... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، آج آپ کو چند انوکھی مگر سچی خبریں سناتے ہیں۔پہلی خبر کچھ اس طرح سے ہے کہ ۔۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گھروں کی کمی پوری کرنے کے لیے 1کروڑ نئے گھروں کی ضرورت ہے۔اور اس میں سے آدھے گھروں کی شہری علاقوں میں ضرورت ہے۔عالمی بینک کی طرف سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں 47فیصد گھرانے انتہائی گنجان کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں انفرانسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ 25فیصد گھرانے کھانے پینے سمیت دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک میں غریب طبقے کو شدید مہنگائی کے سبب ایک بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اخراجات اور آمدنی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے 44فیصد گھرانوں کے لیے ہاؤسنگ کا خرچ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ 60فیصد گھرانے اپنی آمدنی کا 30فیصد سے زائد صرف ہاؤسنگ پر خرچ کر رہے ہیں۔
آپ نے بینکوںکے بارے میں تو سنا ہی ہوگا، ان کی کئی برانچز ہوتی ہیں،جگہ جگہ اے ٹی ایمز لگے ہوتے ہیں۔لیکن دنیا میں ایک ایسا انوکھا بینک بھی ہے جسے دنیا کا سب سے چھوٹا بینک کہاجاتا ہے، یہ امریکا میں واقع ہے اور اس کے صرف دو ملازم ہیں۔ اس کا کوئی اے ٹی ایم نہیں اور نہ ہی رقم ٹرانزیکشن کی کوئی فیس لی جاتی ہے۔کیٹ لینڈ فیڈرل سیونگز اینڈ لون کی تاریخ 100 سال پرانی ہے اور اس کے ذخائر 3 کروڑ ڈالر ہیں۔ تاہم اس بینک کی کوئی ویب سائٹ بھی نہیں اور نہ ہی کوئی خاص تشہیر کی جاتی ہے۔اگرچہ امریکا میں دنیا کے بڑے اور طاقتور بینک ہیں لیکن اس صورتحال میں بھی کیٹ لینڈ بینک نے نہ صرف خود کو برقرار رکھا ہے بلکہ ترقی کرتے ہوئے ایک صدی پوری کرلی ہے۔ اس کے باوجود کیٹ لینڈ بینک نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر کا سب سے چھوٹا بینک ہے۔کیٹ لینڈ بینک 1920 میں قائم کیا گیا تھا اور موجودہ مالک کے پڑدادا نے اسے شروع کیا تھا۔ انڈیانا کے چھوٹے سے شہر کیٹ لینڈ میں واقع ہے اور صرف تین سہولیات ہی فراہم کرتا ہے۔ اس کی ایک ہی شاخ ہے جو بچت اکاؤنٹ کھولنے، گھر کا قرض (مورگیج) اور ڈپازٹ کا سرٹیفکیٹ فراہم کرتی ہے۔حیرت انگیز طور پر امریکا میں 1920 میں حصص بازار کے بحران میں بھی یہ بینک بند نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بینک میں موجود نظام پر جدید ٹیکنالوجی کا شائبہ بھی نہیں اور کئی آلات عشروں پرانے ہیں۔ یہاں تک کہ چیک لکھنے کے لیے روایتی آلے استعمال ہورہے ہیں۔ لیکن 55 سالہ مالک جیمز سیمنز کہتے ہیں کہ اب ہم پر دباؤ ہے کہ ہم نئے طریقے اختیار کریں اور انہیں اپنانے کا وقت آگیا ہے۔
سوئیڈن کو ایک پرامن ملک سمجھا جاتا ہے ، جہاں جرائم بالکل نہیں ہوتے، لیکن یہ آپ کی غلط فہمی ہے، ایسا ہرگز نہیں۔سویڈن کی کاؤنٹی ورم لینڈ میں پولیس نے شہریوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کاؤنٹی کے شہر کارلسٹاد میں ڈکیتیوں کے گینگ کی پرتشدد کارروائیوں کے پیشِ نظر برانڈڈ لباس یا زیور نہیں پہنیں بلکہ خراب کپڑوں میں ملبوس ہوں۔ سویڈش پولیس نے شہر میں ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے کی وجہ سے شہریوں کو باہر جاتے وقت برانڈڈ کپڑے یا مہنگے زیورات نہ پہننے کی ہدایت کی ہے۔اس کے علاوہ سیکورٹی ادارے نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ شہری باہر جاتے وقت خراب لباس پہنیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے ساتھ لوٹ مار نہ کی جائے۔ مقامی حکام نے اندرون شہر اور مضافاتی علاقوں کی نشاندہی کی ہے جن سے گریز کیا جانا چاہیے۔دوسری جانب نیشنل پولیس چیف اینڈرس تھورنبرگ نے خبردار کیا کہ سویڈش گینگ ایک سال میں 1,000 نئی بھرتیاں کررہا ہے اور یہ حالات مزید خراب ہونے والے ہیں اور حکام کے پاس ملک بھر میں گینگ وار کے تیزی سے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
چائے ہمارے معاشرے میں قومی مشروب کی حیثیت رکھتی ہے،طبی ماہرین نے چائے یا کافی کے زیادہ استعمال کو صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔عام طور پر جب ہمیں نیند کو دور کرنا ہو یا تھکاوٹ کا شکار ہوں تو فوراً چائے یا کافی پی لیتے ہیں جس سے ہمارا دماغ فوراً فعال ہوجاتا ہے، جسم میں توانائی آجاتی اور ہم اپنے کاموں کو اچھی طرح سے انجام دیتے ہیں، بعض لوگوں کو چائے یا کافی کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ انہیںہر ایک یا 2 گھنٹے بعد چائے یا کافی کی طلب ہوتی ہے تاہم طبی ماہرین کے مطابق دن میں 4 سے زیادہ کپ چائے یا کافی پینا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔کیوں کہ ایسا کرنا آپ کو نہ صرف بے چینی، اضطراب اور تھکاوٹ میں مبتلا کردے گا بلکہ آپ نیند نہ آنے اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار بھی ہوجائیں گے۔طبی ماہرین کے مطابق چائے یا کافی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے آپ صرف گرین ٹی کا استعمال کرسکتے ہیں کیوں اس میں شامل اینٹی آکسیڈنت بیکٹیریا کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاہ ادرک والی چائے بھی کافی کا بہترین متبادل ہے۔ہلدی ملا دودھ بھی کافی یا چائے کی طلب کو پورا کرنے کا بہترین طریقہ ہے، اس میں شامل اجزا سے نہ صرف قوت مدافعت بڑھتی ہے بلکہ دیگر لحاظ سے بھی صحت کے لیے کارآمد ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق لیموں پانی پینے سے بھی چائے کی طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے، اس میں شامل وٹامن سی نہ صرف جلد بلکہ قوت مدافعت کے لیے بھی صحت بخش ہے۔
اور آخر میں ایک دلچسپ خبر کہ۔۔ سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ نر زرافے بھی مردوں کی طرح دل پھینک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی نسل کے دوسرے جانوروں، بالخصوص مادہ زرافوں کی بڑی تعداد کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں۔اگرچہ زرافوں کی مادائیں بھی خاصے بڑے گروپ بنا کر رہتی ہیں لیکن یہ گروپ بالعموم ‘زنانہ’ ہوتے ہیں جن میں نر زرافوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ان گروپوں میں بھی زرافوں کی مادائیں زیادہ تر دوسری ماداؤں ہی سے میل جول رکھتی ہیں جبکہ دوسرے گروپوں میں بھی نر اور مادہ زرافوں سے بہت محدود تعلقات رکھتی ہیں۔مادہ زرافوں کے برعکس نوجوان نر زرافے زیادہ بڑے گروپوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ ایک گروپ کے نر زرافے، دوسرے کئی گروپوں کے زرافوں، بالخصوص مادہ زرافوں سے خوب میل جول رکھتے ہیں۔البتہ، بوڑھے نر زرافے اپنے سماجی تعلقات بڑھانے کے معاملے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لیتے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خود کو محدود کرلیتے ہیں۔ریسرچ جرنل ”اینیمل بی ہیویئر” کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ نوجوان نر زرافوں میں زیادہ میل جول کا رجحان غالباً ملاپ کیلیے بہتر سے بہتر مادہ زرافے کی تلاش کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نشہ، نائی، محبت اور پولیس کسی کا بھی حلیہ بگاڑ سکتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔