... loading ...
ریاض احمدچودھری
اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بعد یہودی ابھی تک دہشت زدہ اور ہکا بکا ہیں کہ یہ ان کے ساتھ کیسے ہوا۔ گزشتہ 75 سال سے تو یہودیوں نے ہمیشہ نہتے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں مگر اس بار حماس نے اسرائیلیوںکو کاری ضرب لگائی ہے۔ حماس کی کارروائی کے بعد اسرائیلی اخبارات اور میڈیا میں اسرائیلی ریاست کے خاتمہ کی باتیں ہو رہی ہیں۔یہودی دانشور،مصنف،صحافی عاری شابیط نے اسرائیلی اخبار”ہارٹیز،10اکتوبر”میں شائع ہونے والے مضمون میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتاہے کہ ہماراواسطہ تاریخ کے مشکل ترین لوگوں سے پڑ گیاہے اور فلسطینیوں کی زمین پران کاہی حق تسلیم کیے بغیرکوئی چارہ کارنہیں۔میراخیال ہے کہ ہم بندگلی میں داخل ہوچکے ہیں اوراب اسرائیلیوں کے لیے ارض فلسطین پر قبضہ کاتسلسل،باہرسے آئے یہودیوں کی آبادکاری اورحصول امن ممکن نہیں رہا۔اوراسی طرح صہیونیت میں تحریک تجدید،تحفظ جمہوریت اور مملکت میں آبادی کاپھیلاؤ بھی اب مزید نہیں چل پائیں گے۔ان حالات میں اس ملک میں رہنے کاکوئی مزاباقی نہیں رہااوراسی طرح “روزنامہ ہارٹیز”میں لکھنابھی بدمزہ ہوگیاہے اور”روزنامہ ہارٹیز”کے مطالعہ میں بھی اب کچھ کشش باقی نہیں رہی۔اب ہمیں وہی کرناپڑے گاجو دوسال پہلے “روگیل الفار” نے کیاتھا اور وہ یہ ملک چھوڑ کر باہر چلاگیاتھا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ مملکت اسرائیل نے ہمیں اپنی شناخت نہیں دی کیونکہ ہراسرائیلی شہری اورہریہودی کے پاس باہرکے کسی نہ کسی ملک کاپاسپورٹ بھی اس کی جیب میں موجود ہے۔اوراس کی وجہ کو ئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اسرائیل ہرشہری نفسیاتی طورپر اس عمل کے لیے قائل ہے،تب سمجھ لیناچاہیے کہ کھیل ختم ہوچکاہے اورآپ کوچاہیے اپنے دوستوں کو خداحافظ کہ کرسان فرانسسکو،برلن یا پیرس کو سدھارجائیں۔اس طرح جرمن قوم پرستوں میں بیٹھ کر سرزمین امریکہ میں امریکی قوم پرستوں میں بیٹھ کر کم ازکم وہ آرام سے ،سکون اور اطمینان سے دیکھ سکے گا اسرائیل کی ریاست دم توڑ رہی ہے اوراپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اورقریب المرگ ہے۔ہمیں لازمی طورپرتین قدم پیچھے ہٹ کر یہودی جمہوری ریاست کے ڈوبنے کے مناظر دیکھنے ہوں گے کیونکہ مسائل ابھی تک اپنے حل سے کوسوں دورہیں۔
اسرائیلی دانشور کا کہنا ہے کہ شایدابھی بھی ہم بندگلی سے نکل سکتے ہیں،ابھی بھی ارض فلسطین پرقبضہ ختم کیاجاسکتاہے،ابھی بھی مواقع موجودہیں کہ صہیونیت کی تازہ تحریک میں اصلاحات ہوسکیں،ابھی بھی جمہوریت کی بحالی کے امکانات موجودہیں اور ابھی بھی تقسیم مملکت ہوسکتی ہے۔میرادل کرتاہے کہ میں بن یامین یتن ناہو،لیب مین اورنیونازیس کی آنکھیں کھولوں اورانہیں صہیونیت کی تباہی و بربادی کامشاہدہ کراؤں۔ اورانہیں باورکراؤں کہ ڈونلڈ ٹرمپ،کوشنر،بائڈن،بارک اوبامااورہلری کلنٹن کبھی ارض فلسطین پر یہ قبضہ ختم نہیں ہونے دیں گے اور اقوام متحدہ اوریورپی یونین بھی غیرملکی یہودیوں کی آبادکاری کبھی بھی نہیں روکیں گے۔بس پوری دنیامیں اگرکوئی اسرائیلی سلطنت اور اسرائیلی عوام کے بچاسکتاہے تووہ خود اسرائیلی عوام ہیں جنہیں ایک نوزائدہ سیاسی معاہدے کے تحت بہرحال تسلیم کرناہوگاکہ اس ارض فلسطین کے اصل مالک فلسطینی ہی ہیں اوریہ انہی کاوطن ہے ،میں اپنے اسی تیسرے راستے کے موقف کوہی پرزورطریقے پیش کروں گااگرہم یہاں زندہ رہناچاہتے ہیں اورمرنانہیں چاہتے۔
اسرائیلی عوام جب سے فلسطین میں آبادہوئی ہے اسے تب سے تحریک صہیونیت انہیں تاریخی طورپرجھوٹ بول بول کریہ دھوکادیے چلی جارہی ہے اورصہیونی کارندے ہولوکاسٹ کوغیرمعمولی طور پر بڑھاچڑھاکرپیش کرنے کے بعدسے ملت بنی اسرائیل کوباربار یہ جھوٹ کہتے چلے آرہے ہیں کہ خداوندخدانے تم سے ارض فلسطین کاوعدہ کررکھاہے اور ہیکل سلیمانی بھی دراصل مسجداقصی کے نیچے موجودہے۔پس اس طرح ٹیکس کی بھاری رقوم چوس چوس کر بھیڑیے ایٹمی طاقت بن گئے۔اب تو تل ابیب یونیورسٹی کے محققین اوربہت سے مغربی ماہرین آثارقدیمہ بھی کہ چکے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے ہیکل سلیمانی کاوجود ختم ہوچکا اور کہیں بھی اس کاکوئی نام و نشان موجودنہیں ہے۔ آخری دفعہ 1986ء میں برطانوی سکول آف آثار قدیمہ یروشلم کی ڈائرکٹرکیٹلین کبی نوس نے بھی کھدائی کرکے ہیکل سلیمانی کے آثارتلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ بھی نہ ملا،جسے اسرائیلی ہیکل سلیمانی کہتے ہیں اس طرح کی عمارت کے کئی نقشے کتابوں میں ملتے ہیں اورارض فلسطین کے متعددمقامات اس کی تعمیرکی شہادتیں بھی میسرہیں لیکن مسجداقصی کے نیچے ایسی کسی عمارت کاتصورایک مفروضے کے سواکچھ نہیں۔اس سے قبل انیسویں صدی کے وسط میں بھی “کیتھلین کینون”فلسطین اسی لیے آئی تھی کہ عہدنامہ قدیم کی کتب کے مطابق اس مقام کی نشاندہی کی جاسکے جہاں یہ عمارت قائم کی گئی تھی۔
کیایہ اسرائیلیوں کے لیے کسی لعنت سے کم ہے کہ مقدسیوں،خلیلیوں اورنابلوسیوں سے روزانہ چھریوں اورچاقوں جیسے تھپڑاپنے چہروں پر کھائیں یا ان کی ڈرائیورزجفا،حیفہ اور ایسرجاتے ہوئے پتھروں پرپتھر کھاتے ہوتے ہوئے وہاں پہنچیں۔اب اسرائیلی جان چکے ہیں کہ فلسطین میں ان کاکوئی مستقبل نہیں ہے،ایسانہیں ہے کہ ارض فلسطین کے کوئی وارث نہ ہوں۔بائیں بازوکے کے ایک صہیونی دانشوراورمصنف “گڈون لیوے”نے بہت پہلے کہ دیاتھاکہ یہودیوں کونہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کاحق تملیک مانناپڑے گا بلکہ ارض فلسطین پر انہیں برتری دیناہوگی کیونکہ فلسطینی باقی دنیاسے مختلف فطرت کے لوگ ہیں۔ہم انہیں بدکاراور نشائی کہتے ہیں اورپھر ہم نے ان کی زمینوں پرقبضہ کیاہے اورپھربھی ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وطن کوفراموش کردیں،تب ہی وہ 1987ء سے حالت مظاہرہ میں ہیں اورہم انہیں قیدخانوں میں بھرتے جارہے ہیں۔سالوں بعدجب ہم سمجھے کہ اب انہیں سبق سکھایاجاچکاہے لیکن2000ء میں اپنی کھائی گئی زمینیں واگزارکرانے کے لیے وہ مسلح ہوکرہمارے سامنے آگئے۔اس کے باوجودہم نے ان کامحاصرہ جاری رکھااوران کے گھروں کو ملیامیٹ کرتے رہے۔اب کی دفعہ جب انہوں نے ہمارے اوپرمیزائل داغناشروع کردیے توہم نے ان کے اوراپنے درمیان بلندبالا دیواریں اور باڑھ لگانے کی منصوبہ بندی کرنی شروع کردی۔اس کے ردعمل میں انہوں سرنگیں کھودیں اور زیرزمین سے ہم پر حملہ آورہوئے یہاں تک کہ حالیہ جنگ کے آغازمیں انہوں نے ہماری ریاست اسرائیل کے اندر گھس کر ہمیں قتل کرنااورمارناشروع کردیا۔ہم نے اپنی فکراورسوچ سے ان کے لڑائی شروع کی لیکن انہوں نے ہمارے خلائی سیارہ “آموس” کوہی جام کردیا۔وہ مسلسل ہمیں دھمکیوں پردھمکیاں دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اسرائیلی نشریاتی اداروں کوبھی بندکرکے جام کردیں گے۔پس ہمیں تاریخ کے مشکل ترین افرادسے پالاپڑ گیاہے اور انہیں مانے بغیراورسرزمین فلسطین پراپناقبضہ ختم کیے بغیراس مسئلے کاکوئی حل موجودنہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔