... loading ...
سمیع اللہ ملک
سوچتاہوں کہ آخر دنیا بھرکی یورشوں کا ہم ہی شکار کیوں ہیں؟بہت سوچ بچارکے بعداس نتیجے پرپہنچاہوں کہ اس کاسب سے بڑا سبب ہمارے قول وفعل کا تضاد ہے جس کی ہمیں ایسی سنگین سزامل رہی ہے کہ توبہ کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا توپھر توفیق کیسے ملے ؟ہماری سزاکا پہلا شاخسانہ ہمارے دلوں کا وہ کھوٹ ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں اور یہ طے کرلیاہے کہ اپنے مخالف کی کسی بات سے اتفاق نہیں کریں گے جبکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ اگر چڑیاں آپس میں اتحاد کرلیں توشیر کی کھال ادھیڑکررکھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔سیاست اور بندوبست سے ہٹ کر ذراسوچیے ، غور کیجیے …کہ ہم غالب سے مغلوب قوم کیوں ہوگئے ؟ہم ابھرتی ہوئی قوم کے بجائے ابھرتی ہوئی اقوام کے مقلد اور محض نقال کیوں ہیں؟
ہم اپنے حکمرانوں کی تاریخ کواپنی تاریخ کیوں کہتے ہیں حتیٰ کہ ان کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اپنے اقتدارکے حصول کیلئے گزشتہ 76سالوں سے جھوٹ بول رہے ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ طاقتوراورمقتدراشرافیہ کی غلامی اس کی غاصبیت کے معترف رہتے ہیں۔دراصل شعوری طور پر محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہوجاتاہے ،ظلمت کادورانیہ جتنا طویل ہوتاہے ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی بدتر ہوجاتاہے ،پھرایک وقت ایساآتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے ۔ کہیں ہم ناکام ریاست تو نہیں ہیں کیونکہ جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں جھوٹ رواج پکڑتا اورسچ شکست سے دوچار ہوکر ذلت میں مبتلاہو جایاکرتاہے ، فضاؤں میں خوف اور دلوں میں مایوسی چھا جایا کرتی ہے ۔خوشامد کرنے والے ، موقع پرست سیاست دانوں، افواہیں پھیلانے والے پیشہ وروں اور بہروپیوں کے قافلے ہجوم کی شکل اختیار کر کے قوم میں گھس جایا کرتے ہیں۔ پھرجھوٹ روزانہ کی بنیاد پر اپنے زورسے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتاہے لیکن کچھ ہم جیسے دیوانے اس جھوٹ کے سامنے سینہ سپرہوکراپنی جان لڑادیتے ہیں جب تک جھوٹ اپنی ہی سیاہی اپنے منہ پرمل کرواپس نہ ہوجائے ۔ آج ہم پھردیکھ رہے ہیں کہ جس میں جو وصف سرے سے ہونے تک کاشائبہ نہیں ہوتا وہ اس کاماہر گرداناجاتا ہے ۔ اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں۔ نظم و نسق ناپید ہوجاتا ہے ۔ کلام سے معنویت کاعنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری،جھوٹ جبکہ جہاد اور دہشت و غنڈہ گردی میں فرق مٹ جایا کرتا ہے ۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں،تو ہر سُو دہشت و وحشت پھیلتی ہے اورلوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں،دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے ، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے ، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار غائب ہو جاتے ہیں۔ حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے ، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہو جاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔ مبلغین کی اداکاری اور چیخ وپکار میں حقیقی دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے ۔ گھروں میں بازاروں سا ہنگامہ بپا ہو جاتا ہے اور وابستگیاں فروخت ہو جایا کرتی ہیں۔قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدت و عقیدہ اور مذہب و مسلک کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر قوم دشمنی کے الزامات لگاتے ہیں۔ ہجرت آخری راستہ بچتاہے ،آج تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ماضی سے کئی گنازیادہ ہے کہ وطن سرائے میں بدل جایا کرتے ہیں؟ یہ مناظر دیکھ لیں لوگوں کاکل ساز و سامان سفری تھیلوں تک کیوں سمٹ آیا؟لوگوں نے اس گھٹن سے نکلنے کیلئے فرار کے ایسے راستے اپنائے کہ معصوم بچوں سمیت اپنی زندگی کی کمزورکشتیوں کو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے حوالے کردیا کہ اگرمرنا ہی اپنے نصیب میں ہے توپھر پرواہ کیسیَ؟ بپھرتے سمندرکوجب ترس آیاتو اس نے انسانیت کے جعلی چیمپئنزکے چہروں سے پردہ ہٹاتے ہوئے ایک معصوم بچے کی لاش کوکنارے پر پھینک دیا۔کچھ دنوں کیلئے یوں محسوس ہواکہ اپنی غلطیوں کااحساس کرنے بعد کوئی مثبت اقدام اٹھانے کی تحریک شروع ہوگی لیکن ایسی طاقتوں کی یہ بھی کوئی چال تھی کہ وقتی طورپربہت دلاسے دیئے گئے لیکن معاملہ پہلے سے بھی زیادہ شدیدتر ہو گیا۔ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ ایسے تمام حالات پرنظرثانی کرکے ایساپرامن ماحول پیداکردیتے کہ ایسا ظلم دوبارہ دکھائی نہ دیتا لیکن ہم نے تواپنے اسلحہ سازی کے کارخانوں کوچلاناہے ،ادویات کی فیکٹریوں کو دوام دیناہے ، ان کاروبار کے مالکان اس قدرمضبوط ہیں کہ کسی کی مجال نہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف جنبش بھی کرسکیں۔
ایک مرتبہ پھرچراگاہیں ویران ہیں، وطن یادوں میں اور یادیں کہانیوں اورآہوں میں بدل چکی ہیں۔یقین ہوتاجارہاہے کہ ہماری آوازیں اب آپ کو ایمرجنسی میں ہی سنی جائیں گی اورامکان میں بھی مثبت جواب سننے کی خواہشات ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیں گی۔مگراب بھی ان خوفناک حالات میں کامیابی صرف ایمانی عزم کے ساتھ ہی حاصل کی جاسکتی ہے ،جب فرد طے کرلے اوراس کی سوچ یہ رخ اختیارکرلے کہ انسانیت کو ان آفتوں سے بچانے کی مجھ تنہا کی ذمہ داری ہے ۔
یادرکھیں کہ یہ شیوہ نبیوں کاہے اوراللہ کی نظر میں ہر نبی کامیابی کااستعارہ ہے چاہے اس کے ماننے والے کتنے ہی قلیل اور کمزورکیوں نہ ہوں۔ تاریخ نے انہی افرادکو بہترین قراردیاہے ۔ اب یہ فیصلہ آپ کاہے کہ ہم نے کون ساراستہ اختیارکرناہے
٭٭٭