... loading ...
حمیداللہ بھٹی
فلسطین تنازع حل کرنے کے لیے جاری بے نتیجہ سرگرمیوں کے دوران حماس کی ،طوفان الاقصیٰ، کارروائی کوپوری دنیا نے محسوس کیا ہے حالانکہ ماضی میںجھجک کا شکار عرب ممالک بھی اب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں کوئی عارتصور نہیں کرنے لگے تھے حماس کارروائی نے دنیا سمیت تعلقات قائم کرنے کے لیے بے چین عرب ممالک کو بھی جھنجوڑ نے کے ساتھ یہ پیغام دیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے دوریاستی حل فارمولے کے سواکوئی منصوبہ امن کی کلیدثابت نہیں ہو سکتا نیزامن کے لیے حماس جیسی قوتوں کو اعتماد میں لینا ہو گا ۔سامانِ حرب کی قلت کے باجود فلسطین کی مزاحمتی قوتیں کئی عشروں سے مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ اب بھی اسرائیل کی طرف سے غزہ کے شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کے انتباہ کے جواب میںحماس نے اسرائیلی شہر عسقلان کی آبادی کو دوگھنٹے میں شہر چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ لڑائی کاتشویشناک پہلویہ ہے کہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں اسرائیل نہ صرف فاسفورس بم بلکہ ہر قسم کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے لیکن عالمی طاقتیں خاموش ہیں حالانکہ فلسطینیوں کامطالبہ ہے کہ اگراُن کاآ زادانہ زندگی گزارنے کا حق تسلیم کرلیاجائے تو وہ امن معاہدے پر آمادہ ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ بات مسلمانوں کی ہو تو امریکہ سمیت چند مغربی ممالک انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے ہی طے کردہ قوانین یکسر بُھلا دیتے ہیں اسی بنا پر فلسطین ،کشمیر ،بوسنیا،میانمار جیسے واقعات میں مسلم نسل کشی ہوتی رہتی ہے۔
اسرائیل کا بظاہرمیدانِ جنگ میں پلڑا بھاری ہے اُس نے نہ صرف غزہ کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے سرحد پر نصب150 ایم ایم کی توپیں وقفے وقفے سے گولے برسارہیں جبکہ فضایہ کارپٹڈ بمباری سے عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا رہی ہے شہر میں ادویات،خوراک ،پانی اور بجلی کی کے مسائل پیداہوچکے ہیں قبرستانوں میں دفن کرنے کی جگہ نہیں رہی جبکہ بے شمار لوگ ابھی تک ملبے میں دفن ہیں بجلی اور ادویات نہ ہونے سے ہسپتال بھی مردہ خانے بن چکے ہیں مگر ظالم اور جارح اسرائیل کو کوئی پرواہ نہیں بلکہ حماس حملے کو غنیمت جان کر اِس کوشش میں ہے کہ غزہ سے فلسطینی آبادی کامکمل طور پر ختم کرلے تاکہ آئندہ دنیا اِس حوالے سے کبھی بات ہی نہ کرے میدانِ جنگ میں فاسفورس بموں کے استعمال پر پابندی ہے لیکن اسرائیل دیدہ دلیری سے ایسے تباہ کُن ہتھیار استعمال کرنے کے ساتھ دیگر کیمیائی ہتھیاربے دریغ استعمال کررہا ہے ۔اِس کے باوجودامریکہ ،مغربی ممالک اور بھارت جیسی حکومتیں اسرائیل کی تائید وحمایت میں پیش پیش ہیں امریکہ اوربرطانیہ نے تو اسرائیل کے لیے بڑی مقدار میں ہتھیار بھیج دیے ہیں ۔یہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی ظالم کی حوصلہ افزائی ہے روس،چین جیسی طاقتیں قدرے متوازن پالیسی پر عمل پیراہیں اور وہ لڑائی کے خاتمے نیزمغربی ممالک کی طرف سے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرنے پر تنقید کرتی ہیں لیکن روس و یوکرین جنگ کی بناپر یہ ممالک کمزورپوزیشن پرہیں ۔اِس لیے اسرائیل کے حمایتی زیادہ سرگرم ہیں ۔ ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک فلسطینیوں کے ساتھ ہیں لیکن کچھ عرب ممالک اب بھی اسرائیل سے براہ راست ٹکر ائوکے حق میں نہیں۔ مثال کے طورپر متحدہ عرب امارات نے غزہ کے محصورین کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے لیکن یہ امداد براہ راست دینے کی بجائے بذریعہ اقوامِ متحدہ بھجوانے کا اعلان کیاہے حالانکہ ہوناتو یہ چاہیے کہ جس طرح امریکہ اور مغربی ممالک کُھل کر اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔ عرب ممالک بھی فلسطینیوں کی اخلاقی اور سفارتی تائید میں واضح موقف اختیار کرتے ہوئے بساط کے مطابق ہتھیار وغیرہ فراہم کرنے کی بھی کوشش کریں تاکہ لڑائی میں اسرائیلیوں کو دندانِ شکن جواب مل سکے مگر دیکھنے میں ایسا کچھ نہیں آرہا۔اب تو اسرائیل نے لبنانی سرحدی چوکیوں کو نشانہ بنانے کے بعد شام کے دوائیرپورٹس بھی حملے سے تباہ کردیے ہیں۔اب بھی اکثر عرب ممالک کوتاہی کے مرتکب ہیں جس کی ایک مثال مصر کی طرف سے رفاہ کراسنگ بند کرنا ہے۔ تاکہ غزہ سے لوگ نکل نہ سکیں جس کا صیہونی ریاست کو کامل ادراک ہے اور وہ اِس کابلادریغ خواتین، بچے، بوڑھے، جوان اور بیمارافراد کوجان سے ماررہا ہے ۔
عرب ممالک میںاسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوڑ سے مایوسی کا شکار فلسطینی موت کو اپنا ہتھیار بنا چکے ہیں اور یہ کمزور لوگ جن کے پاس اسلحہ و تربیت کی کمی ہے اب تک طاقتور دشمن کے آگے ثابت قدم ہیں لیکن یسا کتنی دیر رہتا ہے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ اسرائیل کی نوے لاکھ پر مشتمل تمام آبادی فوجی تربیت رکھتی ہے جن کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور عالمی طاقتیں بھی پشت پناہی کے لیے موجود ہیں جبکہ مسلم حکومتیں اپنے مسلمان فلسطینی بھائیوں کی عملی مدد کی بجائے لڑائی کے ایام میں بھی گفت و شنید تک محدود ہیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے رابطے کے دوران کہا ہے کہ اُن کا ملک طوفان اقصیٰ آپریشن میں فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے اُن کے ساتھ کھڑا ہے لیکن فلسطینیوں کو جس قسم کی عملی مدد کی ضرورت ہے اِس حوالے سے دونوں ممالک میں کوئی اتفاق نہیں ہوسکا فلسطینیوں کے اذہان میں یہ خیال راسخ ہوگیا ہے کہ چند عرب ممالک کے حکمران عوامی امنگوںکے برعکس خطے میں دراصل اسرائیل کے سہولت کا رہیں یہ حکمران آزاد فلسطینی ریاست کے بغیرمشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی خواہش کے مطابق امن چاہتے ہیں اسی لیے تنگ آکر کمزور ہونے کے باوجودطاقتور دشمن کے آگے ثابت قدم ہیںپی ایل اوکے سربراہ یاسرعرفات سے بھی مایوس ہو کرہی شیخ احمد یاسین نے حماس جیسی تنظیم بنائی تاکہ عملی طورپر آزاد وطن کی جدوجہدمیں تیزی لائی جا سکے مگر 2004میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کوایک میزائل حملے سے نمازِ فجر کے وقت شہید کر دیاگیا لیکن آزادی کی تحریک کو ختم نہ کیا جا سکا اپنے بانی کی شہادت کے باوجود حماس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اسرائیل بارے رویہ مزید سخت کرلیا۔
عربوں میں اسرائیلیوں سے شدید نفرت کی لہرمیں ہنوزکوئی کمی نہیں آئی جس کا اسرائیل کوبھی بخوبی علم ہے اسی لیے اپنی حیثیت بارے مسلسل فکر مند ہے اور لاحق خطرات ختم کرنے کے لیے کوشاں رہتاہے اِ س کے لیے وہ ہر فلسطینی کی جان لینے کے درپہ ہے وقفے وقفے سے فضائی اور زمینی حملوں سے نہ صرف انسانی آبادی کا صفایا بلکہ املاک کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرتا رہتا ہے مگر نہ صرف حریت پسندانہ جذبات میں کمی نہیں آئی بلکہ تمام تر قربانیوں کے باوجود مجاہدین ثابت قدم ہیں۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ چند ایک عرب حکمرانوں سے تسلیم کرنے کی سند لینے کی بجائے صیہونی ریاست مان لے کہ امن کی کلید آزاد فلسطینی ریاست ہی بن سکتی ہے۔ اِس طرح ہی اسرائیل کو لاحق خطرات کا خاتمہ ہو سکتا ہے وگرنہ جانی و مالی نقصان اُٹھانے کے باوجود فلسطینی اپنی آزادی کے حق کے لیے لڑتے رہیں گے اور تجارتی و معاشی سرگرمیاں بڑھنے کی بجائے خطہ بدامنی کا مرکز بنا رہے گا ۔