... loading ...
ریاض احمدچودھری
قرآن مجید سے علامہ اقبال کی شیفتگی اور والہانہ شغف کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی مصروفیت ہو، جیسا بھی انہماک، گھر بار کے معاملات، دنیا کے دھندے ہوں، ان کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا۔ دورانِ مطالعہ اکثر رقت طاری ہوجاتی۔ کوئی بھی گفتگو کرتے، تحریر ہوتی یا تقریر، جہاں کوئی بات کہنے کی ہوتی ان کا ذہن بے اختیار ارشادات قرآنی کی طرف منتقل ہوجاتا۔ جب بھی ان کے ذہن میں کوئی بات آتی، کوئی حقیقت سامنے آتی، یا کوئی فکر ذہن میں ابھرتی تو قرآن مجید سے اس کی وضاحت ہوجاتی۔ رہا تدبر سو اس باب میں کیا عرض کی جائے۔ علامہ اقبال نے جو کچھ کہا، کچھ سوچا، جو کچھ لکھا، شعر ہو یا فلسفہ قرآن مجید ہی میں تدبر و تفکر کی بدولت۔ مختصراً یہ کہ اقبال کے سرمایہ فکر میں قرآن مجید ہی کی روح کارفرماہے۔عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی ادبی نشست میں “اورتم خوارہوئے تارک قرآں ہوکر” کے عنوان پر محمدکاشف نورنے کہاکہ علامہ کے مطابق جب انسان قرآن وسنت کو اپنی قبولیت اورعدم قبولیت کامعیاربنالیتاہے تو وہ اسرارکتاب تک رسائی حاصل کرلیتاہے۔انہوں نے حضرت علی کی روایت کامفہوم بیان کیا کہ آپۖنے فرمایاایک بہت بڑافتنہ آنے والاہے اوراس سے بچت صرف قرآن مجیدکے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجیدکوحکم بناکر اتاراتاکہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیاجاسکے لیکن لوگوں نے اس کتاب سے فیصلہ لینے کی بجائے اسی کتاب سے اختلاف شروع کردیا۔ فی زمانہ ہم روح قرآن سے دورہیں جب کہ اقبال چاہتے تھے کہ قرآن مجیدمومن کے ضمیرپر نازل ہو۔مقررین نے کہا کہ ترک قرآن سے مراد ترک تعلیمات قرآن ہے۔ افکارعہدنبوی اور افکار عہد خلافت راشدہ کی مددسے ہم آج پھردنیامیں عروج حاصل کرسکتے ہیں۔ قرآن لامحدودہے لیکن قرآن کاترجمہ اسے محدودکردیتاہے اس لیے ضروری ہے کہ قرآن مجیدکواسی کی زبان میں براہ راست سمجھاجائے۔ قرآن کی زبان کو نصاب تعلیم سے خارج کیاجارہاہے اور عربی اساتذہ کی تقرری ایک عرصے سے معطل ہے تب قرآن مجیدکی تفہیم کیسے ممکن ہوگی اوراسی کانتیجہ ہے نسل نو اسلامی تعلیمات سے دورہوتی چلی جارہی ہے۔ عربی زبان کی تعلیم ازحدضروری ہے اورعلامہ کے مطابق اس کی مددسے ہی ہم دنیامیں اپناوجود منواسکتے ہیں۔بلاشبہ اقبال نے اپنی بیشتر شاعری کو مسلمانوں کیلئے قرآن کی تعلیمات سے آگاہی کا ایک مؤثر ذریعہ بنایا اور اپنے پراثر اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے بڑے احسن اور دلنشین انداز میں روشناس کروایا۔ اقبال نے قرآن کے آفاقی پیغام کو ہوبہو اپنے شعروں کے قالب میں ڈھال کر من و عن اسی طرح بیان کر دیا۔ قرآنی پیغام پر مبنی شاعری نے نہ صرف عام مسلمانوں میں جذبہ ایمانی کی نئی روح پھونک دی بلکہ قرآنی تعلیمات کے بیان نے ان کی شاعری میں ایک ایسی لازوال شادابی و آفاقیت پیدا کر دی کہ ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کا یہ کلام تروتازہ و شاداب ہے۔
تقریباً سو سال قبل جب علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا تو اس وقت حالات اس لحاظ سے مزید بد تر تھے کہ بیشتر اسلامی ممالک براہ راست یورپی اقوام کے زیر تسلط تھے۔ خلافت کا قلع قمع ہو چکا تھا اور مسلم مرکزیت ختم کر دی گئی تھی۔ عالم اسلام غیروں کا غلام بن چکا تھا۔ یہ تمام حالات علامہ اقبال کے روبرو تھے۔ ان سے نالاں ہو کر اور خود مسلمانوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر انہوں نے لکھا:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
ان حالات میں علامہ نے مسلمان اور امت مسلمہ دونوں کو جگانے کا فریضہ ادا کیا اور انہیں آزادی کی قدر و قیمت کا احساس دلایا۔ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے گزشتہ صدی کے عظیم فلسفی کا اضطراب ان کی شاعری سے عیاں ہے۔وہ مسلم امہ کو ان کے حقیقی تشخص سے روشناس کرا کے ان کے روایتی وقار و مرتبے کو بلند دیکھنے کے آرزومند تھے۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا نظریہ ان کے افکار کا ترجمان ہے۔انہوں نے مسلمانان برصغیر کی فکری سطح کو بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔آج پوری دنیا کے مسلمان اس سچے عاشق رسول ۖ علامہ اقبال کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر عزت و حمیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔اقبال بلاشبہ ایسے ہی شاعر ہیں جن پہ اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے۔ اقبال کی زندگی کا خاصہ قر آن فہمی اور عشقِ قرآن بھی تھا، اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کو محض اساطیر الاولین خیال نہ کر لیا جائے بلکہ اس میں موجود 750 آیات جو قرآن کا آٹھواں حصہ بنتا ہے،آیاتِ معاملاتِ عمرانی کو اپنی زیست کا عملی اوڑھنا بچھونا بنا کر دنیا کے سامنے ایک مثالِ عمل پیش کرنی چاہئے۔وہ اس بات سے بھی خوب آشنائی رکھتے تھے کہ قرآن وہ کتاب ہے جو کتابِ صلوة کے ساتھ ساتھ کتابِ اعمال بھی ہے اور دونوں کو عملاً ماننا ایک مومن کی معراج ہے۔
یقیں محکم’ عمل پیہم’ محبت فاتح عالَم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یہ شعر پوری زندگی میں کامیابی کے حصول کے لئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سہ نکاتی حکمت عملی اقبالکی ضمانت یا گارنٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایمان و یقین کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ اپنے ایمانی عقائد پر پختہ یقین کہ کامیابی کا راستہ ”توحید’ رسالت’ آخرت” کے سائے میں طے ہوتا ہے۔ یعنی کائنات اللہ وحدہ لا شریک کی ملکیت ہے ہم اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی عطا کردہ ہدایات کے مطابق کام میں لائیں۔ کبھی اس کی یاد اوراطاعت سے غافل نہ ہوں۔ حضور رسول مقبولۖ کی اطاعت و محبت عظیم ترین اور عزیز ترین سرمایہ حیات ہے اور اللہ کی مخلوق سے حسب مقام و مرتبہ محبت اورخیر خواہی کا طریقہ اپنائیں اور عفو و درگزر سے کام لینے میں مسرت و سکون محسوس کریں۔ یہ پورا فلسفہ حیات قرآن پاک سے ماخوذ ہے۔ جْہدِ مسلسل سے زندگی کو حسن و کمال ملتا اور کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔