وجود

... loading ...

وجود

میڈیا کی آزادی پر جارحانہ حملہ

هفته 28 اکتوبر 2023 میڈیا کی آزادی پر جارحانہ حملہ

معصوم مرادآبادی

گزشہ منگل کو دہلی پولیس نے ‘نیوزکلک’ سے وابستہ صحافیوں کے پچاس ٹھکانوں پر چھاپہ مار کارروائی انجام دی اور وہ الیکٹرانک آلات ضبط کرلیے جن کے ذریعہ صحافی سچی خبروں کی ترسیل کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ان میں سے کئی سرکردہ صحافیوں کو دہلی پولیس اپنے ساتھ لے گئی اور دیر شام تک ان سے پوچھ تاچھ کرتی رہی۔ ان سے شاہین باغ احتجاج، کسانوں کی تحریک اور دوسرے عوامی مظاہروں سے متعلق تیکھے سوالات پوچھے گئے ۔ حکومت کا کہناہے کہ ‘نیوزکلک’ چین سے حاصل شدہ غیرقانونی فنڈنگ کے تحت کام کرتا ہے ۔ اسی لیے دیر شام ‘نیوز کلک ‘کے دفتر کوسیل کرکے اس کے 76 سالہ بانی ایڈیٹرپربیرپورکائستھ اوراور ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی گرفتاری غیرقانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت عمل میں آئی ہے ۔
‘نیوزکلک’ دراصل صحافت کی آبرو بچانے والا آن لائن نیوز چینل ہے ، جس سے ملک کے بیشتر وہ صحافی وابستہ ہیں، جن کا قومی ذرائع ابلاغ نے گلا گھونٹ کررکھ دیا ہے ۔ ان میں ابھیسار شرما، ارملیش ارمل اور بھاشا سنگھ جیسے نام شامل ہیں،جو اس وقت ملک میں بے خوف صحافت کی آبرو سمجھے جاتے ہیں اور ہر وہ بات عوام تک پہنچانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، جسے حکمران وقت عوام سے چھپانا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سچ کا جو راستہ اختیار کیا ہے ، اس کے لیے انھیں داد دی جانی چاہئے اور انعام واکرام سے نوازا جانا چاہئے ، لیکن حکومت وقت نے ان کے خلاف جومقدمہ قایم کیا ہے ، اس میں یو اے پی اے جیسے قانون کی ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں، جو وطن دشمنوں کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں۔ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ صحافت کی آبرو بچانے والوں کو وطن دشمنی کے الزامات کا سامنا ہے ۔ اس وقت ملک میں محب وطن وہی ہے جو حکمران وقت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور جو کوئی حکومت سے اختلاف یا اس کے کاموں پر تنقید کرتا ہے ، اسے کسی ثبوت کے بغیر وطن دشمن ثابت کردیا جاتا ہے ۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ‘نیوزکلک ‘ کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ۔ اس سے پہلے فروری 2021ں بھی ای ڈی اور محکمہ انکم ٹیکس نے ‘نیوزکلک’ کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے ۔ اس وقت بھی الزام یہی تھا کہ اس نے غیرملکی فنڈنگ حاصل کی ہے ۔ تازہ کارروائی ای ڈی کی طرف سے گزشتہ17اگست کو درج کی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی ہے ، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ‘نیوزکلک’ نے امریکہ کے راستے چین سے غیرقانونی رقومات حاصل کی ہیں۔ اس سلسلے میں ‘نیوزکلک’ نے جو وضاحتی بیان جاری کیا ہے ، اس میں اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس کارروائی کو آزاد اور غیرجانبدار صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف قراردیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں صحافیوں کی تمام سرکردہ تنظیموں نے بھی’نیوزکلک’اور اس سے وابستہ سرکردہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے اور اس معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیا سے مداخلت کی اپیل کی ہے ۔ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے سینئر صحافیوں کی رہائش گاہوں پر چھاپہ ماری اور اس کے نتیجے میں ہوئی گرفتاریوں پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ”یہ چھاپے ماری میڈیا کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے ۔ گلڈ نے یہ بھی کہا کہ قانون کو اپنا کام کرنا چاہئے لیکن ایسا ماحول پیدا نہیں کیا جانا چاہئے ، جس سے صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جائے ۔گلڈ نے حکومت کو یاددہانی کرائی ہے کہ ایک فعال جمہوریت کے لیے آزاد میڈیا کا وجود لازمی ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ صحافت کا بنیادی کام عوام کو حقیقت سے روشناس کرانا ہے ۔ ہمارے ملک میں تو اس کی اہمیت یوں بھی زیادہ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے باسی ہیں اور صحافت جمہوریت کاچوتھا ستون ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب سے ملک میں نئے حکمراں آئے ہیں انھوں نے صحافت کے معنی ہی بدل کررکھ دئیے ہیں۔ آج کے دور میں سوال کرنے والاسب سے بڑا دیش دروہی ہے ۔اسی لیے ملک میں ایک ایسا میڈیا وجود میں آچکا ہے جو نہ صرف یہ کہ خود کوئی سوال نہیں پوچھتا بلکہ سوال کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے ۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ عزت مین اسٹریم میڈیا کے نیوزچینلوں نے گنوائی ہے جو ملک میں ہر وقت فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دیتے ہیں اور مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ گودی میڈیا کے ان چینلوں کو دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا واحد کام ملک کے اندر ہندومسلم منافرت کو فروغ دینا اور جھوٹی خبروں کی ترسیل کرنا ہے ۔
حقیقت پسند لوگ اس صورتحال سے خاصے بیزار ہیں اور ان کے دلوں میں متبادل میڈیا نے اپنے لیے جگہ بنائی ہے ۔ ‘نیوزکلک’ ایسے ہی آن لائن نیوزچینلوں میں سے ایک ہے ، جو حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس سے وہ تمام صحافی وابستہ ہیں جنھوں نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔’نیوز کلک’ جیسے آن لائن چینلوں کی مقبولیت اور ہردلعزیزی کا راز یہی ہے کہ وہ صحافت کی اعلیٰ قدروں کی ترجمانی کرتے ہیں اور سچائی کا پرچم بلند کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے حکومت پر ان کا وجود بھاری ہے اور وہ ان کا گلا گھونٹنے کے لیے بے چین نظر آتی ہے ۔ بے باک، بے لاگ اور بے خوف صحافت سے وابستہ صحافیوں کے ٹھکانوں پر مارے گئے چھاپے حکومت کی گھبراہٹ اور بے چینی کا ہی ثبوت ہیں۔’نیوزکلک’ جیسے آن لائن چینلوں کی شمولیت اس ملک کے مین اسٹریم میڈیا میں پانچ فیصد کے قریب ہے ۔ باقی ٥٩ فیصد مین اسٹریم میڈیا ہر وقت حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے ۔ افسوس کہ حکومت اپنے آپ پر تنقید کرنے والی اس محدود آواز کو بھی برداشت نہیں کرپارہی ہے ۔
نیوز کلک کے خلاف کارروائی اور سرکردہ صحافیوں کو ہراساں کئے جانے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے بھی مشترکہ آوازاٹھائی ہے ۔ کانگریس لیڈر ششی تھرور کا کہنا ہے کہاتنی مضبوط سرکار کو ایک نیوز پورٹل سے خطرہ کیوں محسوس ہوتا ہے ؟ سرکار نے اس کارروائی سے خود کو اورجمہوریت کو بے عزت کیا ہے ۔”سی پی ایم لیڈر سیتا رام یچوری کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف کارروائی فردکی آزادی کے بنیادی حق پر حملہ ہے ۔ یہ صرف بے لگام ہی نہیں بلکہ فسطائی کارروائی بھی ہے ۔اپوزیشن اتحاد ‘انڈیا’ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی سرکار کی کارروائی اقتدار کے سامنے سچ بولنے والوں کے خلاف ہے ۔ یہ کارروائی نفرت اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف نہیں ہے۔ جس وقت ان صحافیوں کو حراست میں لے کر دہلی پولیس کی اسپیشل سیل گہری پوچھ تاچھ کررہی تھی اور اس کی خبریں آرہی تھیں تو دوپہر میں دہلی اور اس کے آس پاس زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے ۔ زلزلے آتے رہتے ہیں اور یہ انسان کے اپنے وجود کے متزلزل ہونے کا اعلان
ہوتے ہیں۔ جو کوئی بھی طاقت وریا اقتدار میں ہے اور اپنے ہمیشہ اقتدارمیں رہنے کا یقین رکھتا ہے ، یہ زلزلے دراصل اس کے لیے ایک وارننگ کی طرح ہوتے ہیں، جو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ اس دنیا میں سب کچھ ناپائیدار ہے ، اور یہاں کی کسی بھی شے پر غرور اورگھمنڈانسان کو ملیا میٹ کرنے کے لیے کافی ہے ، خواہ وہ بے لگام اقتدار ہی کیوں نہ ہو۔شاید منگل کی دوپہر کا زلزلہ یہی پیغام لے کر آیا تھا۔کاش حکمران وقت اس حقیقت کو سمجھ پاتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر