... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
سابق اولپیئن اور ہاکی کا ہیرو رانا مجاہد علی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے نئے سیکریٹری بن گئے ہیں۔ امید ہے کہ اب ہاکی کا کھیل گمشدہ راستوں سے باہر نکل آئے گا ویسے توپاکستان کی معاشی اور سیاسی صورتحال کے ساتھ ہماری کھیلوں کا بھی کباڑا ہوگیا بلکہ کرکٹ کے علاوہ ہمیں کسی اور ٹیم کے کپتان کا علم ہے اور نہ ہی ہم کسی کھلاڑی کو جانتے ہیں جتنا پیسہ اور لائیو کوریج کرکٹ کو دی گئی، اس سے بڑھ کر کھلاڑیوں نے ہمیں ذلیل و رسو ا کروایامان لیا کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن اپنے حصے کی جیت بھی کسی کو دے دی جائے تو پھر ایسی ٹیم ، ایسے کھلاڑیوں اور افسردہ شکل والے کپتان کا کیا فائدہ خیر کرکٹ کا ذکر تو ویسے ہی آگیا کیونکہ جب سے ہم کرکٹ میچ ہارنا شروع ہوئے ہیں تب سے سوشل میڈیا پر کرکٹروں کی چھترول بھی معمول بن چکی ہے۔ خاص کر سلیکٹرز اور چیئرمین پی سی بی کے متعلق ریمارکس پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں لکھنے سے نہیں ورنہ ضرور لکھ دیتا اس لیے کرکٹ کو اس کے حال پر چھوڑتے ہیں کچھ باتیں ہاکی کی کرلیتے ہیں جس میں ہم ورلڈ چیمپئن بھی رہے ایک بار نہیں بلکہ چار بار اور یہ کھیل ہمارا قومی کھیل بھی ہے ہم نے اس کھیل اور اس سے جڑے ہوئے کھلاڑیوں کا حشر نشر کردیا۔ صرف ہاکی ہی نہیں فٹ بال کی فیڈریشن نے تو ہمیں دنیا میں نہ صرف بدنام کیا بلکہ کہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا پیسہ کمانے کے لالچ میں ہم نام نہاد کھلاڑی پیدا کرتے رہے اور پھر انہیں ویزوں کے لالچ میں باہر بھجواتے رہے جن کا فٹ بال سے دور دور کا تعلق بھی نہیں تھا ،انہیں فیڈریشن کا مائی باپ بنا دیا گیا۔ یہی حال ہماری ہاکی کے ساتھ بھی ہوا ہماری ہاکی ورلڈ کپ کی تاریخ کی سب سے کامیاب ٹیم تھی۔ پاکستان چار باردنیائے ہاکی کا فاتح رہا اور دو بار رنر اپ ایک بارہم چوتھے نمبر پر بھی آئے ہیں، پاکستان نے 1971 میں بارسلونا میں منعقدہ افتتاحی ورلڈ کپ جیتا تھا اس سے پہلے بیونس آئرس 1978 اور ممبئی 1982 میں لگاتار ٹائٹل جیتے تھے ہمارا آخری ٹائٹل سڈنی 1994 میں آیا تھا 1978 میں نیدرلینڈز اور پھر 1982 میں مغربی جرمنی کو شکست دے کرپاکستان ہاکی ٹیم اپنے ورلڈ کپ ٹائٹل کا دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بنی تھی بدقسمتی سے 1994 کے بعد سے پاکستان ہاکی میں مسلسل ناکامیوںسے گزر رہا ہے 2014 میں پاکستان تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا اور یہی صورتحال 2023 ورلڈ کپ میں بھی سامنے آئی کہ ہم ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کر پائے اس کی وجہ شائد یہ رہی کہ ہماری فیڈریشن ہی بانجھ اور سفارشی لوگوں پر مشتمل تھی 1948 میں اپنا پہلا میچ کھیلنے کے بعد، یہ پاکستان ہاکی فیڈریشن (پی ایچ ایف) کے زیر انتظام ہے جو پاکستان میں ہاکی کی گورننگ باڈی ہے اور یہی باڈی 1948 سے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن (FIH) کی رکن ہے پاکستان 1958 میں قائم ہونے والی ایشین ہاکی فیڈریشن (ASHF) کا بانی رکن بھی ہے پاکستان دنیا کی کامیاب ترین قومی فیلڈ ہاکی ٹیموں میں سے ایک ہے پاکستان کی ورلڈ کپ کی تاریخ میں بہترین کارکردگی ہے جس میں کھیلے گئے 84 میچوں میں 53 فتوحات، سات بار ڈرا، چھ بار فائنل میں شرکت اور صرف 24 میچوں میں شکست ہوئی۔
گرین شرٹس ایشین گیمز میں بھی سب سے کامیاب قومی ٹیم رہی جسکے پاس آٹھ گولڈ میڈلز ہیں 1958، 1962، 1970، 1974، 1978، 1982، 1990، اور 2010 اتنی بار کوئی ملک پہلے نمبر پر آیا ہے پاکستان واحد ایشیائی ٹیم ہے جس نے باوقار چیمپئنز ٹرافی جیتی ہے ۔ 1978، 1980 اور 1994 تک پاکستان نے کل 29 آفیشل انٹرنیشنل میچ جیتے ہیں پاکستان کی قومی ٹیم کو FIH نے 2000 اور 2001 میں دنیا کی نمبر 1 ٹیم کے طور پر درجہ دیا تھا بین الاقوامی فیلڈ ہاکی کی تاریخ میں کسی کھلاڑی کی جانب سے سب سے زیادہ بین الاقوامی گول کرنے کا عالمی ریکارڈ سابق کپتان سہیل عباس کے پاس ہے وسیم احمد ٹیم کے لیے سب سے زیادہ کیپ کھیلنے والے کھلاڑی ہیں جنہوں نے 1996 سے 2013 کے درمیان 410 بار کھیلا ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ سب سے زیادہ دلچسپ اور پرجوش ہوا کرتا تھا اور دونوں ممالک کا ایک دوسرے سے ساؤتھ ایشین گیمز اور ایشین گیمز کے فائنل میں کھیلنے کا ریکارڈ ہے اب تک بیس بڑے ٹورنامنٹس کے فائنلز میں ایک دوسرے سے مدمقابل رہ چکے ہیں جن میں سے پاکستان نے مجموعی طور پر تیرہ ٹائٹل جیتے ہیں پاکستان کے پاس ہاکی ایشیا کپ کی پہلی تین چیمپئن شپ 1982، 1985 اور 1989 میں بھارت کے خلاف لگاتار جیتنے کا ریکارڈ بھی ہے جبکہ پاکستان کانیدرلینڈز اور آسٹریلیا کے ساتھ بھی سخت حریفوں والا مقابلہ ہوتا تھاپاکستان میں ہاکی غریب اور عام لوگوں کا کھیل ہے اور جب تک یہ عاملوگ کھیلتے رہے پاکستان فتوحات کا چیمپئن بنتا رہا پھر جیسے ہی اس کھیل میں خاص لوگوں کا آنا جانا شروع ہوا تو یہ کھیل بھی ڈوب گیا اس کھیل کی تاریخی حیثیت کو اگر دیکھیں توہاکی کو برطانوی فوجیوں نے برٹش انڈیا میں متعارف کروایاجوکرکٹ کی طرح مقامی آبادی میں ایک مقبول کھیل بن گیا۔ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد 1948 میں پاکستان ہاکی فیڈریشن نے جلد ہی مغربی پنجاب، مشرقی بنگال، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، بہاولپور اور سروسز اسپورٹس بورڈ کی صوبائی ہاکی/سپورٹس ایسوسی ایشنز کو قائم اور منظم کیا 2 اگست 1948 کو محدود وسائل کے باوجود پاکستان کی قومی ٹیم جس کی قیادت علی اقتدار شاہ دارا نے کی باضابطہ طور پر بیلجیئم کے خلاف 1948 کے لندن اولمپکس میں 2ـ1 سے جیت کر اپنا پہلا بین الاقوامی کھیل کھیلا پاکستان نے گروپ مرحلے کے دوران ہالینڈ، ڈنمارک اور فرانس کو شکست دے کر ناقابل شکست رہا اور چوتھے نمبر پر رہا گروپ مرحلے کے دوران پاکستان کی ہالینڈ کو 6ـ1 سے شکست ٹیم کے لیے خاص بات تھی اولمپکس کے بعد پاکستان یورپ کے دورے پر گیا جہاں بیلجیئم، ہالینڈ اور اٹلی سے کھیلا اور اس دورے میں ناقابل شکست رہا پاکستان نے 1950 میں اسپین میں ایک دعوتی مقابلے میں حصہ لیا فائنل میںپاکستان نے ہالینڈ کوشکست دیدی جوپاکستان کی پہلی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں فتح تھی جسکے بعد پاکستان نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا ہاکی فیڈریشن میں سفارشیوں کی تعیناتیوں کے بعد ہاکی تباہ و برباد ہونا شروع ہوگئی بلکہ نیست و نابود ہونا شروع ہوگئی اب ایک بار پھرہاکی فیڈریشن میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے رانا مجاہد علی کو سیکریٹری بنانا ایک اچھا اور احسن قدم ہے امید ہے پاکستان ہاکی اپنا کھویا ہوا مقام وقار کے ساتھ حاصل کرلے گی اگر رانا صاحب سفارشیوں کی سفارش ختم کردیں ۔