وجود

... loading ...

وجود

کیا اسرائیلی ریاست کا خاتمہ ہونے کو ہے؟

پیر 30 اکتوبر 2023 کیا اسرائیلی ریاست کا خاتمہ ہونے کو ہے؟

ریاض احمدچودھری

اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بعد یہودی ابھی تک دہشت زدہ اور ہکا بکا ہیں کہ یہ ان کے ساتھ کیسے ہوا۔ گزشتہ 75 سال سے تو یہودیوں نے ہمیشہ نہتے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں مگر اس بار حماس نے اسرائیلیوںکو کاری ضرب لگائی ہے۔ حماس کی کارروائی کے بعد اسرائیلی اخبارات اور میڈیا میں اسرائیلی ریاست کے خاتمہ کی باتیں ہو رہی ہیں۔یہودی دانشور،مصنف،صحافی عاری شابیط نے اسرائیلی اخبار”ہارٹیز،10اکتوبر”میں شائع ہونے والے مضمون میں لکھا ہے کہ معلوم ہوتاہے کہ ہماراواسطہ تاریخ کے مشکل ترین لوگوں سے پڑ گیاہے اور فلسطینیوں کی زمین پران کاہی حق تسلیم کیے بغیرکوئی چارہ کارنہیں۔میراخیال ہے کہ ہم بندگلی میں داخل ہوچکے ہیں اوراب اسرائیلیوں کے لیے ارض فلسطین پر قبضہ کاتسلسل،باہرسے آئے یہودیوں کی آبادکاری اورحصول امن ممکن نہیں رہا۔اوراسی طرح صہیونیت میں تحریک تجدید،تحفظ جمہوریت اور مملکت میں آبادی کاپھیلاؤ بھی اب مزید نہیں چل پائیں گے۔ان حالات میں اس ملک میں رہنے کاکوئی مزاباقی نہیں رہااوراسی طرح “روزنامہ ہارٹیز”میں لکھنابھی بدمزہ ہوگیاہے اور”روزنامہ ہارٹیز”کے مطالعہ میں بھی اب کچھ کشش باقی نہیں رہی۔اب ہمیں وہی کرناپڑے گاجو دوسال پہلے “روگیل الفار” نے کیاتھا اور وہ یہ ملک چھوڑ کر باہر چلاگیاتھا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ مملکت اسرائیل نے ہمیں اپنی شناخت نہیں دی کیونکہ ہراسرائیلی شہری اورہریہودی کے پاس باہرکے کسی نہ کسی ملک کاپاسپورٹ بھی اس کی جیب میں موجود ہے۔اوراس کی وجہ کو ئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اسرائیل ہرشہری نفسیاتی طورپر اس عمل کے لیے قائل ہے،تب سمجھ لیناچاہیے کہ کھیل ختم ہوچکاہے اورآپ کوچاہیے اپنے دوستوں کو خداحافظ کہ کرسان فرانسسکو،برلن یا پیرس کو سدھارجائیں۔اس طرح جرمن قوم پرستوں میں بیٹھ کر سرزمین امریکہ میں امریکی قوم پرستوں میں بیٹھ کر کم ازکم وہ آرام سے ،سکون اور اطمینان سے دیکھ سکے گا اسرائیل کی ریاست دم توڑ رہی ہے اوراپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اورقریب المرگ ہے۔ہمیں لازمی طورپرتین قدم پیچھے ہٹ کر یہودی جمہوری ریاست کے ڈوبنے کے مناظر دیکھنے ہوں گے کیونکہ مسائل ابھی تک اپنے حل سے کوسوں دورہیں۔
اسرائیلی دانشور کا کہنا ہے کہ شایدابھی بھی ہم بندگلی سے نکل سکتے ہیں،ابھی بھی ارض فلسطین پرقبضہ ختم کیاجاسکتاہے،ابھی بھی مواقع موجودہیں کہ صہیونیت کی تازہ تحریک میں اصلاحات ہوسکیں،ابھی بھی جمہوریت کی بحالی کے امکانات موجودہیں اور ابھی بھی تقسیم مملکت ہوسکتی ہے۔میرادل کرتاہے کہ میں بن یامین یتن ناہو،لیب مین اورنیونازیس کی آنکھیں کھولوں اورانہیں صہیونیت کی تباہی و بربادی کامشاہدہ کراؤں۔ اورانہیں باورکراؤں کہ ڈونلڈ ٹرمپ،کوشنر،بائڈن،بارک اوبامااورہلری کلنٹن کبھی ارض فلسطین پر یہ قبضہ ختم نہیں ہونے دیں گے اور اقوام متحدہ اوریورپی یونین بھی غیرملکی یہودیوں کی آبادکاری کبھی بھی نہیں روکیں گے۔بس پوری دنیامیں اگرکوئی اسرائیلی سلطنت اور اسرائیلی عوام کے بچاسکتاہے تووہ خود اسرائیلی عوام ہیں جنہیں ایک نوزائدہ سیاسی معاہدے کے تحت بہرحال تسلیم کرناہوگاکہ اس ارض فلسطین کے اصل مالک فلسطینی ہی ہیں اوریہ انہی کاوطن ہے ،میں اپنے اسی تیسرے راستے کے موقف کوہی پرزورطریقے پیش کروں گااگرہم یہاں زندہ رہناچاہتے ہیں اورمرنانہیں چاہتے۔
اسرائیلی عوام جب سے فلسطین میں آبادہوئی ہے اسے تب سے تحریک صہیونیت انہیں تاریخی طورپرجھوٹ بول بول کریہ دھوکادیے چلی جارہی ہے اورصہیونی کارندے ہولوکاسٹ کوغیرمعمولی طور پر بڑھاچڑھاکرپیش کرنے کے بعدسے ملت بنی اسرائیل کوباربار یہ جھوٹ کہتے چلے آرہے ہیں کہ خداوندخدانے تم سے ارض فلسطین کاوعدہ کررکھاہے اور ہیکل سلیمانی بھی دراصل مسجداقصی کے نیچے موجودہے۔پس اس طرح ٹیکس کی بھاری رقوم چوس چوس کر بھیڑیے ایٹمی طاقت بن گئے۔اب تو تل ابیب یونیورسٹی کے محققین اوربہت سے مغربی ماہرین آثارقدیمہ بھی کہ چکے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے ہیکل سلیمانی کاوجود ختم ہوچکا اور کہیں بھی اس کاکوئی نام و نشان موجودنہیں ہے۔ آخری دفعہ 1986ء میں برطانوی سکول آف آثار قدیمہ یروشلم کی ڈائرکٹرکیٹلین کبی نوس نے بھی کھدائی کرکے ہیکل سلیمانی کے آثارتلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ بھی نہ ملا،جسے اسرائیلی ہیکل سلیمانی کہتے ہیں اس طرح کی عمارت کے کئی نقشے کتابوں میں ملتے ہیں اورارض فلسطین کے متعددمقامات اس کی تعمیرکی شہادتیں بھی میسرہیں لیکن مسجداقصی کے نیچے ایسی کسی عمارت کاتصورایک مفروضے کے سواکچھ نہیں۔اس سے قبل انیسویں صدی کے وسط میں بھی “کیتھلین کینون”فلسطین اسی لیے آئی تھی کہ عہدنامہ قدیم کی کتب کے مطابق اس مقام کی نشاندہی کی جاسکے جہاں یہ عمارت قائم کی گئی تھی۔
کیایہ اسرائیلیوں کے لیے کسی لعنت سے کم ہے کہ مقدسیوں،خلیلیوں اورنابلوسیوں سے روزانہ چھریوں اورچاقوں جیسے تھپڑاپنے چہروں پر کھائیں یا ان کی ڈرائیورزجفا،حیفہ اور ایسرجاتے ہوئے پتھروں پرپتھر کھاتے ہوتے ہوئے وہاں پہنچیں۔اب اسرائیلی جان چکے ہیں کہ فلسطین میں ان کاکوئی مستقبل نہیں ہے،ایسانہیں ہے کہ ارض فلسطین کے کوئی وارث نہ ہوں۔بائیں بازوکے کے ایک صہیونی دانشوراورمصنف “گڈون لیوے”نے بہت پہلے کہ دیاتھاکہ یہودیوں کونہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کاحق تملیک مانناپڑے گا بلکہ ارض فلسطین پر انہیں برتری دیناہوگی کیونکہ فلسطینی باقی دنیاسے مختلف فطرت کے لوگ ہیں۔ہم انہیں بدکاراور نشائی کہتے ہیں اورپھر ہم نے ان کی زمینوں پرقبضہ کیاہے اورپھربھی ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وطن کوفراموش کردیں،تب ہی وہ 1987ء سے حالت مظاہرہ میں ہیں اورہم انہیں قیدخانوں میں بھرتے جارہے ہیں۔سالوں بعدجب ہم سمجھے کہ اب انہیں سبق سکھایاجاچکاہے لیکن2000ء میں اپنی کھائی گئی زمینیں واگزارکرانے کے لیے وہ مسلح ہوکرہمارے سامنے آگئے۔اس کے باوجودہم نے ان کامحاصرہ جاری رکھااوران کے گھروں کو ملیامیٹ کرتے رہے۔اب کی دفعہ جب انہوں نے ہمارے اوپرمیزائل داغناشروع کردیے توہم نے ان کے اوراپنے درمیان بلندبالا دیواریں اور باڑھ لگانے کی منصوبہ بندی کرنی شروع کردی۔اس کے ردعمل میں انہوں سرنگیں کھودیں اور زیرزمین سے ہم پر حملہ آورہوئے یہاں تک کہ حالیہ جنگ کے آغازمیں انہوں نے ہماری ریاست اسرائیل کے اندر گھس کر ہمیں قتل کرنااورمارناشروع کردیا۔ہم نے اپنی فکراورسوچ سے ان کے لڑائی شروع کی لیکن انہوں نے ہمارے خلائی سیارہ “آموس” کوہی جام کردیا۔وہ مسلسل ہمیں دھمکیوں پردھمکیاں دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اسرائیلی نشریاتی اداروں کوبھی بندکرکے جام کردیں گے۔پس ہمیں تاریخ کے مشکل ترین افرادسے پالاپڑ گیاہے اور انہیں مانے بغیراورسرزمین فلسطین پراپناقبضہ ختم کیے بغیراس مسئلے کاکوئی حل موجودنہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر