... loading ...
حمیداللہ بھٹی
سات اکتوبرہفتہ کی صبح فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے اسرائیل پر پانچ ہزار راکٹ برسا کرایک ایسی لڑائی کا آغاز کیا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی جوابی کاروائی میں غزہ کا اسرائیل نے مکمل محاصرہ کر لیاہے اورفضائی حملوں سے بڑی بڑی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنادی ہیں۔اِس دوران سوالاکھ افراد نہ صرف بے گھر ہوچکے بلکہ دیگرمالی نقصان کے ساتھ اب تک ایک ہزارسے زائد فلسطینی شہیدبھی ہوگئے ہیں جبکہ حملوں میں اڑھائی سو کے قریب اسرائیلیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ حماس کے عسکری ونگ نے درجنوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیاہے اور اپنے حملے کو مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی اور آباد کاروں کے بڑھتے تشدد کا ردِ عمل کہا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہونے غزہ کے محصور شہریوں کو وہاں سے فوری طورپر نکل جانے کا انتباہ دیتے ہوئے کہاہے کہ اُن کی افواج جلد ہی حماس کے تمام ٹھکانوں کو ملبے میں تبدیل کر دیں گی۔ یہ خطہ ایک بار پھر ایک بڑی جنگ کی طرف جاتا محسوس ہونے لگا ہے۔ امریکہ،بھارت ،پورپی کمیشن میں شامل ممالک اور نیٹو نے حماس کے اسرائیل پر حملوں کو دہشت گردی کہتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جبکہ ایران ،لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے حوثی قبائل نے فلسطینیوں کی تحریکِ مزاحمت کی حمایت کرتے ہوئے حماس کے حملوں کودرست قرار دیا ہے مسلم ممالک میں حماس کے حق میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس فرانس سمیت مختلف ممالک سے روابط کے دوران اسرائیلی جارحیت رکوانے کا مطالبہ کررہے ہیں مگرکہیں بھی بات نہیں بن رہی علاوہ ازیں چین سعودی عرب،پاکستان ،قطر اور ترکیہ جیسے ممالک نے تشدد کازمہ دار اسرائیل کوقرار دیتے ہوئے دوریاستی حل کو امن کا ضامن قرار دیا ہے ۔سعودی ولی عہدنے غیر متوقع طورپر محمود عباس کوفون میں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ یہ لڑائی اِس حوالے سے غیر متوقع ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں آجکل صیہونی ریاست تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی دور شروع ہے سعودی عرب اور اسرائیل باہمی تعلقات کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔
حما س کے حالیہ حملوں کے نتیجے میں سعودی و اسرائیلی دوستانہ تعلقات کی طرف پیش قدمی رُک جائے گا اسی بنا پر کچھ حلقے حماس حملوں کو ایران کے اُکسانے کا شاخسانہ قراردیتے ہیں یہ اندازہ درست ہوسکتاہے کیونکہ صہیونی ریاست سے دوستی اُستوار کرنے میں سعودی قیادت کافی سنجیدہ ہے جوایران کو پسند نہیں وہ ایک سے زائدبار اِس حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہاربھی کر چکا ہے حماس پر ایرانی رسوخ عیاں حقیقت ہے نئی لڑائی کے آغاز سے جب تک فلسطین تنازع حل نہیں ہوتاسعودیہ کا اسرائیل سے تعلقات قائم کرنامشکل ہوجائے گا کیونکہ مسلم اکثریت متنفر ہو سکتی ہے جس کا ولی عہد محمد بن سلیمان اور اُن کے رفقا کو بخوبی اندازہ ہوگا سعودی وفد نے فلسطینی اتھارٹی کے دورے سے وستی کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی کوشش بھی کی اسرائیل جیسی بڑی دفاعی قوت پر راکٹ برساکر عقلمندی کا مظاہرہ نہیں کیا زمینی حقائق یہ ہیں کہ حملوں کے نتیجے میں کچھ حاصل ہونے کی بجائے فلسطینیوں کی مشکلات میں ہی اضافہ ہو گا۔
ویسے تو غزہ میںجھڑپیں معمول ہیں لیکن 2005،2008،2012،2014اور 2021میں اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے دھڑوں میں پانچ بڑی جنگیں ہو ئیں جنھیں جنگ کہنا توخیر مناسب نہیں کیونکہ غلیل اور توپ کا کوئی موازنہ نہیں بنتا البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل نے جی بھر کر بارودبرسایا اورفلسطینی دھڑوں نے بھی سکت کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کی فضائی اور زمینی قوت کوقابلِ ذکر جانی و مالی نقصان نہ پہنچا سکے۔ حالیہ لڑائی کا آغاز تو حماس نے کیا ۔کاش راکٹ حملوں کی بے وقوفی کرنے سے قبل حماس اپنے فلسطینی بھائیوں کی متوقع مشکلات کا احساس کر لیتی اب حماس کی کارروائی کے نتائج تما م فلسطینی بھگتیں گے ۔حالیہ حملوں سے اسرائیل کو خطے کا منظر نامہ اپنی پسند کے مطابق بنانے کا جواز مل گیاہے۔ اسرائیلی فضائیہ شام اور عراق کے سرحدی علاقوں کو نشانہ تو بناتی ہی رہتی ہے حماس حملوں کے بعدایک اورمحاذ لبنا ن کے سرحدی علاقوں پر بلاجواز گولہ باری کی صورت میں بھی کھول دیاہے۔ مزاحمت کرنا اورآزادی کے لیے لڑنا فلسطینیوں کا حق ہے مگر موجودہ صورتحال دیکھ کر یہ کربناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاں کی مزاحمتی قوتیں فلسطینیوں کے مفاد کی بجائے کسی اور کی جنبشِ ابروپر حرکت کرتی ہیں۔
ماضی میںایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کے گھر اور زمینیں ہتھیا کر جرمنی ،مشرقی یورپ،روس اور دیگر علاقوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا گیااُن آبادکاروں نے مقامی آبادی پر جب حملے شروع کیے تو آبائواجداد سے آباد یہاں کے مسلمان خوفزدہ ہوکر ہجرت پر مجبور ہو گئے اِس دوران امریکہ ودیگر بڑی طاقتوں نے یہودیوں کابھرپورساتھ دیا اب تو امریکہ سمیت کئی مزید ممالک نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے جوصیہونی ریاست کی جارحانہ کاروائیوں کی تائید کے مترادف ہے اگر عالمی طاقتیں چاہیں تو دوریاستی حل سے خطے کو امن کا گہوارہ بناسکتی ہیں لیکن وہ ایسا کچھ کرنے پر تیار نہیں 1967 سے پہلے غزہ کی پٹی مصر اور مغربی کنارے کا نتظام
اُردن کے پاس تھاغزہ کے لوگ رفاہ کرسنگ جبکہ مغربی کنارے کے لوگ اردن سرحد سے آتے جاتے رہے دونوں میں جغرافیائی رابطہ نہ ہونے کی بناپرپہلے ہی مشکلات تھیں آج تو غزہ کی پندرہ لاکھ کی آبادی عملاََ الگ تھلگ اورقیدیوں کی طرح ہے دراصل مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھنے کے لیے ناجائز صیہونی ریاست کی سرپرستی کی جارہی ہے اسی لیے مسلہ فلسطین کے حل کے لیے اب تک یواین او اور دیگر اداروں نے جتنی بھی قراردادیں پاس کیں اُن میں سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔
مزید ماضی میں جائیں تو 1938کے دوران سعودی عرب میں تیل کے بڑے ذخائر کی دریافت سے ہی عالمی طاقتوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر اِس خطے کو قابو نہ کیا گیا تو تیل کی دولت سے آنے والی خوشحالی سے یہ ممالک دفاعی حوالے سے طاقتور ہوسکتے ہیں جس کے لیے اسرائیل کی صورت میں ایک ناسور کی بنیاد رکھی گئی اب خوف کا شکار یہ عرب ممالک تیل کی دولت سے اسلحہ خریدتے ہیں جو جنگ میں کام نہیں آتا 1967کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی ،شام کی گولان کی پہاڑیاں ،مغربی کنارے ،مشرقی یروشلم ،غزہ کی پٹی اور دیگر فلسطینی علاقوں پرجو قبضہ کر لیاتھاپہلے کی سرحدوں کے مطابق واپس جاکر ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے تمام تنازعات مستقل طورپر حل کیے جا سکتے ہیں لیکن1948کی جنگ اور1967کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے اپنے توسیع پسندانہ
عزائم کی تکمیل کے لیے جو علاقے قبضہ میں لیے ہیں اُس سے پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں اسی بناپر 1993کے اوسلو معاہدے سے بھی امن قائم نہ ہو سکا1994 میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا لیکن تنائو بددستور موجود ہے اگر امریکہ اور مغربی ممالک چاہیں تو دبائو ڈال کر اسرائیل کو ظالمانہ کاروائیاں بند کرنے پر مجبورکرسکتے ہیں مصر اور شام نے 1967 میں اپنے کھوئے علاقے حاصل کرنے کے لیے اکتوبر 1973 میں جنگ کا آغاز کیا اِس 19روزہ جنگ میں سعودیہ اور عراق بھی کسی حدتک شامل ہوئے لیکن ابتدائی کامیابیوں کے بعد ہر محاذپر عرب فوجیں شکست کھاتی چلی گئیں جس کے بعدپھرکبھی عرب ممالک سنبھل نہیں سکے آج اِس جنگ کو پینتالیس برس گزرچکے مگرفلسطینی علاقوں اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ برقرار ہے کوئی قابلِ قبول حل تلاش کرنے کی بجائے 2020 میں امریکی صدر ٹرمپ نے نام نہاد ابراہیم معاہدے کے تحت صیہونی ریاست کو تسلیم کرانے کی مُہم شروع کردی اب بھی مدد کے لیے امریکہ نے بحری بیڑہ اسرائیل کی طرف روانہ کر دیا ہے تاکہ کسی اور عرب ملک کو فلسطینیوں کی حمایت کرنے کی جرات نہ ہو زرائع ابلاغ پربھی کیونکہ یہودیوں کارسوخ ہے اسی لیے وہ اسرائیلی جارحیت کوبھی جنگ کہہ کر حالات کی درست ہولناکی پیش نہیں کرتے بلکہ اُلٹا مظلوم فلسطینیوں کوتنقید کا نشانہ بناتے ہیں عرب تنازعات کاسادہ حل دوریاستی ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو عرب اسرائیل تنازعات کی آگ کے شعلے بلند ہوتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔