... loading ...
ریاض احمدچودھری
معصوم نہتے فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی صیہونی ظلم اور قتل و غارت گری ناقابل برداشت ہے۔ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ بے گناہ شہریوں، خواتین، معصوم بچوں کو ٹارگٹ کرنا انسانی حقوق اور انسانیت کی بدترین پامالی ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں سمیت ظلم و ناانصافی کی مخالف اقوام نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ غزہ سے انخلاء کا اسرائیلی مطالبہ بین الاقوامی طور پر غیر قانونی اور کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس ناجائز مطالبہ پر عمل ایک نئے انسانی المیہ کو جنم دے گا۔ عالمِ اسلام کے پاس عزت و وقار اور ایمان کی حفاظت کے ساتھ جینے کے لیے اتحاد کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ملت اسلامیہ نے بروقت اقدامات نہ کیے تو بیت المقدس کے بعد مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ کے لیے بھی خطرات بڑھ جائیں گے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے 17 اکتوبر کو اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کی میزبانی کا اعلان کرتے ہوئے تمام دینی، سیاسی قائدین، سابق سفارت کاروں، سینئر صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے نمایندہ قائدین کو دعوت دی ہے۔ فلسطینی ہمیشہ پاکستان کے عوام سے خیر اور پشت بانی کی توقع رکھتے ہیں۔ قومی فلسطین کانفرنس متفقہ لائحہ عمل دے گی۔
پاکستانی عوام اپنے مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا بھارت کے کشمیر پر تسلط کو تسلیم کرنا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے عرب ممالک کا کردار مجرمانہ ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ممالک نے امت مسلمہ سے غداری کی۔ مغربی حکومتیں اور ان کے ایجنٹ اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں اور وہ اسلام کو دوسرے مذاہب کا دشمن بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں جبکہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور فلسطین کے مسئلہ پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ہم یہودیوں کے دشمن نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ کے خلاف ہیں جو برطانوی و امریکی استعمار نے فلسطین کے خلاف کیا اور فلسطینی زمین پر اسرائیل کے وجود کو جنم دیا ہے۔لہذا اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔
دنیا کے سامنے ایک پر امن اور منصفانہ حل موجود ہے کہ فلسطینی عوام کو فلسطین واپس لایا جائے اور فلسطین کے باشندے جن میں یہودی، عیسائی اور مسلمان سب شامل ہیں ایک ریفرنڈم کے ذریعہ فلسطین کی قسمت اور بعد میں آنے والے باشندوں کی قسمت کا فیصلہ کریں۔ عالمی برداری اگر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس سے زیادہ پر امن اور منصفانہ حل نہیں ہو سکتا۔
فلسطین و کشمیر کے عوام پر ہونے والے ظلم و ستم پر عالمی قوتیں خاموش ہیں۔ سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فلسطین و کشمیر کے مسئلے پر آواز بلند کرنا ہوگی۔ عالمی برادری کو فلسطینی عوام کا حق تسلیم کرنا ہوگا ورنہ خطے سمیت دنیا میں امن کا قیام نا ممکن ہے۔ اقوام متحدہ اپنا اعتماد کھو چکی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تمام اقوام کو فلسطین کے منصفانہ حل کے لئے متحد کریں اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع کریں۔ انہوں نے قائد اعظم، علامہ اقبال، علامہ مودودی او ر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فلسطین حمایت کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج فلسطینی کاز کیلئے حکومتی سطح پر اسی موقف کی ضرورت ہے جو بانیان پاکستان نے اپنایا تھا۔
فلسطین میں اسرائیلی مظالم انسانیت سوز ہیں۔ آج مسئلہ فلسطین عالمی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ مسئلہ فلسطین ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انڈونیشیا فلسطین کی آزاد اور جمہوری ریاست کے قیام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ فلسطینی مزاحمت عنقریب کامیاب ہو گی اور فلسطین کی آزادی یقینی ہے۔ عالمی فلسطین کانفرنس یقینا مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے ہم سب کو یکجا ہونا پڑے گا اور ہمیں بھرپور قوت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا اور اس کام کے لئے تمام ستاون اسلامی ممالک کو ایک مضبوط اور طاقتور موثر پلیٹ فارم تشکیل دینا ہو گا۔ اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ کا افغانستان اور عراق میں آنے کا مقصد یہی تھا کہ خطے کو کنٹرول کیا جائے اور ایران پر بھی نظر رکھی جائے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ عرب ریاستوں کے حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ اگر او آئی سی مشترکہ کوششیں کرے تو ہم فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف امت مسلمہ یکجا ہیں، گریٹر اسرائیل کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے۔ اسرائیل تنہائی کا شکار یے اور اپنے گرد دیواریں کھڑی کر چکا ہے۔