وجود

... loading ...

وجود

بانیان پاکستان کی فلسطین کے لیے حمایت

جمعه 27 اکتوبر 2023 بانیان پاکستان کی فلسطین کے لیے حمایت

ریاض احمدچودھری

برطانیہ کی طرف سے اعلان بالفور کے سامنے آنے کے ساتھ ہی اس معاملے میں قائد اعظم کی دلچسپی شروع ہوگئی اور انہوں نے فلسطین اور فلسطینی مسلمانوں کے مستقبل کو درپیش ہونے والے خطرات کو محسوس کر لیا۔ قائد کا کہنا تھا کہ ‘میں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ اور آبرومندانہ طریقے سے حل نہ کیا گیا تو سلطنت برطانیہ کے لیے یہ تبدیلی کا نکتہ آغاز ہو گا۔ برطانیہ نے فسلطینی عربوں کی رائے عامہ کو طاقت وجبر سے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم برصغیر کے مسلمان اس موڑ پر عرب موقف کے حامی ہیں اور ان کی منصفانہ جدوجہد میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عرب مسلمان اپنے جائز حق کی جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔’مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں 15 اکتوبر 1937 کو قائد اعظم نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
قائدِ اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ فلسطین کی حمایت میں 1933 سے 1946 تک اٹھارہ قرار دادیں منظور کی گئیں۔پورے برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ باقاعدگی کے ساتھ یومِ فلسطین پر سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرکے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی رہی۔23 مارچ،1940 ء کو قرار دادِ لاہور منظور کی گئی جو قرار دادِ پاکستان کہلاتی ہے، اس تاریخی موقع پر بھی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی قرار داد منظور کی گئی۔ صیہونیت کی پشت پناہی کے لیے چونکہ برطانیہ صف اوّل میں کھڑا تھا اس لیے قائدِ اعظم محمد علی جناح جہاں برّصغیر پاک و ہند کے مسلمانان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے وہیں جدوجہدِ آزادی فلسطین کے لیے بھی مسلسل تگ و دو کر رہے تھے کیونکہ ملّت کا پاسبان ہونے کے ناطے پوری امّتِ مسلمہ کا غم آپ کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا۔
فلسطین کی صورتِ حال کے متعلق چرچل (وزیرِ اعظم برطانیہ) کے نام قائد اعظم کا ٹیلی گرام:ـ
”آل انڈیا مسلم لیگ برطانوی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ مسلم لیگ کو فلسطین کانفرنس میں نمائندگی دے اور ”فلسطین قومی عرب مطالبات” کو تسلیم کرے۔ مسلم ہند نہایت بے قراری کے ساتھ نتائج کا منتظر ہے۔میں برقیہ کے ذریعہ سے سارے ہند میں پھیلے ہوئے جذبات کی شدت اور تاثرات کا کماحقہ اظہار نہیں کرسکتا۔ کانفرنس کی ناکامی کا سارے عالَمِ اسلام میں تباہ کن اثر ہوگا اور سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ میں بھروسہ کرتا ہوں کہ آپ اس مخلصانہ اپیل پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے۔”
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔ جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے انتقال سے صرف ایک سال پہلے ایک برطانوی رہنما کو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں خط لکھا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ عربوں سے ناانصافی نہ کی جائے۔ علامہ اقبال کا یہ خط اعلان بالفور کے بعد فلسطین پر صہیونی قبضے کی کوششوں اور وہاں پر ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام سے پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے تھا۔علامہ صاحب فرماتے ہیں: میں بدستور علیل ہوں، اس لیے تفصیل سے آپ کو نہیں لکھ سکتا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ نے میرے دل پر کیسا چرکا لگایا ہے۔ نہ یہ بتانے پر قادر ہوں کہ اس رپورٹ سے ہندوستان کے مسلمان بالخصوص اور پورے ایشیا کے مسلمان بالعموم کس قدر رنج والم کا شکار ہوئے ہیں اور ان کے غم وغصے کے جذبات آئندہ دنوں کیا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز ہو کر اس ظلم اور طغیان کے خلاف احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں بلکہ ان وعدوں کو ایفا کریں جو گذشتہ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے حکمرانوں نے برطانوی عوام کے نام عربوں سے کیے تھے۔ حقیقی طاقت کے نشے سے سرشار ہو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے تو تباہی سے ہمکنار ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔’
مسئلہ فلسطین پر علامہ اقبال ،اقبال نامہ میں لکھتے ہیں:فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تو محض ایک حیلہ ہے، حقیقت یہ کہ برطانوی اِمپیریلزم مسلمانوں کے مقامات ِمقدس میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں ایک مقام کی متلاشی ہے”۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست مانتے تھے، اس کے جارحانہ اور مجرمانہ عزائم سے خوب واقف تھے۔ اس بارے ان کا ٹھوس مؤقف تھا کہ اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔مولانا مودودی کا ماننا تھا کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہتے ہوئے مسجد اقصی کے حل کی کوئی صورت ممکن نہیں اور مسجد اقصی کا مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جبکہ ناجائز یہودی ریاست کا خاتمہ ہو اور فلسطین کو آزاد کرالیا جائے،اس کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
اسرائیل کے قیام کے پیچھے برطانیہ کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل میں جب یہودیوں نے دیکھا کہ اتحادی جنگ جیت رہے ہیں تو انھوں نے اتحادیوں کو خصوصاً برطانیہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام پر آمادہ کیا ۔برطانیہ کی پہلے ہی نظر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر تھی سو اس نے جاتے جاتے ایک ایسی ریاست مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر قائم کر گیا جو آج تک فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فلسطین تو کیا پورے عرب کو بھی آج تک حقیقی آزادی نصیب نہ ہوسکی۔ وہ اقتصادی طور پر اسرائیل و امریکا کے ہی غلام ہیں کیونکہ دنیا کی معیشت پر ان صہیونیوں کا قبضہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر