... loading ...
ریاض احمدچودھری
بانیانِ پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال اور حضرت قائداعظم محمدعلی جناح نے فلسطین کی آزادی کے حق میں ہمیشہ بلند آہنگ کے ساتھ آواز اٹھائی۔ پاکستان کی ہر حکومت نے بھی اپنے قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر فورم پر القدس کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی القدس پر اسرائیلی افواج کی متشددانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اسرائیل کی ناجائز حکومت کو امریکہ’ برطانیہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ چنانچہ اسرائیل جب کبھی بھی فلسطینیوں کیخلاف وحشیانہ کارروائی کرتا ہے’ عالمی برادری خصوصاً امریکہ’ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی اسے سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ وہ ان باطل قوتوں کی تھپکی سے جب جی چاہتا ہے مظلوم فلسطینیوں کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتا ہے۔اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور بمباری کو اسرائیل کا حق اور فرض قرار دیا اور اسرائیل کو اپنے ساتھ کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ حملوں کا جواب دینا اسرائیل کا حق اور فرض ہے۔ امریکا یقینی بنائے گا کہ اسرائیل اپنا دفاع کرسکے۔
دشمنان اسلام جب بھی مسلمانو ںپر کوئی حملہ کرتے ہیں تو بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران لفظی مزاحمت سے بڑھ کر کچھ نہیں کر پاتے۔ اسرائیل حماس جنگ میں بھی ابھی تک مسلم ممالک کے سربراہان محض بیانات جاری کرنے تک محدود رہے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل حرمین شریفین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔حرمین شریفین کو اصل خطرہ اسرائیل سے ہے جس کیساتھ عرب بادشاہتیں تعلقات قائم کر رہی ہیں۔ اگر مسلم حکمرانوں نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب خدانخواستہ مکہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ بقول طیب اردگان کے، کہ اگر ہم نے یروشلم کو کھو دیا تو ہم مدینہ کا تحفظ کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے اور اگر ہم نے مدینہ کو کھو دیا تو ہم مکہ اور کعبہ کو بھی کھو دیں گے۔ حرمین شریفین کو اصل خطرہ اسرائیل سے ہے اور یہ بات مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہو گی۔دوسری طرف اسرائیل کی فلسطین میں جارجیت کا سلسلہ جاری ہے اوراسرائیلی افواج بلا امتیاز رہائشی عمارتوں’ خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔ فلسطین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے علاقوں پر ممنوعہ فاسفورس بم استعمال کیے جا رہے ہیں۔ممنوعہ وائٹ فاسفورس سے زمین پر وسیع علاقے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے، انسانی جسم کے پٹھوں اور ہڈیوں تک کو جلادیتا ہے۔ حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری تیز ہوگئی ہے اور ہزاروں ٹن بارود محصور غزہ پر گرایا گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے بجلی، پانی اور ایندھن بھی بند کردیا گیا ہے جس کے بعد سے غزہ میں انسانی بحران سر اٹھا رہا ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے جبکہ شہدا میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔اسرائیل نے رہائشی عمارتوں، مساجد، دکانوں، فیکٹریوں اور ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
مذہبی و سیاسی جماعتوں نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک گیر مظاہروں اور قومی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گوں مگوں کی صورت حال سے نکل کر ارضِ مقدس کی آزادی کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے۔ مسئلہ فلسطین کا دوریاستی حل قائداعظم محمد علی جناح اورپاکستان کی ریاستی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسرائیل ایک ناجائراور قابض ریاست ہے اور اسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ عرب ممالک امریکا کی جانب دیکھنے کی بجائے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے تو فلسطین اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کے تسلط سے آزاد ہوجاتی۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو موجودہ موقع جو حماس نے قربانی دے کر انھیں فراہم کیا ہے ضائع نہیں کرنا چاہیے، وہ کھل کر فلسطینیوں کی حمایت میں آگے آئیں اور اس موقف کو اختیار کریں جو پوری امت کا ہے۔ حماس نے اسرائیلی دفاعی حصار کو توڑ کر رکھ دیا اور اس کارروائی کے دوران کسی قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی، بچوں پر ہاتھ اٹھایا گیا، نہ خواتین سے زیادتی ہوئی۔ سالہاسال سے ظلم سہنے اور دنیا کی خاموشی دیکھنے کے بعد فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جدوجہد کریں، اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہر مظلوم قوم کو یہ حق دیا گیا ہے۔ غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے۔ فلسطینیوں نے غلامی مسترد کر دی اور کم تعداد کے باوجود طویل عرصے سے مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ امریکا ٹینکوں سے چڑھائی کرنے والے اسرائیل کا ساتھ دیتا رہا۔ اس وقت غزہ کے مسلمان امت مسلمہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس ہوگا لیکن افسوس ہے کہ او آئی سی کا اجلاس نہیں ہوا۔ ہمیں غیرت، بہادری اور جرات کے ساتھ فلسطینیوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ عرب ممالک نے امریکا کی طرف دیکھنے کی بجائے فلسطینیوں کا ساتھ دیا تو فلسطین آزاد ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں نے اسرائیل اور حماس سے تحمل سے کام لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے دونوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔اقوام متحدہ نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی، بجلی، پانی اور خوراک کی ترسیل بند کرنے کے عمل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے شہریوں کی بقا کو خطرہ ہے۔ اسرائیل کا غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ جس سے شہری زندگی کی بقا کے لیے ضروری اشیا سے محروم ہوجائیں، عالمی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ لوگوں کے وقار اور جانوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا کہ تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار فراد اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کو ضروری خدمات فراہم کرنے والی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے پاس پناہ لے رہے ہیں۔ اس پوری صورتحال میں مسلم ممالک اور اقوامِ متحدہ کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کررہے ہیں جبکہ امریکا سمیت کئی مغربی ممالک آگے بڑھ کر غاصب اسرائیلیوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ ان حالات میں اگر مظلوم فلسطینی اپنے دفاع کے لیے غاصب اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت بھی نہ کریں تو اور کیا کریں۔ اگر اقوامِ متحدہ واقعی اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے میں سنجیدگی رکھتا ہے تو اسے بین الاقوامی طور پر مسلمہ دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔