وجود

... loading ...

وجود

مقبولیت سے زیادہ قبولیت پرتوجہ

بدھ 18 اکتوبر 2023 مقبولیت سے زیادہ قبولیت پرتوجہ

حمیداللہ بھٹی

سیاسی جماعتوں کا حالات کے مطابق بیانیہ بدلنا نئی بات نہیں مگر چھہتر برس کے تجربات کے بعد ہماری سیاسی جماعتیں اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ مقبولیت کے لیے در در کی خاک چھاننے سے بہتر ہے طاقتور حلقوں سے قبولیت کی سند حاصل کی جائے۔ اِس کی وجہ مقبول قیادت کوپیش آنے والی مشکلات و مصائب ہیں۔اسی بنا پرسیاسی جاعتیں اب عوام سے زیادہ طاقتور حلقوں میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ کل کو اگر اقتدار ملتا ہے تو آرام و سکون سے اقتدار کا دورانیہ مکمل کر سکیں۔ چھہتر سالہ ملکی سیاسی منظرنامے پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو مذکورہ بالااخذکردہ نتیجہ مبنی برحقیقت محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میںذوالفقار علی بھٹو،نواز شریف اور عمران خان جیسی مقبولیت کم ہی سیاستدانوں کے حصے میں آئی لیکن ملک کے پہلے مقبول ترین سیاسی رہنما زوالفقار علی بھٹو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں تختہ دار پر جھول گئے جبکہ نواز شریف اور عمران خان ابھی حیات ضرور ہیں لیکن دونوں ہی مشکلات کے بھنورمیں پھنسے ہوئے ہیں اول الذکر کو دو مقدمات میں سزا ہوئی اوروہ نااہل ہونے کی وجہ سے فی الحال ا نتخابی عمل کا حصہ بننے سے قاصرہیںکچھ عرصہ علاج کی غرض سے بیرونِ ملک رہے اب 21 اکتوبر کو وطن واپسی متوقع ہے جبکہ عمران خان کوبھی درجنوں مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے کئی ایک تونہایت سنگین ہیں سرِدست وہ بھی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں کیونکہ وہ بھی سزا یافتہ ہیں ملک کے دیگر سیاسی رہنمائوں میں سے کسی کوبھی مذکورہ بالا تین سیاسی رہنمائوں جیسی مقبولیت نہیں مل سکی البتہ یہ سبق سب کو ضرورمل گیا ہے کہ مقبولیت کے ٹمٹماتے چراغ کو اگر روشن رکھنااور اقتدار میں آناہے تو عوامی مقبولیت سے زیادہ قبولیت حاصل کرنے پرتوجہ دینا ہوگی۔
آج کل پی ٹی آئی جس عتاب سے گزررہی ہے پی پی اور ن لیگ کئی عشرے قبل ایسے امتحان کا سامنا کر چکی ہیں ن لیگ نے قبولیت پر توجہ دے کرہی نہ صرف سولہ ماہ کا اقتدار حاصل کیا بلکہ پی پی نے سندھ میں خراب ترین کارکردگی کے باوجود مزیدسیاسی کامیابیاں حاصل کیں بلاشرکت ِ غیرے نہ صرف صوبائی حکومت سے لطف اندوز ہوتی رہی بلکہ کراچی بلدیہ کی سربراہی حاصل کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوئی۔ بلاول بھٹواب تمام جماعتوں کو برابرکے مواقع دینے کی بات کرتے ہیں۔ شاید انھیں کہیں سے بھنک پڑچکی ہے کہ آئندہ اقتدار ن لیگ کوملنے والا ہے ۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ چھوڑ کرخودکوقبولیت کی سندکااہل ثابت کرنے کے لیے آجکل خاندانِ شریف معاف کرنے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا بیانیہ اپنا چکاہے۔ فہمیدہ حلقے اسی بناپروثوق سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو نہ صرف مرکز اور پنجاب کا اقتدار آل شریف کے پاس ہوگا بلکہ نائب وزیرِ اعظم جیسا منصب بھی مریم نواز کے سپر د ہو سکتا ہے۔ اِس حوالے سے فیصلہ ساز قوتوں سے گفت و شنید جاری ہے اور کسی فیصلہ پر نہ پہنچنے کی وجہ سے ہی مزید بات چیت کے لیے وقت دینے کے لیے لندن سے سعودیہ اور عرب امارات کا قصد کیا گیا۔ نئے بیانیے سے ن لیگ کو یقین ہے کہ نہ صرف اقتدار کا بڑا حصہ حاصل کرلے گی بلکہ قائد پر مقدمات اور سزائوں کا بوجھ بھی ہٹ جائے گا۔
بندہ مستقبل کے تانے بانے بُنتا ہے لیکن آخر کار ہوتا وہی ہے جو کاتبِ تقدیر نے لکھا ہوتا ہے۔ البتہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ آمدہ انتخابات میں کسی ایک جماعت کا اکثریت حاصل کرنا ازحدمشکل ہے بلکہ ایک اور اتحادی حکومت کے آثار قوی تر ہیں ۔ اِس وقت قبولیت کی سند حاصل کرنے کے لیے ملک میں مقابلہ جاری ہے ۔ن لیگ کے علاوہ پی پی بھی بھاگ دوڑ میں ہلکان ہے ۔مولانا فضل الرحمن جیسا کائیاں سیاسی رہنما بھی متحرک ہے ۔پی پی اور جے یو آئی ف ناراضگی کا تاثر تو دیتی ہیں لیکن کوئی منانے نہ بھی آئے تو خود ہی مان بھی جاتی ہیں۔ دراصل انھیں بھی ادراک ہے کہ ن لیگ قبولیت کی منزل کے بہت قریب ہے۔ اس لیے ناراض رہنے سے اپنا ہی نقصان ہوگاجودانشمندی نہیں۔ اِس میں ابہام نہیں کہ ملک میں عمران خان کے پائے کامقبول ترین سیاستدان اور کوئی نہیں جس کی سروے رپورٹس بھی تصدیق کر چکی ہیں۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ شاید انتخابی نشان بلا رکھنے والے امیدوار آزادانہ انتخابی مُہم میں حصہ ہی نہ لے سکیں بلکہ عین ممکن ہے انتخابی مُہم میں حصہ لینے کی بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار آگے بھاگ رہے ہوں اور پولیس گرفتاری کے لیے پیچھے لگی ہو۔ حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جولوگ کبھی پی ٹی آئی کاحصہ یا عہدیدار بھی نہیں رہے وہ بھی احتیاطََ چھوڑنے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں کیایہ حیران کُن نہیںکہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے اعظم خان کو اِدارے بھی تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں لیکن وہی اعظم خان کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دیتے اور کمال مہارت سے مجسٹریٹ کی عدالت میں جاکر بیان بھی ر یکارڈ کرادیتے ہیں۔ اسی طرح جسے تلاش کرنے میں سب ہی ناکام رہے اسی عثمان ڈارکو ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگوکرتے پوراملک دیکھ لیتاہے ۔ مزید حیرانگی کی بات یہ کہ ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کے مرکزی کردار جہانگیرترین اور علیم خان استحکام پارٹی بنا کر منظور ِنظربنے ہوئے ہیں۔ فرخ حبیب کا منظرِ عام پر آتے ہی اِس پارٹی میں شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ جماعت چاہے عوامی مقبولیت سے کوسوں دور ہے لیکن قبولیت کی بہرحال سند حاصل کر چکی ہے۔
قبولیت کی سند سے تمام سیاسی رکاوٹیں دور ہوتی ہیں یا نہیں ابھی اِس حوالے سے نوازشریف کے لیے صورتحال غیر یقینی ہے۔ مثال کے طورپرپریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے سے بظاہر ن لیگی خوش ہیں لیکن قانونی موشگافیوں کے ماہرین اِس فیصلے میں نواز شریف کے لیے فوائد دیکھنے سے قاصر ہیں ۔پارلیمنٹ کی طرف سے نااہلی کی مدت پانچ برس کی قانون سازی کے باوجود اپیل کا حق ماضی سے نہ دینے کی بنا پر اِس فیصلے سے نواز شریف اور جہانگیرترین کی نااہلی کے خاتمے کاکوئی پہلواکثرقانونی ماہرین کو نظر نہیں آتا مگر قبولیت کی سند کے تناظر میں قیاس کیا جارہا ہے کہ ایک بار پھر ملک میں 2011کا منظر نامہ دیکھنے کو مل سکتا ہے اور مہنگائی کی ذمہ دار ہونے کے باوجود ن لیگ کے تنِ مردہ میں جان ڈالی جا سکتی ہے کیونکہ سیاسی بیماریوں کے لیے تریاق کاآزمودہ نسخہ قبولیت کی سند ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر