... loading ...
میرافسر امان
خلافت بنو عباس پانچ سو پچیس(525) سا ل تک قائم رہی۔ جبکہ خلافت بنو امیہ نے نوے سال حکومت کی۔ بنو امیہ کی حکومت خالص عربی جبکہ بنو عباس حکومت میں عجمی لوگ بھی شامل تھے۔ بنو عباس کا دعویٰ تھا کہ وہ رسول ۖ اللہ کے چچا حضرت عباس کی اولاد ہیں، لہٰذا اہل بیعت میں سے ہیں اور اسلامی خلافت کے حقدار ہیں۔ اس دعویٰ کو بنو عباس نے بار بار دہرایا ۔ عام مسلمان ان کی خلافت کے قائل ہو گئے۔ جبکہ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور حکومت میں حضرت علی کی اولاد، علویوں نے ہمیشہ خلافت حاصل کرنے کے لیے شورشیں کیں، اور کہیں کہیں وہ کامیاب بھی ہوئے۔عباسی خلفاء نہ صرف سیاسی لحاظ سے دنیائے اسلام کے حاکم تھے بلکہ ان کو ایک قسم کی روحانی حیثیت بھی حاصل تھی۔ منصب خلافت کو ایک قسم کا تقدس بھی حاصل ہو گیا تھا۔ تقدس و احترام کا یہ لبادہ عباسی خلفاء کے لیے مفید ثابت ہوا،کیونکہ جب دیملی اور سلجوقی حکمرانوں نے ان کا اقتدارسلب کیا، تب بھی ان کا حق خلافت قائم رہا۔ عوام ان کو دنیا ئے اسلام کا حقیقی اور جائز خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کہیں دنیائے اسلام میں اپنی حکومت قائم کرتے تو عباسی خلیفہ حمایت سے قائم رہ سکتی تھی۔ بنو امیہ کی طرح بنو عباس بھی اکثر اوقات اپنی ز ندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کر دیتے تھے۔ ارکان سلطنت ولی عہد کی اطاعت کا حلف اُٹھاتے تھے۔ جب ولی عہد تخت ِ سلطنت پر بیٹھ جاتا تو تمام اُمراء دوربارہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۔ خلافت عباسیہ سے پہلے وزارت یعنی وزیر اعظم کا عہدہ نہیں تھا۔ سب سے پہلا شخص جو وزیر کے نام سے مشہور ہوا وہ ابو سلمہ خلال تھا۔ ابتداء میں وہ عباسیوں کا ایک داعی تھا۔ یہ وزیر آل محمد ۖ کے نام سے مشہور ہوا۔ ابو سلمہ کے بعد ابوالجہم کو وزارت ملی۔ اس کے بعد خالد بر مکی کو وزارت ملی۔جہاں تک کہ وزارت کا محکمہ نائب سلطنت بن گیا وہ ارکان سلطنت میں سب سے بڑا عہدہ بن گیا۔ اسی لیے تاریخ دانوں نے جب خلفاء کی تاریخ مرتب کی تو وزارت کو بھی اس میں شامل کیا۔
خلافت عباسیہ کے دور میں وزیر اعظم” امیر الامرائ” کے لقب سے موسوم رہا۔ عباسی خلفاء کے بیسویں خلیفہ ،راضی باللہ کا زمانہ آیا تو سلطنت کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی۔ صوبیداروں نے خراج دینا بند کر دیا۔ حکومت کے عہدہ دار بدیانت ہو چکے تھے۔ خلیفہ نے مجبوراً سن324ھ میں محمد بن رائق کو بصرہ اور واسط کا حاکم تھا، مدار المہام بنایا اور سلطنت کے تمام اختیارات اس کے سپرد کر دیے۔ محمد بن رائق نے امیر اُلامراء کا لقب اختیار کیا جو حکومت کا سب سے اعلیٰ منصب تھا۔ جب بویہ شیعیوں نے بغداد پر قبضہ کیا تو انہوں نے دیگر اختیارات کے ساتھ یہ عہدہ بھی خود سنبھال لیا اور خلیفہ کی حیثیت محض رسمی رہ گئی۔ وزیر کے علاوہ حاجب بھی دربارخلافت میں ایک اہم عہدہ تھا۔ اس کے لفظی معنی دربان کے ہیں۔ یہ ایک بڑا مقرب منصب سمجھاجاتا تھا۔ جب لوگ خلیفہ سے ملنے آتے تو اس حاجب کے ذریعے ہی ملاقات کر سکتے تھے۔ بعض اُوقات خلیفہ حاجب سے ملک یاملات میں مشورہ بھی کرتا تھا۔ اس لیے اسے ایک مشیر کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ حکومت کے مرکزی شعبے تقسیم تھے۔ ہر محکمہ کو دیوان کہا جاتا تھا۔ جو ایک افسر کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ سب دیوان وزیر کے ماتحت ہوتے تھے۔ دیوان الخراج سلطنت کی آمدنی و اخراجات کا حساب و کتاب رکھتا تھا۔ دیوان زمام الضیاع املاک خاص یعنی شاہی املاک کا انتظام کرتا تھا۔ دیوان زمام النفتات شاہی محلات کے اخراجات کا حساب و کتاب رکھتا تھا۔ دیوان الموالی و غلماں، شاہی خادموں اور غلاموں کی خوراک اور پوشش کا انتظام کرتا تھا۔ دیوان الرسائل شاہی حکام اور فرامین تحریر کرتا تھا۔ بیرونی بادشاہوں کے مراسلات کے جواب لکھتا تھا۔ اس محکمہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عمدہ عبارت نویس والے لوگ شامل تھے۔ دیوان التوقیع میں مراسلات اور درخواستوں کے جوابات لکھے جاتے تھے۔ اس محکمہ کا کام شاہی فرامین کی نقول بھی محفوظ رکھنے کی ذمہ داری تھی۔ دیوان البرید کے تحت ہر صوبہ میں ایک پوسٹ ماسٹر ہوتا تھا۔ اس کا کام سرکاری ڈاک کی رونگی اور رسید کا انتظام تھا۔ جاسوسی کا نظام بھی قائم تھا۔پیغام رسانی میں نامہ بر کبوتر بھی استعمال کیے جاتے تھے۔اس کے علاوہ دیوان الاحداثو الشرطہ پولیس کا کام، دیوان الجند محکمہ فوج، دیوان العطا فوج کی تنخواہ،دیوان النظنی فی المظالم اپیل و شکایت اور دیوان القرحہ زراعتی زمین اور نہروں کا بندوبست کرتاتھا۔ محکمہ قضاء کو بڑی اہمیت تھی۔ سارے معاملات قاضی کے سامنے پیش ہوتے تھے۔ خلیفہ بھی قاضی کے سامنے پیش ہوتا تھا۔ قاضی شریعت اسلامی کے مطابق فیصلے کرتے۔ قاضی کی عدالت میں گواہی صرف نیک چال چلن دے سکتے تھے۔غیر مسلوں کے دیوانی مقدمات کی سماعت ان کے مذہبی پیشوا کرتے تھے۔ عباسی خلافت مختلف تیرہ صوبوں میں تقسیم تھی۔جس میں مصر، الجزیرہ،یمن،کوفہ، بصرہ، عراق،سندھ اور شام وغیرہ شامل ہیں ۔ عباسیوں کی فوج میں عربوں کی بجائے خراسانی ، ترک اور شمالی افریقہ کے لوگ شامل تھے۔ عباسی فوج دو حصوں، باقاعدہ اور رضاکاروں پر مشتمل تھی۔ باقاعدہ فوج چھائونیوں میں اور رضاکار خوشی سے لڑائی میں شریک ہوتے تھے۔لشکر کی ترتیب مقدمہ،میمنہ،میسرہ اور ساقہ میں تقسیم تھی۔ دس سپاہیوں کے انچارج کو عارف،سو سپاہیوں کی انچارج کو نقیب، ایک ہزار سپاہیوں کے انچارج کو قائد اور دس ہزار سپاہیوں کے انچارج کو سالار اور پوری فوج کا انچارج سپہ سالار کہلاتا تھا۔ فوج میں عربوں کے بجائے عجمی ہونے کی وجہ سے عباسی خلفاء کے حرم میں عجمی عورتیں تھیں۔ عورتیں تعلیم و تربیت قرآن و حدیث فقہ اور شاعری میں شامل تھیں۔ عورتیں لڑائی میں بھی حصہ لیتی تھیں۔عباسی دور میں مسلمانوںکی اقتصادی حالت بڑی تسلی بخش تھی۔ زراعت، صنعت و حرفت کی بدولت ملک نے بڑی ترقی کی۔کان کنی کے پیشہ بڑی ترقی کی۔ خراسان سے لوہا نکلتا تھا۔
کرمان سے چاندی اور سیسہ، تبریز سے سنگ مر مر اور ایران سے نمک۔ تجارت نے بڑی ترقی کی تھی۔ علم وادب میں بھی ترقی ہوئی۔ شیخ بو علی سینا نے طب، فلسفہ، ہندسہ، ہیت اور دیکر فنون میں بڑا نام کمایا۔ فلسفہ اور حکمت میں سقراط، افلاطون اور ارسطو کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ علم جغرافیہ اور ریاضی میں ترقی ہوئی۔ عباسی دور میں زمین کی شکل اور پیمائش کا حساب لگایا گیا۔ علم کیمیا و الطبیعات، علم النبات، اور علم الفلاحة میں بھی ترقی ہوئی۔ تاریخ نویسی میں امام ابن جریر، طبری، مسعودی، ابن مسکویہ خطیب بغدادی، امام ذہبی اور ابن اثیر کے نام شہرہ آفاق ہیں۔شعر و شاعری، فنون لطیفہ کتب خانوں میں ترقی ہوئی۔عباسی دور میں کتب خانے قائم کرنے کا بڑا رواج تھا۔ مدرسوں میں تدریسی نظام وجود میں آیا۔ہر مدرسے میں عالم فاضل اساتذہ درس و تدریس کا کام کرتے تھے۔ ہر مدرسے کے ساتھ ایک لائبریری ہوتی تھی۔ عباسی دور مسلمانوں کا سنہری دور تھا اور ورلڈ آڈر مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔