... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،آپ کے پاس تیل تو نہیں مگر گنے کی پیداوار میں پوری دنیا میں آپ کا پانچواں نمبر ہے،کیا آپ سستی چینی حاصل کر پا رہے ہیں؟آپ کے پاس تیل تو نہیں مگر گندم کی کاشت میں آپ کا آٹھواں نمبر ہے، کیا آپ کو سستی روٹی دستیاب ہے؟آپ کے پاس تیل تو نہیں مگر چاول کی پیداوار میں آپ دسویں نمبر پر ہیں،تو کیا عام شہری با آسانی اچھا چاول خرید سکتا ہے؟آپ کے پاس تیل تو نہیں مگر کپاس کی پیداوار میں آپ کا چوتھا بڑا ملک ہے،تو کیا ہر شہری با آسانی تن ڈھاپنے کا کپڑا خرید سکتا ہے؟؟اگر تیل دریافت ہوا بھی تو وہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، والی اشرافیہ پے مشتمل 60,70 خاندانوں کی چمکتی ہوئی قسمت کو مزید چمکائے گا،جب کہ آپ تب بھی اپنی قسمت و نصیب کے نچوڑے تیل کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے ۔دنیا کے ممالک تیل سے نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ترقی کرتے ہیں ،عوام دریافتوں سے نہیں عدل و انصاف سے خوش حال ہوتے ہیں۔ان باتوں پر کبھی اکیلے میں سوچئے گا۔ اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔
ایک شخص نے کابل کے بادشاہ سے کہا کہ،میں آپ کو ایک ایسی توپ بنا کر دیتا ہوں،جو یہاں سے دِلّی کو تباہ کر دے گی۔۔بادشاہ نے اس کو فنڈز جاری کرنے کی ہدایات کر دی۔۔اس شخص نے توپ تیار ہو کر دی اور پھر ایک دن بادشاہ کے سامنے اس کا مظاہرہ رکھا گیا۔۔بادشاہ سلامت تشریف لائے،اور توپ میں گولا ڈال کر فائر کیا گیا۔۔زبردست قسم کا دھماکہ ہوا،ہر طرف دُھوئیں مٹی کے بادل چھا گئے۔۔جب یہ بادل کچھ چَھٹے تو پتا چلا کہ اس دھماکے سے خود وہ توپ ہی اُڑ گئی تھی۔۔بادشاہ نے غصے سے اس کاریگر کی جانب دیکھا، تو وہ فوراً کورنش بجا لایا اور بولا۔۔دیکھا بادشاہ سلامت، جب یہاں اتنی تباہی ہوئی ہے، تو سوچیں ذرا کہ دِلّی کا کیا حال ہوا ہو گا۔۔ریاضی میں کمزور ایک نوجوان پولیس کی نوکری کیلئے انٹرویو دینے گیا۔پولیس افسر نے اس سے سوال کیا۔اگر سیب 170 روپے کلو ہوں تو 100 گرام کی قیمت کیا ہو گی؟
نوجوان بولا۔۔صاحب اگر 100 گرام سیب کے مجھے پیسے دینے پڑیں تو پولیس کی نوکری کس کام کی؟پولیس افسر نے کہا۔چلو مان لیا تمہاری بیوی بازار گئی اور اسے سیب لینے ہوں تو 170 روپے کلو کے حساب سے 100 گرام کتنے کا ہو گا؟نوجوان نے جواب دیا۔صاحب، آپ اسے نہیں جانتے،اسکو اگر 100 گرام سیب لینا ہو گا تو وہ 100 گرام کا ہی ریٹ پوچھے گی یہ مجھے پکا پتہ ہے۔ پولیس افسر نے پھر سوال داغا۔۔چلو مان لیا، تمہارا بھائی بازار گیا سیب لینے تو؟؟ نوجوان بولا۔۔اس کی بات ہی مت کرو صاحب، وہ ایک نمبر کا کام چور سارا دن بس کھا کر پڑا رہتا ہے، وہ جائے گا ہی نہیں۔پولیس افسر نے ہار نہیں مانی، دوبارہ سوال کر ڈالا۔۔اگر تمہارے والد جائیں تو 100 گرام کتنے کا پڑے گا 170 روپے کلو کے حساب سے؟نوجوان نے برجستہ کہا۔۔میرے والد کے منہ میں دانت ہی نہیں ہیں ، وہ کیلا کھاتے ہیں، اس لئے نہ وہ کھاتے ہیں نہ سیب لینے جائیں گے نہ ریٹ پوچھنے کی ضرورت ہے ان کو۔۔پولیس افسر ضد پر آگیا، اس نے کہا۔۔چلو مجبوری میں تمہاری بہن کو جانا پڑا سیب لینے تو اس ریٹ میں 100 گرام کے کتنے پیسے ہوئے؟نوجوان بولا۔۔صاحب ہم اس کی شادی پانچ سال پہلے کر چکے۔ اب وہ جانے اور بہنوئی جانے وہ چاہے سیب خریدیں، کیلا لیں یا لیچی اپنے سے کیا مطلب۔ویسے بھی نو کری میں کروں گا یا پورا خاندان کرے گا؟پولیس افسر کے صبر کا بند اب ٹوٹنے لگا، غصے سے دہاڑا اور پوچھ بیٹھا۔۔بھائی کوئی بہت ہی عام ادمی سیب لینے جائے تو 100 گرام سیب کتنے کا ہوا، بتاؤ! نوجوان نے افسر کو گھورا اور بڑے اطمینان سے اسے جواب دیا۔۔صاحب، عام آدمی کو سرکار اور ہمارے سسٹم نے سیب کھانے لائق چھوڑا ہی کہاں ہے، وہ بیچارہ تو دال روٹی میں ہی پریشان ہے۔ عام آدمی تو سیب کی ریڑھی لگاتا ہے اور خاص آدمی ہی سیب خرید کر کھاتا ہے، اس لئے عام آدمی کو سیب کے ریٹ سے کیا مطلب؟؟
ریڈ انڈینز کے اپاچی قبیلے کا بزرگ سردار انتقال کر گیا تو جدید یونیورسٹی کے پڑھے ایک نوجوان نے اپنی تعلیم کا غلط استعمال کرتے ہوئے قبیلے کی سرداری پر قبضہ کر لیا۔ چند ماہ بعد جب موسم خزاں آیا تو قبیلے والے اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے ، سردار اگلی سردیاں عام سردیوں جیسی ہوں گی یا زیادہ برف پڑے گی؟ تا کہ اس کے مطابق لکڑیاں جمع کی جا سکیں؟ اب اس نوجوان کے پاس قدیم بزرگوں جیسی دانائی اور سمجھ بوجھ تو تھی نہیں جو وہ زمین او ر آسمان کو دیکھ کر بتا دیتا کہ موسم سرما کیسا ہو گا۔ وہ تو شہر کی یونیورسٹی سے پڑھ لکھ کر آیا تھا، اس نے سوچا کہ اگر کہہ دیا کہ عام سی سردی ہو گی اور زیادہ برف پڑ گئی تو بے عزتی الگ ہو گی اور قبیلہ بھی مارا جائے گا۔ اس لیے اس نے ازراہ احتیاط کہہ دیا کہ کچھ سخت سردی ہو گی، لکڑیاں جمع کر لو۔ قبیلے کے جوان لکڑیاں جمع کرنے میں لگ گئے۔ ہفتہ بھر نوجوان سردار بے چین رہا کیونکہ قبیلے کی زندگی کا دارومدار اس کے فیصلے پر تھا اور وہ ایک تکا لگا کر یہ فیصلہ دے چکا تھا لیکن اس فیصلے میں کتنی صداقت ہے یہ وہ اچھی طرح سے جانتا تھا اس لیے اس کی پریشانی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگی۔اس کی مروجہ تعلیم کی انتہا یہ ٹھہری کہ آخر اس نے علاقے میں موجود محکمہ موسمیات والوں کو ایک گمنام کال کی اور پوچھا کہ اس سال موسم سرما کیسا رہے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ معمول سے زیادہ سردی پڑے گی۔ نوجوان سردار نے قبیلے والوں کو جمع کیا اور بتایا کہ اس سال موسم سرما معمول سے کچھ زیادہ سرد ہو گا، اس لیے زیادہ لکڑیاں جمع کر لو۔ قبیلے کے نوجوان ہر طرف پھیل گئے اور قبیلے میں لکڑیوں کے ڈھیر نظر آنے لگے۔ چند دن کے بعد نوجوان سردار نے ایک بار پھر محکمہ موسمیات والوں کو فون کر کے پوچھا کہ اب آپ کیا کہتے ہیں کہ اس سال کتنی سردی پڑے گی؟ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک ہم یہی بتا سکتے ہیں کہ معمول سے کافی زیادہ سردی پڑنے کا امکان ہے، ایسی سردی جو شدت بھی اختیار کر سکتی ہے۔ نوجوان سردار نے قبیلے والوں کو شدید سردی کی نوید سنائی اور مزید لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دے دیا جس کے بعد قبیلے کے نوجوانوں نے ارد گرد کے علاقوں سے ملنے والا ہر لکڑی کا ٹکڑا قبیلے میں جمع کر دیا۔ اپنی شہری زندگی اور جدید تعلیم کے ہاتھوں مجبور نوجوان سردار نے کچھ دن گزرنے کے بعد ایک بار پھر جب محکمہ موسمیات سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سال برف باری سے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے اور ایسی سردی پڑے گی کہ کسی نے شاید ہی دیکھی ہو۔ نوجوان سردار نے حیرت اور بے بسی سے پوچھا کہ آپ کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں؟ محکمہ موسمیات نے جواب دیا۔۔۔ کیونکہ اپاچی قبیلے کے لوگ پاگلوں کی طرح لکڑیاں جمع کر رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ان کے سردار کی پیش گوئی کبھی غلط نہیں ہوتی، اس سال موسم سرما انتہائی سرد ہو گا۔۔واقعہ کی دُم: ٹی وی چینلز پر اینکرز جو رات دن پیش گوئیاں کرتے ہیں،ان کی معلومات کا انحصار بھی اپاچی قبیلے اور محکمہ موسمیات جیسا ہی ہے!
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔انسان کو موت ہمیشہ قبل ازوقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔