وجود

... loading ...

وجود

غزہ موت وزیست کی کشمکش میں

بدھ 25 اکتوبر 2023 غزہ موت وزیست کی کشمکش میں

غزہ بدستور محاصرے میں ہے اور اسرائیل نے اپنی سرحد پر پانی، بجلی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی روک دی ہے۔ طبی خیراتی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں زخمیوں کی ’اگلے چند گھنٹوں‘ میں ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ سے زائد افراد کے بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے۔ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن نے فلسطین کی صورتِ حال پر اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ غزہ میں خوراک کی کمی سنگین انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے، ہزاروں زخمی غزہ کے اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ غزہ میں پانی اور اسپتالوں میں ضروری طبی آلات نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ فوری جنگ بندی کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے۔پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ذمے داری ہے کہ وہ ان متاثرہ خاندانوں کی حفاظت یقینی بنائے۔
غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے تقریبا 20 ٹرک اور امدادی کارکنوں کی بڑی تعداد رفح سرحدی کراسنگ کے مصری حصے میں انتظار کر رہی ہے، اس امید میں کہ غزہ میں رسد کی فراہمی کے لیے اسے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ ابھی تک اس کے دوبارہ کھولے جانے کی کوئی خبر نہیں ہے۔غزہ کی طرف جانے والی واحد سڑک بمباری سے تباہ شدہ اور خطرناک ہ چکی ہے۔مصر ی مزدور رفح کراسنگ کی مرمت کی کوشش کر رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر آج 20 امدادی گاڑیاں غزہ پہنچ سکتی ہیں۔اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ صرف خوراک، پانی اور دواؤں کو راستے دینے پر رضامند ہوگا۔ غزہ میں بنیادی ضروریات کے لیے پانی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے کیونکہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے غزہ کی پٹی کا ’مکمل محاصرہ‘ کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لزارانی نے بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ ایک کھائی کے دہانے پر ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس غزہ میں متوقع امداد کی فراہمی سے قبل مصر کے رفح کراسنگ پر پہنچ گئے ہیں۔انتونیو گوتریس نے مصر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے ’پانی، ایندھن، ادویات اور خوراک سے بھرے بہت سے ٹرک‘ دیکھے ہیں۔ یہ ٹرک ’لائف لائن‘ اور ’غزہ میں بہت سے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کا فرق‘ ثابت ہوں گے مشرق قریب میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے کمشنر جنرل نے کہا کہ دنیا اب اپنی انسانیت کھو رہی ہے۔انھوں نے متنبہ کیا کہ پورے خطے میں تشدد پھیل سکتا ہے۔لزارینی نے غزہ کے اندر شہریوں کے لیے سنگین صورتحال کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے علاقے میں انسانی امداد کی راہداریوں کا ایک بار پھر مطالبہ کیا۔فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے سے تعلق رکھنے والی جولیٹ توما کہتی ہیں کہ غزہ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ’جہنم‘ بن چکا ہے۔ انھوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ شہریوں کو فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’وقت ختم ہو رہا ہے۔ تقریبا دو ہفتے ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دو ہفتوں سے یو این آر ڈبلیو اے غزہ میں کسی بھی قسم کی رسد لانے میں ناکام رہا ہے۔توما نے مزید کہا کہ ’وقت گزر رہا ہے‘ اور وہ نہیں جانتیں کہ رفح سرحدی گزرگاہ کب کھلے گی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیسے یقینی بنایا جائے گا کہ امداد حماس کے ہاتھوں میں نہ جائے تو انھوں نے کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے پاس سخت جانچ پڑتال اور نگرانی کا نظام موجود ہے کیونکہ تنظیم کے 13 ہزار عملے نے صرف ان لوگوں کو امداد فراہم کی ہے جنھیں اس کی ضرورت ہے اس وقت غزہ کے ہسپتالوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ایندھن کی اشد ضرورت ہے اور واٹر فلٹر سسٹم کی بھی لیکن یہ دونوں اس معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے قاہرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ داخلے کے لیے فراہم کی جانے والی رسد سے انسانی درد اور مصائب میں کمی آئے گی۔مصری فوڈ بینک کے چیف ایگزیکٹیو محسن سرحان نے کہا ہے کہ اگر رفح کراسنگ پر شدید بمباری جاری رہی تو امداد کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’جو چیز ہمیں اندر جانے سے روک رہی ہے وہ اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کے پورے حصے پرشدید ترین بمباری ہے ہم 8 دن سے سرحد پر موجود ہیں اور ہر منٹ بم گر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک بنجر زمین پر بھی بمباری کر رہے تھے جہاں نہ تو جانور ہیں اور نہ ہی انسان۔انھوں نے کہا کہ ’ہم اندر جانے کے لیے تیار ہیں لیکن مصری حکام ہمیں اس وقت تک اندر جانے کی اجازت نہیں دیں گے، جب تک کہ وہ اس بات کی ضمانت نہ دے سکیں کہ ہم فوراً ہی مارے نہیں جائیں گے۔
     چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل چار کی روشنی میں غزہ کے محصورین کی حیثیت  Protected persons کی سی ہے۔ جنیوا کنونشن کے مطابق جو لوگ کسی جنگ، قبضے یا تنازعے کے دوران خود کو کسی ایسی قوت کے رحم و کرم پر پائیں، جس کے وہ شہری نہ ہوں تو انہیں Protected persons کہا جائے گا۔جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 میں کسی بھی آبادی کو ’اجتماعی سزا‘ اور اس سے ملتے جلتے خوف زدہ کر دینے والے اقدامات کی اجازت نہیں ہے۔ جب کہ اسرائیل اس وقت غزہ میں ’اجتماعی سزا‘ کے فارمولے کے تحت شہریوں پر گولہ باری اور فضائی حملے کر رہا ہے۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 20 کے مطابق Protected persons کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی ممانعت ہے اور یہی اصول 1874 میں برسلز کانفرنس میں بھی وضع کیا جا چکا ہے۔جنیوا کنونشن کے آرٹیکل دو کے مطابق بھی انتقامی کارروائیوں کی اجازت نہیں۔کسی بھی عام شہری کو کسی بھی دوسرے آدمی کے کسی فعل پر سزا نہیں دی جا سکتی اور اگر دی جائے گی تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ جنیوا کنونشن نے اسے ’جنگی جرم‘ قرار دے رکھا ہے۔جنیوا کنونشن سے پہلے ایسے اقدامات کی کوئی ممانعت نہ تھی۔برطانیہ نے جنوبی افریقہ کے خلاف جنگ میں اور جرمنی نے جنگ عظیم اول میں اس طرح کے غیر انسانی حملوں کی یہی توجیح پیش کی تھی کہ قانون انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے۔چنانچہ اسی قتل و غارت کو دیکھتے ہوئے جنیوا کنونشن میں آئندہ کے لیے اس کی ممانعت کر دی گئی۔اسرائیل غزہ میں تاریخ کے پہیے کو ایک بار پھر الٹا چلا رہا ہے اور بنی نوع انسان کے شعور اجتماعی کی اس توہین میں جمہوریت اور حقوق انسانی کی علمبردار عالمی قوتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول کے آرٹیکل 17 کے مطابق مقامی آبادی کے لیے لازم ہو گا کہ وہ زخمیوں کی دیکھ بھال کرے اور ان کے خلاف اس وجہ سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔اسرائیل نے غزہ میں ہسپتالوں پر بھی حملے کیے ہیں اور وہ مریضوں سمیت ملبہ بن گئے ہیں جب کہ سول آبادی کے تحفظ سے متعلقہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 16 کے مطابق زخمی اور بیمار خصوصی عزت کے مستحق ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار ہسپتالوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اسرائیل اس کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔سوال ہے کہ ایسی صورت حال میں بین الاقوامی قانون کیا رہنمائی کرتا ہے؟جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول ون کے آرٹیکل 52 کی ذیلی دفعہ3میں اس کا جواب موجود ہے۔لکھا ہے کہ: اس شک کی صورت میں کہ آیا کوئی جگہ جو بالعموم سویلین مقاصد کے لیے وقف ہو، کسی فوجی کارروائی میں موثر معاونت کے لیے استعمال ہو رہی ہے یا نہیں تو یہ تصور کیا جائے گا کہ و ہ اس طرح استعمال نہیں ہو رہی۔سینٹ پیٹرز برگ ڈیکلئریشن 1868 کے مطابق واحد قانونی ٹارگٹ دشمن کی ملٹری فورس کو کمزور کرنا ہے۔ سویلین پر حملہ جائز نہیں ہو گا۔یہی بات جنیوا کنونشن ایڈیشنل پروٹوکول ون کے آرٹیکل 52 کی ذیلی دفعہ دو میں بھی کہی گئی ہے۔حقوق انسانی کے عالمی اعلامیے (یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس) کے آرٹیکل 3 کے مطابق ہر کسی کو زندگی، آزادی اور جان کی سلامتی کا حق حاصل ہے۔ یہی بات یورپی کنونشن کے آرٹیکل 2میں بھی موجود ہے۔یہ حق ظاہر ہے غزہ کے ان مقتول بچوں کو بھی حاصل تھا جن کے منہ سے ماں کے دودھ کی خوشبو بھی ابھی جدا نہیں ہوئی تھی۔اسی طرح ہیگ رُولز آف ایئر وارفیئر کے آرٹیکل 22 کے مطابق شہری آبادی کو خوف زدہ کرنے یا نجی املاک کو تباہ کرنے کے لیے جن کی نوعیت عسکری نہ ہو بمباری کرنا ممنوع ہے۔ہیگ کنونشن IV کے آرٹیکل 25 کے مطابق کسی بھی ذریعے سے قصبوں، دیہاتوں اور رہائشی مقامات پر حملہ یا بمباری منع ہے۔ہیگ II (29 جولائی 1899) کے آرٹیکل 25 کے مطابق بھی قصبوں، دیہاتوں، رہائشی مقامات پر حملہ یا بمباری منع ہے۔لیگ آف نیشنز نے 30 ستمبر 1938 کو ایک متفقہ قرارداد میں قرار دیا تھا کہ شہری آبادی پر حملہ غیر قانونی ہے۔کسٹمری انٹر نیشنل لا سب سے طاقتور اصولوں کا مجموعہ ہے اور چاہے کوئی ملک ان کی توثیق کرے یا نہ کرے، ان کی پابندی سب پر لازم ہے۔ کسٹمری انٹر نیشنل لا کے چند اصول ایسے ہیں جو ہر وقت ہر تنازعے میں خود بخود لاگو سمجھے جاتے ہیں۔ان کے مطابق حملوں کا نشانہ صرف عسکری ٹارگٹ ہو سکتا ہے، شہری آبادی پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق رکھنا لازمی ہے، شہریوں کی املاک تباہ نہیں کی جا سکتیں، بلا امتیاز حملے نہیں کیے جا سکتے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حقوق انسانی اور جمہوری اصولوں کی نام نہاد علمبردار عالمی قوتوں کو کیا ان قوانین کا علم نہیں یا انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسرائیل کس سفاکانہ اور بہیمانہ طریقے سے فلسطینی بچوں بوڑھوں اور خواتین کو تہہ تیغ کر رہاہے۔کیا موجودہ موجودہ صورت حال میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل کا رفع کی سرحد پر پہنچ جانا ہی کافی ہے،کیا ان پر یہ فرض عاید نہیں ہوتا کہ وہ عالمی امن فوج کے دستے اسرائیل بھیجیں تاکہ وہ اسرائیل کے بربر فوجیوں کو فلسطینیوں کے قتل عام سے روک سکیں اور خطے میں امن بحال کرکے فلسطینی عوام کواپنی سرزمین پر جینے کا حق دے سکیں؟


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر