... loading ...
حمیداللہ بھٹی
عام انتخابات کے حوالے سے عوامی حلقے پُرسکون نہیں بلکہ بے چینی ،بے قراری ،بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت ہے، اِس میں صدرِ مملکت عارف علوی کے ایک نجی ٹی وی انٹرویو سے مزید اضافہ ہوا۔صدرکے خدشات اور بیانات پر وضاحت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ملک میں عام انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن عوامی حلقوں میں موجود بے چینی و بے قراری اور اضطراب کا خاتمہ نہیں ہو سکا ،بلکہ بے یقینی کی کیفیت بددستور برقرار ہے۔ حالانکہ یہ بداعتمادی اِس بناپر ناقابلِ فہم ہے کہ اب تو واضح طورپر انتخابات کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں کیونکہ نہ صرف حلقہ بندیوں کاکام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے بلکہ 2023کی مردم شماری کے مطابق انتخابی فہرستوں کی تیاری کاکام بھی زوروشورسے ہورہا ہے ۔علاوہ ازیں انتخابی اور سیکورٹی عملے کی فراہمی سمیت شفاف طریقے سے نتائج مرتب کرنے کے لیے قواعد وضوابط میںموجودسقم دور کرنے پر بھی کام جاری ہے مگر بداعتمادی ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہی۔ عجیب بات یہ ہے کہ ملک کے پہلے متوقع عام انتخابات ہیں جن کی تاریخ بارے میں لوگ لاعلم ہیں لیکن نتائج سے پوراملک آگاہ ہے کون سی جماعت منظورِ نظرہے ؟اِس بارے بھی کسی کو کوئی ابہام نہیں۔
وثوق سے کہتا ہوں کہ دو نومبر کوعام انتخابات بارے حتمی تاریخ کا اعلان سامنے آسکتا ہے جس کی روشنی میں جنوری کے آخر تک ساراعمل مکمل ہوجائے گا کوشش کے باوجودکسی کے لیے یہ عمل زیادہ دیر معرض ِ التوا میں رکھنا ممکن نہیں رہاجس کی ایک سے زائد وجواہات ہیں اول تو سپریم کورٹ کے سربراہی کا تبدیل ہونا ہے اور اب فیصلے سنانے کے ساتھ عملدرآمد پربھی توجہ ہے دونومبرکوسپریم کورٹ میں عام انتخابات بارے کیس کی سماعت ہوگی اِس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیا جا چکاہے معروضی حالات کومدِ نظر رکھتے ہوئے ہی ذرائع ابلاغ میں 28 جنوری کی باتیں گردش کررہی ہیں کیونکہ اب الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کہہ کرالیکشن کمیشن مزید راہ فرار تلاش نہیں کر سکتا دو نومبر کے نوٹس پر الیکشن کمیشن اگر عام انتخابات کی تاریخ بارے آگاہ نہیں کرتا اوربلاجوازو غیر آئینی تاخیری حربے اختیار کرتا ہے تو صبر وتحمل کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں عدالتِ خاموش نہیں رہے گی بلکہ توہین عدالت کے تحت کارروائی ہونے کا امکان بڑھ جائے گا جس سے بچنے کے لیے حتمی تاریخ دینا ضروری ہے ۔ ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے پیش رو سے بڑی حد تک الگ شخصیت کے مالک ہیں۔ قبل ازیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو اِس حد تک نظرانداز کیا جس سے تضحیک کاتاثراِس حد تک گہراہوا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی مگر عدالت مزید اپنے فیصلوں کی بے توقیری پرخاموش رہے گی۔ ایسا امکان نہ ہونے کے برابرہے اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے، آئین کی پاسداری کے لیے چونکانے والے فیصلے آنے کا امکان بڑھ گیا ہے ۔دونومبرکو عدالت سماعت کے دوران الیکشن کمیشن سے حتمی تاریخ طلب کرتی ہے تو التوا یا پھر فرار کامزیدراستہ بندہوجائے گااِس کا ادراک فیصلہ ساز قوتوں کو بھی یقینی طور پر ہو گا اسی بنا پر موسمی شدت کے بہانے یا امن و امان کی صورتحال کا عُذر انتخابی عمل کے التوامیں مددگارنہیں ہو سکتا۔
ملک اِس وقت جمہوری اِداروں سے اِس حدتک محروم ہے کہ نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی غیر فعال ہیں پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑے دس ماہ ہو چکے مگرحیلے بہانوں سے انتخابی عمل مکمل کرنے سے گریز کرتے ہوئے غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے سے غیر منتخب لوگ فیصلے کررہے ہیں قومی اسمبلی سمیت سندھ وبلوچستان کی دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی آئینی مدت کے اندر نہیں ہوئے اب جبکہ صدرِ مملکت کی آئینی مدت بھی ڈیڑھ ماہ قبل مکمل ہو چکی ہے اور قومی اور صوبائی اسمبلیاں نہ ہونے کی وجہ سے نئے صدر کا چنائوبھی نہیں ہوپارہا یہ سارا عمل جمہوریت پسند قوتوں کے لیے انتہائی پریشان کُن ہے خیر موجودہ صدر نئے صدر کے انتخاب تک کام کر سکتے ہیں لیکن ملک مزید انتخابی عمل میں تاخیر کا اِس بنا پر متحمل نہیں ہو سکتا کہ اگلے برس مارچ میں ایوانِ بالا یعنی سینٹ کے آدھے ممبران اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد رخصت ہو جائیں گے اور اسمبلیاں نہ ہونے کی وجہ سے خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے اسمبلیوں کے بعد سینٹ بھی نامکمل ہو جائے گااسی لیے وثوق سے کہہ سکتے ہے کہ عام انتخابات کواب زیادہ دیر معرضِ التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا اور چاہے جیسے بھی ہو فیصلہ ساز قوتوں کو انتخابی عمل کا گھونٹ پینا ہی پڑے گا وگرنہ جمہوریت کے حوالے سے اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر تنقید ہوگی لہذا جمہوری رویوں کا تقاضا ہے کہ انتخابی عمل جلد مکمل کیا جائے ۔
باوثوق ذرائع کے مطابق عام انتخابات کی تاریخ 28 جنوری مختص کرنے پر الیکشن کمیشن کام کر رہا ہے اور اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیاریوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ انتخابی ایکٹ کی دفعہ 57 کے مطابق انتخابی عمل کے لیے48یا54روزدینالازم ہے ۔اندازہ ہے کہ چودہ دسمبر کے قریب قریب انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے گا۔ انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت بھی کی تاکہ غیر متنازع انتخابی نتائج کو یقینی بنایا جا سکے۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزادانہ ،منصفانہ اور شفاف انتخاب سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ ایسا ہونے سے نہ صرف ملک میں جمہوری اقدار مضبوط ہوں گی بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا جمہوری تشخص بہتر ہو گا۔ نتائج پر اثرانداز ہونے سے نہ صرف جمہوری اِدارے کمزور ہوں گے بلکہ سیاسی استحکام بھی خواب بن کر رہ جائے گا لہذابہتر یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے امریکہ کی قائم مقام وزیرِ خارجہ وکٹوریہ ٹولینڈ نے نگران وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ٹیلی فونک رابطے میں انتخابات شفاف اور تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے ساتھ کرانے کا مطالبہ کیا ۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے تو ہر جماعت کو آزادانہ انتخابی مُہم کا موقع فراہم کرنا جلسے ،جلوس اور ریلیوں کے حوالے سے بھی سب سے یکساں سلوک ہوناچاہیے لیکن ابھی تک مشاہدے میں ایسا کچھ نہیں آرہابلکہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور کارکنوں کی توبے دریغ گرفتاریاں جاری ہیں لیکن ایک جماعت پر نوازشات کی جارہی ہیں اسی بناپر خدشہ ہے کہ انتخابی عمل نہ صرف پُرامن نہیں رہے گا بلکہ نتائج بھی غیر شفاف اور متنازع ہوسکتے ہیں، اب تو پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی طرف سے بھی خدشات اور اعتراضات ہونے لگے ہے اور ایسا تاثربن رہا ہے کہ ایک جماعت کو فتح سے ہمکنار کرنے کے لیے میدان ہموار کیا جارہا ہے جو شفافیت کے تقاضوں کے منافی ہے ایک اور
بات ذہن نشین رکھنے والی ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کا مشاہدہ کرنے کے لیے بھارت کے بغیردیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی مبصرین کو مدعو کیا ہے جن کی دسمبر کے آخری دنوں میں آمد شروع ہو جائے گی جن کی موجودگی میں پکڑ دھکڑ جاری رہی تو کنٹرولڈ جمہوریت کا پیغام جائے گا۔اِس لیے اگر عام انتخابات کے نتائج قابلِ قبول بناناہے تو یہ تاثر زائل کرنا ہوگا ۔آزادانہ ،غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابی عمل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنا ضروری ہے۔
٭٭٭