہر وہ ظلم روا رکھا ہے ، جس کی اجازت دنیا کا کوئی دستور نہیں دیتا۔حیرت اس مغربی دنیا پر ہے جو اسرائیل کے بڑے سے بڑے ظلم تریاق سمجھ کر پی جاتی ہے ۔ غزہ کے اسپتال پر ہوئی وحشیانہ بمباری کے بعد امریکہ، برطانیہ، کناڈا اور فرانس نے افسوس تو ظاہر کیا ہے ، لیکن کسی نے اسرائیلی بربریت اور درندگی کی مذمت نہیں کی۔حماس کے حملوں کی مذمت میں ڈکشنریاں خالی کردینے والے یہ نام نہاد’مہذب’ ممالک اسرائیلی جارحیت پر چپی سادھے ہوئے ہیں۔امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے سربراہان مملکت اسرائیل کا حوصلہ بڑھانے کے لیے تل ابیب پہنچے اور نتن ہاہو سے بغل گیر ہوکر انھیں ہر ممکن امداد کا یقین دلایا۔شاید اسی کو بے شرمی اور بے حسی بھی کہتے ہیں۔ ظاہر ہے دنیا پر سب سے بڑا جہنم تخلیق کرنے کے لیے اسرائیل کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔کیونکہ ان ہی کی پشت پناہی کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے تمام حقوق سلب کئے ہیں۔
اسرائیل نے گزشتہ 75 برسوں کے دوران فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے ان پر ہر قسم کے وحشیانہ مظالم ڈھائے ہیں۔ان کی نسل کشی کی گئی ہے اور انھیں غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی میں محصور کرکے ان کے تمام انسانی حقوق سلب کرلیے ہیں۔ اس وقت غزہ میں بارہ لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ اسرائیل کے فضائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہاں قبرستانوں کی زمین تنگ ہوگئی ہے ۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک چودہ اسپتال ملیا میٹ کئے جاچکے ہیں۔مصر میں تعینات فلسطینی سفیر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مرنے والوں کی لاشوں کو دفنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔انھوں نے غزہ پٹی کو خوراک، طبی سازوسامان کی فراہمی اور امداد کے داخلے کو یقینی بنانے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداریوں کو فوری طورپر کھولنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین کا کہنا ہے کہ غزہ میں بیس لاکھ سے زیادہ شہریوں کو پانی کے بحران کا سامنا ہے ۔ یہ صورتحال زندگیوں کے لیے خطرہ بن گئی ہے ۔جنگ کے پندرہویں روز بھی غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور اسرائیلی طیارے غزہ پر ہزاروں ٹن بارود گراچکے ہیں۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جارڈن اور مصر جیسے مسلم ملکوں نے فلسطینیوں کو پناہ دینے سے انکار کردیا ہے اور ان کے لیے اپنی سرحدیں سیل کردی ہیں۔یہ صورتحال سب سے زیادہ تکلیف دہ اور شرمناک ہے ، جبکہ اسکاٹ لینڈ جیسے ملک نے اہل غزہ کے لیے اپنے دروازے کھول دئیے ہیں۔
مغربی دنیا انسانیت کی تاراجی کے دردناک مناظر کو نہ صرف یہ کہ ایک تماشے کی طرح دیکھ رہی ہے ، بلکہ وہ اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہو کر اسے شاباشی بھی دے رہی ہے ۔ خود کو سب سے زیادہ مہذب ملک کہنے والا امریکہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش ہے ۔ خطرناک ترین ہتھیارو ں سے لیس اس کا سب سے بڑا بحری بیڑا غزہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوچکا ہے ۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے دفاع میں کسی بھی حدتک جاسکتا ہے ۔امریکی وزیرخارجہ تل ابیب کے دورے میں نتن یاہو سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہمیں یہاں صرف امریکی وزیرخارجہ کے طورپر نہیں بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سیبھی آیاہوں۔یہ میرا ذاتی مسئلہ بھی ہے ۔کون نہیں جانتا کہ پچھلے 75 برسوں میں امریکہ نے اسرائیل کو پال پوس کر بڑا کیا ہے ۔ غاصب اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کرنے کے لیے اب
تک جو بھی غیرقانونی کارروائیاں انجام دی ہیں، ان میں امریکہ اس کا سب سے بڑا معاون اور مدد گار رہا ہے ۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور ظلم وبربریت کے خلاف اب تک 250سے زائد قراردادیں پاس کی ہیں،لیکن ان میں سے ایک قرارداد پر بھی اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے ۔اوسلو معاہدہ تو خود امریکی صدربل کلنٹن کی موجودگی میں تیس برس پہلے عمل میں آیا تھا جس پر اسرائیلی وزیراعظم اور پی ایل اوسربراہ نے دستخط کئے تھے ۔اس معاہدے کے تحت اسرائیل کو فلسطین کی22فیصد زمین واپس کرنی تھی تاکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہوسکے ۔لیکن ایسا کرنے کی بجائے اسرائیل پورے فلسطین کو ہڑپنا چاہتا ہے ۔اسرائیل نے غزہ میں ظلم وبربریت کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔جرمنی، روس اور اسپین نے غزہ کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے ۔ عرب ممالک ابھی میٹنگیں کرنے میں مصروف ہیں۔ان کی تن آسانی نے ہی یہ دن دکھائے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر