... loading ...
ریاض چودھری
سابق سیکریٹری خارجہ جناب شمشاد احمدنے ہمارے دوست حامد ولید کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جس طرح انگریزوں نے سازش کے تحت فلسطین میں یہودیوں کو بسایا اور اسرائیل کی بنیاد پڑی اسی طرح انگریزوں نے ہندووں کے ساتھ مل کر سازش کی اور مسلم اکثریت کے کشمیر کو ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ ہمارے سرحدی علاقے خاص طور پر فیروز پور اور گورداس پور پر بھارتی قبضے کے بعد بھارت نے ہمیں گھیر لیا اور کشمیر کا راستہ بھی بند کر دیا۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان کو بھی چاروں طرف سے بھارت نے گھیرا ہوا تھا اور ہم اس کی بروقت مناسب حفاظت نہ کر سکے۔ لیکن اب جو موجودہ پاکستان ہے اس کا سہرا پاک فوج کو جاتا ہے اگر پاک فوج نہ ہوتی تو شاید پاکستان کا وجود بہت پہلے ہی خطرے میں پڑ چکا ہوتا۔
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وطن عزیز کے مشکل دور میں سیکرٹری خارجہ کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس دور میں بھارت کے جواب میں ہم نے ایٹمی دھماکے کئے، واجپائی پاکستان آئے اور نوازشریف کے ساتھ اعلان لاہورپردستخط کئے۔ کارگل آپریشن ہوا ،اور پھر اس سلسلے میں نواز کلنٹن ملاقات، سی ٹی بی ٹی پردستخط کے لیے عالمی دنیا نے دباؤ ڈالا اور جنرل مشرف نے مارشل لاء لگایا۔ بعدازاں امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت بھی وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی طرف سے مستقل مندوب کی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ایک سوال کے جواب میں شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ 14 اگست 1947کو قیام پاکستان بیسویں صدی کا ایک معجزہ تھا۔ قائد اعظم کو بھی اس بات کا احساس تھا اور وہ یہی کہا کرتے تھے کہ پاکستان ایک آزاد، خودمختار اور خوددار مملکت کے طور پر وجود میں آچکا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اب اس کو ختم نہیں کر سکتی۔ قیام پاکستان کے آخری لمحات میں کانگریس نے انگریزوں کے ساتھ مل کر ریڈکلف ایوارڈ کے نام پر پاکستان کی سرحدوں میں بہت چھیڑ خانی کی اور مسلم اکثریت کے بہت سے علاقے جو پاکستان میں شامل ہونے تھے ، وہ بھارت کے حوالے کر دیئے تاکہ ہندوستان کو کشمیر تک کا راستہ مل جائے ورنہ اس سے قبل روایتی طور پر کشمیر کا راستہ راولپنڈی سے ہو کر جاتا تھا۔ کشمیر کی پاکستان کیلئے اہمیت اتنی تھی کہ ہمارا سارا میٹھا پانی کشمیر سے آتا تھا۔ کشمیر کی ساری تجارت بھی یہیں سے ان دریاؤں کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ کشمیر سے تاریخی روابط تھے ۔ مسلم اکثریت تھی مگر اس سب کو تہس نہس کر کے کشمیر ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا۔
پاکستان میں سیاست بارے سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے زیادہ ہمارے سیاستدانوں نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ ملک کو لسانی اور نسلی بنیادوںپر گروہوںمیں تقسیم کر دیا۔ پاکستانی سندھی، پنجابی، بلوچی ، پشتون بن گئے۔ قائد اعظم شروع دن سے یہ کہتے رہے کہ یہ صوبائیت ختم کرو۔ ہم صرف پاکستانی ہیں۔ لسانی و نسلی بنیاد پر گروہوں میں تقسیم نہیں ۔ ہم نے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل اسلام کے نام پر ایک آزاد ملک حاصل کیا ہے۔ اسلام میں کوئی تقسیم نہیں۔ یہاں ہندوستان کی طرح اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک نہیں ہوگا۔ ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ قائد اعظم نے ہر شہری، ہر طبقہ ، ہر ادارہ کو بتادیا تھا کہ ان کے کیا فرائض ہیں۔ فوج کو بتا دیا تھا کہ تم نے پاکستان کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہوا ہے لہذا تم نے ہمیشہ پاکستان کی حفاظت کرنی ہے ۔ سیاست سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو کہا کہ پارلیمنٹ بناؤ، قانون سازی کرو۔ تمہارا پہلا فرض یہ ہے کہ پاکستان کا آئین بناؤ۔
سابق سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مثال موجود ہے۔ اس سانحے کا ذمہ دار بھٹو تھا۔ ہم اس وقت سروس میں تھے، ہم ہر چیز دیکھ رہے تھے۔ مجیب کو اکثریت ملی تھی، اگر ہم اس کا احترام کرتے تو صوبائی خود مختاری کے اصول کے تحت ہم اکٹھے رہ سکتے تھے۔ لیکن بھٹو نے ایسے حالات پیدا کیے کہ فوج کو اس معاملے میں آنا پڑا۔ پاکستان نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ بنگال میں لڑائی ہوسکتی ہے۔ جب لڑائی کروائی گئی تو فوج کو لڑنا پڑگیا اور اس کا برا نتیجہ نکلا۔یہ جو سانحہ ہوا یہ اس وقت کی سیاسی قیادت کی غلط سوچ اور حکمت عملی کی وجہ سے ہوا۔ ایک بحران جو سیاسی تھا اسے سیاسی طور پر حل نہ کرکے اس شخص نے اسے فوجی حل کی طرف دھکیلا جس سے یہ سانحہ رونما ہوگیا۔بھٹو ایک انتہائی قابل لیڈر تھا لیکن جب ذاتی مفادات مقدم ہوجاتے ہیں تو پھر اسی طرح ہوتا ہے۔ بھٹو الیکشن جیت رہا تھا لیکن خواہ مخواہ دھاندلی کرواکر بحران پیدا کیا جس سے فوج کو اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا۔ فوج کو مال روڈ پر احتجاجی جلوس پر فائرنگ کا حکم ملا تھا جس پر تمام فوجیوں نے انکارکردیا۔ ایسی صورتحال میں فوج کے سربراہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔ تو ضیاء الحق برسراقتدار آگیا حالانکہ وہ بھٹو کے اعتماد والا آدمی تھا۔ اس کے جانے کے بعد دوبارہ جمہوریت کی طرف سفر شروع کیا۔اگر ہمارے حکمران نیک نیتی سے کام کرتے تو یہاں مارشل لاء نہ لگتے تو ملک بہت زیادہ ترقی کر چکا ہوتا۔ لوکیشن کے اعتبار سے ہمارے ملک کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، ہم اپنی اس لوکیشن کی وجہ سے امریکا، چین، روس، گلف، یورپ غرض ہر ملک کے لئے بہت اہم ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم اس لوکیشن کو استعمال نہیں کر سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی لوکیشن کو اثاثہ بنائیں۔