... loading ...
پیارے محمد طاہر!
کیا حال ہے؟ کہیں اور نہیں لاہور میں حضوری باغ زیادہ جاتے ہو، علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دیتے ہو، مگر علامہ وہاں کہاں ہے؟ وہ تو خلد نشیں ہے۔ کل ”مسجد قرطبہ” سنا رہے تھے۔ اموی خلیفہ عبدالرحمن بھی جھوم رہے تھے۔ جب علامہ نے ترنگ میں پڑھا:
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں بے ثبات
خلیفہ عبدالرحمن غش کھا کر گر پڑے۔ علامہ اور عطاء اللہ شاہ بخاری کی نشستیں سجتی ہیں، شاہ جی اب یہ کہتے ہیں: علامہ نے قلم اور قدم دونوں ہی صحیح اُٹھائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی یہیں رونق افروز ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی اور حکیم الامت اشرف علی تھانوی بھی اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ حیرت نہ کرو! تم جس دنیا میں ہو، وہاں یہ نکتہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہاں لوگ نظریات کے اختلا ف پر نہیں بلکہ اپنے خلوص کی برکت سے نجات پاتے ہیں۔ یہاں یہ پُرخلوص لوگوں کی ایک ہی نوری برادری ہے۔ صاحبانِ عشق کہلاتے ہیں، عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات چھیڑتے ہیں تو بندگان تخمین وظن آخری صفوں میں لرزتے وجود کے ساتھ منہ چھپائے بیٹھے رہتے ہیں۔ جانے پہچانے کو آواز دیں تو بھاگ جاتے ہیں، جنت میں تلاش کرنے نکلیں تو کہیں نظر نہیں آتے، معلوم نہیں کہاں بسیرا کرتے ہیں؟
ہاں ! تمہاری علامہ کے مزار پر خون سے لتھڑی، آنسوؤں سے رندھی، درد میں ڈوبی دعائیں یہاں بھی پہنچی ہیں، اثر بہت ہے، مگر یہ قبول نہیں ہونگیں، کیونکہ دعاؤں کی قبولیت کے لیے ایک سنت الہٰی ہے، جتنا بھی رو لو! یہ تبدیل نہیں ہوگی، علامہ کو حفظ کر لیا مگر بھول گئے کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
اسرائیل کی شکست چاہتے ہواور حماس کی فتح! تمہاری تو کیا کسی کی بھی دعاؤں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ رائیونڈ کا اجتماع اور منصورہ کی شوریٰ مل کر بھی دعائیں کریں تو کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں آ کر بات سمجھ میں آئی کہ الفاظ و معانی میں کوئی تفاوت نہ ہونے کے باوجود علامہ یہ ”حال ومقام” کیوں کر سمجھ پائے کہ”ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور”۔ تم تند و سبک سیر زمانے کی رَو، کو تھام نہیں سکتے۔ یہ الہٰی اسکیم ہے اور اِسے عشق کی تحویل میں رکھا گیا ہے۔ جہاں ارادے کی قوت ایمان سے بروئے کار آ کر مجاہد کی اذاں میں ڈھل جاتی ہے۔ عشق کا بس یہی سیل اس رَو، کو تھام سکتا ہے۔ مگر تمہاری دنیا میں ظن و تخمین اور عقل پرستوں کا راج ہے۔ جو زمانے کو رقاصہ کے بدن کے زاویے کی طرح دیکھتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ غزہ لہو لہو کیوں ہے؟ پھر یہ قضیہ چھیڑنے کی ضرورت کیا تھی؟ مجاہد کی عملی بصیرت، عالی دماغوں کی بصارت سے اسی لیے اعلیٰ و ارفع ہے کہ وہ زمین کو زمین سے نہیں آسمان سے دیکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ابھی ابھی یہاں پہنچے ہیں، جنہیں فرشتے اپنے پروں میں لیے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا چاند سے زیادہ چمکتے یہ لوگ کون ہیں؟ فرشتوں نے افتخار سے کہا : اَعْلیٰ عِلِّیِّیِن کے مکین ہیں۔ رشک ِ ملائکین ہیں۔ حماس کے مجاہدین ہیں۔ حیرت ہے ابھی لمحہ پہلے پہنچے ہیں مگر چودہ سو سال قبل کے شہدا کے حلقۂ مقربین میں ہیں۔ برخوردار! کیا اب بھی زمانے کی رو میں دن رات سے بے نیاز شب وروز کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے؟ تماری دنیا میں کوئی کسی بھی دور کا ہو وہ یہاں اپنے مقام اور رتبے سے اُس عہد کے انسانوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ صدیق، صدیقین کے حلقے میں ہیں۔ صالح، صالحین کے حلقے میں ہیں۔ مجاہد، حضرت حمزہ کے حلقے میں ہیں۔ البتہ تمارے زمانے کا کوئی عالم دین یہاں نظر نہیں آیا، جو یہاں پہنچے ہیں وہ اپنے مدرسوں کی زمینوں اور اس کی تعمیر کے مصارف کا حساب کتاب دینے کہیں لے جائے گئے ہیں۔ کیا بنا؟ کچھ پتہ نہیں!!
برخوردار محمدطاہر!
زندگی کے دھوکے سے باہر آجاؤ۔ حیات کو شب روز کا لیکھا جوکھا نہ سمجھو! جسم کی حرکت زندگی اور جمود موت نہیں، یہ تمہاری دنیا کے مغالطے ہیں۔ یہاں موت وحیات ایک بالائے دنیا بالاتر قانون کے تصور میں ہے۔ اب دیکھو! ابھی ابھی یہاں ایک معصوم بچہ پہنچا ہے۔ ایک پیکرِ پاکیزہ ۔ وہ موت کے بحرِ بیکراں کو اپنی لطیف روح سے عبور کر آیا۔ یوں لگتا تھا جیسے زمین پر کھڑا کسی آسمان کو چھوتا فرشتہ پیغام الہٰی کی تلقین کر رہا ہو۔ نجات کی راہ دکھا رہا ہو۔ اس کا جمالِ روح پرور ہماری روحوں کو آمادۂ رقص کر رہا تھا۔ اس کی مدھر آواز میں فنا و بقا کے راز تھے۔ اس کے قدموں کی آواز پر حوروں کے کان تھے۔ فرشتے قطار اندر قطار اس کا استقبال کرنے کھڑے تھے۔ میں نے تجسس سے فرشتے سے پوچھا یہ کون ہے؟ فرشتے نے نغمۂ ابدیت کی لے پر گنگناتی آواز میں شتابی سے کہا: یہ برعونی الدوس ہے، زمین پر اس کی عمر بارہ برس ہے۔ ابھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہوا ہے۔ زمین کے سپر د کرنے سے پہلے فرشتے یہاں لے آئے ہیں”۔ فرشتے اپنی نظریں چاند سے زیادہ روشن چہرے سے ہٹا نہ رہے تھے۔ میں نے اس رشک ملائک کو دیکھا، اس کا مقام ہزاروں برس جینے والوں سے بلند و برتر تھا۔ فرشتوں نے اس کی پیشانی سے خون صاف کیا اور اس پر اپنی پسندیدگی کے بوسے دیے۔ ابھی میں اس نظارے کے سرور سے نکلا نہ تھا کہ اچانک ابدیت کے نغمے گونجنے لگے۔ فرشتے حیا سے اِ دھر اُدھر ہونے لگے۔ مجھے تجسس نے اُکسایا۔ یہ تیاری کیسی؟ اچانک شور اُٹھا: حبا ابو ندا آرہی ہے، حبا ابو ندا آ رہی ہے”۔ ساتھ ہی آواز گونجی: اگر ہم مرجائیں تو جان لیں ہم ثابت قدم اورسچے ہیں”۔ یہ کیا آواز ہے؟ میں نے پوچھا تو ایک فرشتے نے جواب دیا: یہ حبا نے شہادت سے قبل سرزمین انبیاء، فلسطین سے دنیا والوں کے لیے آخری پیغام جاری کیا تھا۔ اس پیغام کو پسندیدگی کی سند دیتے ہوئے نغمۂ ابدیت میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اب حبا ابوندا کی آمد کا یہ استقبالیہ گیت ہے۔ تم ثابت قدم رہی، تم سچی ہو۔ حوریں حبا کا استقبال کر رہی تھیں اور گنگنا رہی تھیں:۔
اے احتجاج و عناد کی دنیا کو ٹھکر ا کے آنے والی۔۔ آجا!
یہاں تمہاری دنیا کا وہ مہذب معاشرہ نہیں
جس میں لعنت ہی لعنت اور نحوست ہی نحوست ہو!
عروس فطرت کی تمام رعنائیاں اب ہے تجھ سے مستعار
چلی آ! چلی آ! تیری آمدِ مبارک و سعید کا ہے انتظار
مچھر کے پر سے بے حیثیت
مکڑی کے جالے سے زیادہ بے ثبات
چھچھوندر کے بل کی طرح تاریک
تحقیر آمیز حیات سے لپٹے لوگوں کو چھوڑ آنے والی
اے خوش نصیب آجا!
محمد طاہر!
تمہیں کیا بتاؤ! اس نعمۂ ابدیت کا سرور یہاں کیا تھا۔ یاد رکھو، جسمِ انسانی فانی ہے مگر فضائلِ انسانی کو فنا نہیں۔ حبا ابوندا اور برعونی الدوس کی طرح وہ حیاتِ ابدی سے سرفراز ہوتے ہیں جو اپنے جسم کو گوشت اور ہڈیوں سے آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں، جو وقتِ قیام، سجدوں میں نہیں گرتے۔ آج یہاں شہدا کا جشن تھا۔ مگر تمہاری دنیا میں ایشیائی شاعری کے روایتی بے وفا معشوق کی طرح اقتدار کی کشاکش کا کھیل اُسی طرح جاری تھا۔ مینارِ پاکستان کا شور مجھے یہاں سنائی دیا۔ میں یہاں سے جنت کے راستے جا رہا تھا بیچ میں وہ خطرناک مقام آتا ہے جہاں آگ کے شعلے دہکتے ہوئے دور سے نظر آتے ہیں۔ کچھ آوازیں آ رہی تھیں جس میں موٹے پیٹوں کے لشکر عوام کے دکھوں پر دُبلے ہوئے جا رہے تھے، میں نے پوچھا یہ کیا آوازیں ہیں، مجھے بتایا گیا کہ یہاں جھوٹوں کو سزا کے طور پر تمہارے ملک کی تقریریں سنائی جا رہی ہیں۔ میں کان لپیٹ کر خوف سے خلد نشیں علامہ اقبال کی طرف بھاگنے لگا۔ جہاں عطاء اللہ شاہ بخاری سورة البقرة کی آیت 154 کی تلاوت فرما رہے تھے: اللہ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے”۔ میں نے دیکھا کہ شاہ جی کی تلاوت پر علامہ کو ہی نہیں فرشتوں کوبھی حال آیا ہوا تھا۔
اچھا بھئی! اجازت دو اگلی بار علامہ کی قبر پر آؤ تو میانی بھی چلے آنا، کچھ رازو نیاز کریں گے۔
فقط
شورش کاشمیری
(شورش کاشمیری کے یوم وفات (24اکتوبر) کی مناسبت سے لکھا گیا)