... loading ...
عماد بزدار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(پہلی قسط)
پچھلے دنوں ڈاکٹر اشتیاق احمد اور پروفیسر ہود بھائی کی گفتگو سن رہا تھا۔موضوع بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تھے ۔ الزامات کی ایک طویل فہرست سننے کو ملی۔ مثلا ً( الزامات کا مفہوم پیش کررہا ہوں )
٭ نہرو اور کانگرس ایک جدید روشن خیال سیکولر ہندوستان بنانا چاہتے تھے چونکہ جناح نگیٹو سیاست کررہے تھے اس لیے کانگریس نے
جناح اور لیگ سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔
٭جناح نے بمبئی میں اپنے مکان کے بارے میں نہرو کو کہا کہ اسے کسی ہندو کو کرایہ پر نہ دیں ( نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ جناح صاحب ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے )۔
٭ جناح نے کامن ویلتھ میں شامل ہونے کا عندیہ دیا تھا جبکہ کانگرس سے برطانویوں کو توقع نہیں تھی اس لئے فیصلہ ہوا کہ جناح کو پاکستان دیا جائے ۔ساتھ ہی اشتیاق صاحب نے حوالے کے طور پر 12 مئی 1947کے ایک میمورینڈم کا بھی تذکرہ کیا ( اس میمورینڈم پر اگلی قسط میںبات کریں گے )۔
٭ جناح کہا کرتے تھے مہا سبھا اور کانگریس ایک ہیں ( پروفیسر صاحب کی نظر میں یہ ایک بہت بڑی زیادتی تھی)
یہ دس سے پندرہ منٹ کی گفتگو میں سن سکا۔ پوری گفتگو ڈیڑھ گھنٹے سے زائد پر مشتمل تھی۔ میں نے سوچا بہتر ہے پہلے ان الزامات کا جواب لکھا جائے۔ اس سے پہلے کہ میں ان الزامات کے جواب میں کچھ لکھوں میں ڈاکٹر صاحب کی گفتگو میں کچھ تضادات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس وقت ان باتوں کے صحیح یا غلط ہونے پر بات نہیں کررہا، میں صرف ڈاکٹر صاحب کی اپنی گفتگو میں موجود تضادات سامنے لانا چاہتا ہوں کہ جناح اگر یوں بھی کرے تو جناح کی غلطی ہے اور اگر جناح ووں بھی کرے تو بھی جناح ہی قصوروار
ہیں ۔مثلاً ڈاکٹر صاحب نے جناح صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے بعد کہا
” لیکن کیا وہ پاکستان بنا سکتے تھے اگر انگریزوں کا انٹرسٹ اس ا یسی تقسیم میں نہ ہوتا ،کیا یہ ممکن تھا کہ کانگریس جو ہے وہ آخر تک اپوز
کرتی رہتی کہ ہم نے اگر پاکستان بنے گا یہاں خون کی نہریں بہہ جائیں گیand so on ۔ ان حالات میں شاید پاکستان نہ بن سکتا لیکن جناح صاحب نے اپنی کمپین کے ذریعے انگریزوں کو بھی کنونس کرلیا کہ یہ آپ کے بیسٹ انٹریسٹ میں ہے اور کانگریس کو بھی آخر میں لگا کہ اگر ہم مسلم لیگ کے ساتھ مل کر ایک یونائیٹڈ ہندوستان بناتے ہیں تو یہ دس سال کے بعد ختم ہوسکتا ہے”
یہاں ڈاکٹر صاحب یہ بتا رہے کہ اگر انگریزوں کا مفاد نہ ہوتا اور کانگریس اگر کہتی کہ کہ یہاں خون کی ندیاں بہیں گی تو جناح پاکستان نہ بنا پاتے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انگریز اور کانگریس اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کوئی رائے کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں تو جناح کیوں نہیں؟ اور اگر جناح نے اپنے کمپین سے کچھ حاصل کیا تو اس کی اہمیت گھٹانے کے لیے کس منطق کے تحت کہا جا رہا کہ اگر انگریز نہ مانتے اگر ہندو دھمکیاں لگاتے تو پاکستان نہ بنتا ۔۔۔۔ اس سے زیادہ مزے دار گفتگو ڈاکٹر صاحب نے چند منٹ آگے چل کر کی۔ جب پرویز ہودبائی نے سوال کیا کہ اگر جناح واقعی پاکستان بنانے میں سنجیدہ تھے تو جناح نے متحدہ ہندوستان میں انویسٹمینٹس کیوں کی۔اس پر پہلے ڈاکٹر صاحب کے بقول جناح چونکہ گیمبلر تھے اس نے اپنے معاشی مفادات محفوظ کرنے کے لئے وہاں انویسٹمنٹس کیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا
”جناح صاحب کی انویسٹمنٹس ، وہی تو ہے he was a gambler instinctively.
انڈیا پارٹیشن ہوجائے اور پاکستان بن جائے تو موجیں ہی موجیں اگر نہ ہو I still have a foothold۔۔
in Indian economy for me that makes a lot of sense ۔
مزید آگے چل کر وہ کہتے ہیں ۔
”شملہ میں بھی انہوں نے انویسٹمنٹ کی تھی ایک تھوڑی سی ایکسپلینیشن اور دے دوں جیسے کہ پارٹیشن
وہ چاہتے تھے وہ تو نہیں ہوئی پورا پنجاب بھی مل جائے تو شملہ تو آنا نہیں تھا on that basis
کشمیر پہ انہوں نے ان کا خیال تھا کہ ہم جہاد کرکے تو ہندو تو لڑ ہی نہیں سکتے تو ہم وہ بھی حاصل کرلیں
گے سو جہاں جہاں ان کی انویسٹمنٹ آپ کو نظر آتی ہے ان کے خواب میں پارٹیشن کے بعد وہ
پاکستان کے حصے ہیں”
اب ذرا تضادات دیکھیں جناح کو اگر کانگریس نے خون بہانے کی دھمکیاں دی ہوتیں تو جناح پاکستان نہ بنا پاتے جناح نے چونکہ اپنے کیمپین سے برطانویوں کو کنونس کیا یہاں جناح کی امن پسندی کو ڈائیلاگ کے ذریعے کسی مسئلے کی حل کو منفی معنوں میں پیش کیا جا رہا ہے آگے جا کر کشمیر میں جہاد کو جناح سے منسوب کرکے جناح پر طنز کیا جا رہا ہے ۔ یعنی جناح اگر پرامن طریقے سے کچھ حاصل کرے تو وہ بھی غلط اور اگر جنگ سے کچھ حاصل کرنے کی خواہش کرے تو بھی ہدف تنقید بنتا ہے ۔ جناح کی انویسٹمنٹس کے بارے میں ایک ہی سانس میں کیسے دو مختلف باتیں کی جارہی ہیں پہلے تو یہ کہا جارہا ہے کہ جناح چونکہ گیمبلر تھے اس لئے اس نے وہاں انویسٹمنٹس کیں جو ہندوستان کا حصہ بنتے تاکہ اگر پاکستان بنے توموجیں ہی موجیں اگر نہ بنے تو بھی اس کے معاشی مفاد ہندوستان میں محفوظ ہیں اسی ایک سانس میں ڈاکٹر صاحب بتا رہے کہ جناح نے انویسٹمنٹس صرف ان علاقوں میں کیں جو ان کے خیال میں پاکستان کا حصہ بننے والے تھے ۔ پروفیسر ہود بھائی اور سامعین اسی سنجیدگی سے سر ہلا ہلا کر پروفیسر صاحب کی علمیت سے مرعوب ہوتے نظر آئے ۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ابھی ڈاکٹر صاحب کچھ اور کہہ رہے تھے اور تھوڑی ہی دیر میں باالکل الٹ با ت کررہے ہیں۔
جہاں تک کانگریس کی دھمکیوں کی بات ہے تو میں آپ لوگوں کی خدمت میں گھر کے بھیدی کانجی دوار کاداس کی کتاب سے پٹیل کا ایک خط پیش کرتا ہوں کہ وہ ممکنہ تقسیم کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے اور تقسیم کے بعد پاکستان اسکیم کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا عزائم رکھتے تھے ۔۔۔ کانجی لکھتے ہیں:۔
”3مارچ 1947 ء کو میں نے پٹیل کو ایک خط لکھا دوسرے ہی دن مجھے ولبھ بھائی کا یہ جواب ملا،
مجھے تمھارا خط مورخہ 3 مارچ آج ملا۔ بالا صاحب کھیر نے تمھاری لندن کی بات چیت کے نوٹ
دیے تھے ۔ بلاشبہ لیبر حکومت نے ہمارے لیے اور دنیا کے سامنے اپنی نیک نیتی کا ثبوت دیا ہے
لیکن ان کے بیان سے سردست یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاتھ سے پنجاب نکل گیا۔لیکن مجھے پھر
بھی تمھاری طرح قطعی مایوسی نہیں ہے ۔ مسلم لیگ وہاں وزارت بنانے میں کامیاب ہو بھی گئی تو
سال سوا سال سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔اگلے جون سے قبل یقینی طور پر دستور تیار ہو جائے گا۔ اگر
لیگ نے پاکستان پر اصرار کیا تو پھر ایک ہی صورت رہ جائے گی کہ پنجاب اور بنگال کا بھی بٹوارہ کیا
جائے ۔وہ لوگ خانہ جنگی کے بغیر تو پورا پنجاب اور پورا بنگال ہر گز نہیں لے سکیں گے ۔میں نہیں سمجھتا
برطانوی حکومت تقسیم ہند پر راضی ہو گی،وہ سب سے زیادہ طاقت ور پارٹی کو زمام حکومت سپرد کرنے
پر مجبور ہو جائے گی اور اگر اس نے یہ بھی نہ کیا تو تقسیم کا مطالبہ تسلیم کرانے میں وہ کسی اقلیت کی مدد نہیں
کرے گی۔پھر یہ بھی تو ہے کہ مشرقی بنگال، پنجاب کا ایک حصہ، سندھ اور بلوچستان کو چھوڑ کر باقی
ہندوستان کی ایک مرکزی حکومت اتنی طاقتور ہو گی کہ بقیہ حصے مجبور ہو کر اس میں شامل ہو جائیں گے ”۔
(جاری ہے )