... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
پاکستان میں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے ملک چھوڑنے کی مہلت ختم ہوگئی ہے اور اس سلسلہ میں سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پرمیپنگ اور جیو فینسنگ کرکے مشکوک افرادکی نشاندہی کرلی ہے۔ اب غیرقانونی غیرملکیوں کی منقولہ و غیرمنقولہ جائیدادضبط کرلی جائیگی ۔ باقی صوبوں کی طرح پنجاب حکومت نے بھی مقیم غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کیلئے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اس سلسلہ میں لوگوں کی اسکیننگ اور غیرملکی افراد کی میپنگ کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے ۔تارکین وطن کی واپسی کے حوالے سے متعلقہ محکموں کی ٹیمیں بھی مصروف عمل ہیں جنہیں رینجرز اور پولیس کی سیکیورٹی میسرہے۔ پنجاب پولیس ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود کی سربراہی میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہی ہے۔ اگر حکومتی انتظامات کا جائزہ لیا جائے تو ابھی تک غیر ملکی افراد کے پاس موجود دستاویزات کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے جن کے پاس کاغذات نہیں ہیںان کیلئے مختلف اضلاع میں کیمپ قائم ہیں جہاںرہائش، کھانے پینے، طبی امداد اور سکیورٹی کے انتظامات ہیں۔ ان کیمپوں میں مرد اور عورتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ رہائش گاہیں بھی بنائی گئی ہیں اور بارڈرکراسنگ پوائنٹس تک انخلا کے دیگر ضروری اقدامات بھی مکمل کرلیے گئے ہیں جبکہ غیرقانونی تارکین کو پناہ دینے والے پاکستانیوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا بھی اس حوالے سے بڑا واضح موقف ہے کہ غیرقانونی غیر ملکیوں کو نکالنے کیلئے حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہے، اس لیے ہمیں بھی بطور پاکستانی ایسے افراد کی نشاندہی کرنی چاہیے جو غیر قانونی یہاں مقیم ہیں۔ورنہ غیرقانونی افراد کے ساتھ کاروبار ، انہیں گھر کرائے پر دینے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، ایسے پاکستانیوں کے خلاف بھی فارن ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ غیر ملکی اور غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کے انخلا کے لیے وزیراعظم نے ایک ورک پلان کی منظوری دے رکھی ہے جس کے تحت انہیں مرحلہ وار واپس بھیجا جائے گا ،جن غیر قانونی لوگوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے وہ قانونی طریقے سے دوبارہ واپس بھی آ سکتے ہیں ۔غیر قانونی مقیم افراد کوحکومت ہولڈنگ سینٹر کے قریب ترین مقام سے انہیں ان کے ملک بھیجا جائے ۔بعض لوگ جان بوجھ کر کچھ غلط باتیں پھیلا رہے ہیں کہ یہ آپریشن صرف افغانیوں کے خلاف ہے۔ حالانکہ یہ انخلا کا معاملہ غیر قانونی مقیم تمام افراد کے خلاف ہے کسی مخصوص گروہ کے خلاف نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں زیادہ تعداد افغانستان کے لوگوں کی ہے اور ان کے حمایتی بھی زیادہ ہے اور وہی لوگ ان کے حق میں شور مچا رہے ہیں کہ حکومت افغانیوں کے خلاف کارروائی بند کرے۔ حالانکہ یہ تاثر غلط ہے کہ صرف افغانستان کے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے اس لیے ہمیںحکومتی اقدامات کی کھل کر حمایت کرنی چاہیے بلکہ اس بات پر ہمیں حکومت کو شاباش دینی چاہیے کہ انہوں نے غیر قانونی مقیم افراد کے خلاف کوئی زیادتی اور جبر نہیں کیا بلکہ انخلا کے دوران خواتین اور بزرگوں کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھاہوا ہے ۔بچوں کے ساتھ شفقت والا سلوک کیا جا رہا ہے اور اب تک تقریبا دو لاکھ کے قریب غیر قانونی افراد دو ماہ کے دوران واپس بھی چلے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت کا بڑا واضح موقف ہے کہ غیر قانونی مقیم افراد واپس اپنے ملکوں کو جائیں اور قانونی دستاویزات حاصل کر کے واپس آ سکتے ہیں۔ ویزا لے کر یہاں آ کر کاروبار کر سکتے ہیں اوردوستوں سے مل سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت کا ایک اور بڑا واضح پیغام ہے کہ وہ پاکستانی جنہوں نے غیر قانونی مقیم افراد کو گھر کرایہ پر دے رکھے ہیں ،وہ بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔ ایسے افراد کے لیے موقع ہے کہ وہ غیر قانونی مقیم افراد کے بارے میں حکومت کو اطلاع فراہم کریں تاکہ وہ کسی بھی پریشانی سے محفوظ رہیں اور پولیس کا تو سب کو اندازہ ہے ہی کہ جب کوئی ان کے قابو آجاتا ہے پھر وہ بغیر کچھ لیے دیے واپس بھی نہیں آسکتا ۔اس لیے ایسے مالکان جنہوں نے کسی بھی غیر ملکی کو مکان ،دُکان یا ا سٹور کرایے پر دے رکھا ہے وہ اس کی اطلاع خود ہی کردے یہ ایک قومی فریضہ بھی ہے اور آنے والی مشکلات سے بچنے کا واحد راستہ بھی ہے ۔حکومت نے اس حوالے سے ایک بھر پور کمپین بھی چلائی ہوئی تھی جس میں واضح کیاگیا تھا کہ تمام غیر ملکی 31اکتوبر تک پاکستان سے نکل جائیں اور اس ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع نہیں ہوگی کیونکہ پناہ گزینوں کی آبادی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خوف زدہ ظلم و ستم، تنازعات، عمومی تشدد، یا دیگر حالات کی وجہ سے اپنے اصل ملک سے باہر ہیں جن کی وجہ سے ان کے اپنے ملک کے حالات خراب ہوئے تھے، اس وقت ہماری جیلوں میں بھی بہت زیادہ غیر ملکی قید ہیں جو منشیات فروشی سمیت جسم فروشی جیسے گھنائونے کاروبار میں ملوث رہے، اب بھی دیکھا جائے تو پاکستان سے باہر منشیات لے کر جانے والوں میں زیادہ تعداد غیر ملکیوں کی ہی ہوتی ہے جو منشیات کی فروخت سے حاصل ہونے والی کمائی کو پھر یہ لوگ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں آج بھی بڑے بڑے منشیات فروشوں کو تعلق بارڈر پار سے ہے لیکن ان لوگوں نے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں پلازے اور کوٹھیاں خرید رکھی ہیں اور تو اور ان غیر ملکی افراد نے پاکستان کی شہریت بھی لے رکھی ہے جعلی شناختی کارڈ بنانا جتنا آسان کام پاکستان میں ہے۔ شاید ہی کسی اور ملک میں ہوا ہو لیکن جب سے نادرا کے پاس شناختی کارڈ بنانے کا سلسلہ آیا ہے تب سے اس کام کو بریکیں لگی ہوئی ہیں، لیکن سنا ہے کہ اب بھی کسی نہ کسی خاندان میں اندراج کرکے شناختی کارڈ بن رہے ہیں جنہیں اب ہماری ایجنسیاں چیک کرینگی۔ نگران حکومت کا یہ ایک اچھا کام ہے جو آج تک کوئی حکومت نہ کرسکی اب بھی حکومت پر دبائو ہے کہ ان غیر ملکی افراد پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان افراد کے خلاف بھی کارروئی کرنی چاہیے جو ان غیر قانونی مقیم افراد کے سفارشی بنے ہوئے ہیں۔ یہ ملکی سلامتی کی بات ہے اور اس کو مزاق میں نہیں لینا چاہیے ۔