... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتاز دانشور اور سکالر ڈاکٹر ابصار احمد کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے فکر اقبال کا فروغ اشد ضروری ہے۔ بزم اقبال کے زیر اہتمام مسلم فکر کے زوال اور اقبال کے زاویہ نگاہ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں عصر جدید کے نو مسلم مفکرین بشمول حسن سپائکر اور کریم الہان کے لیکچر سننے چاہیں۔ان میں فکری زوال سے نکلنے کی رہنمائی ملتی ہے۔ مغرب میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ سے اس کے منفی اثرات پر سوچ بچار پیدا ہونا خوش آئند ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں روحانیت کے حصول پر توجہ دی کیونکہ اس کے بغیر تزکیہ نفس ممکن نہیں۔ نئی نسل کو بھی قرآن، حدیث اور افکار اقبال کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ڈاکٹر ابصار احمد کی رائے ہے کہ امہ کے دانش ور طبقہ کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ہمارے ہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی پہلوئوں سے نجات پر بھی غور ہونا چاہیے۔ مستقبل سنوارنے کے لیے فکر اقبال کا فروغ ضروری ہے۔ ایسا اسلام کے بنیادی اصولوں کی تعلیم حاصل کرنے سے ممکن ہے۔
علامہ اقبال کی سوچ کا مرکز اور محور امت مسلمہ ہے وہ امت کی حالت پر سراپا درد ہیں ان کی خواہش ہے کہ امت محمدی گدائی’ خوف اور غلامانہ ذہنیت کے چنگل سے آزاد ہو’ منفی خیالات سے گریز کرے۔ مثبت انداز فکر اپنائے۔ مگر آج کا مسلمان آئین شریعت سے آزاد ہو گیا ہے جس کی زندگی میں جفا کشی’ نظم و ضبط’ روا داری اور احساس انسانیت مفقود ہو چکی ہے اسی کے سبب قوم کا شیراز ہ بکھر گیا اور یہ قانون فطرت ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم آئین اور ضابطے کی پابندی نہیں کرتی وہ بکھر جاتی ہے فرماتے ہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اس قوم رسول ہاشمی کی امامت بھی بے مثل ہونی چاہئے اور امامت کا فریضہ ہر شخص کی خودی پر منحصر ہے انسانی خودی تبھی حقیقی ہونی ہے جب اس میں اپنی حقیقت کا شعور پیدا ہو۔ بس لازم ہے کہ فکر اقبال جو قرآن کا ماخذ ہے منبع ہے سرچشمہ ہے اس سے اپنے لئے راہیں متعین کریں۔ڈاکٹر صاحب کے خیال میں ہمارے زوال پذیر اخلاقی رحجان کا نتیجہ یہ ہے کہ اب رمضان المبارک میں دینی پروگراموں میں بھی سامعین کو ہنسانے کے لیے علما کو لطیفے سنانا پڑتے ہیں۔ دانش ور طبقہ کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ جدت پسندی نے معاشرے میں ہیجانی کیفیت میں اضافہ کردیا ہے۔ معاشرہ تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے نجات کے لیے قرآن و سنت سے تعلق قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اقبال مسلمانوں کے زوال سے بہت متفکر تھے۔ انکی دلی خواہش تھی کہ مسلمان ایک بار پھر دنیا کی عظیم قوم بن جائیں۔ آخری عمر میں وہ بڑی بے تابی کے ساتھ مسلمانوں کو متحد ہونے کا پیغام دیتے رہے۔ اقبال ایک دیانتدار مفکر تھے ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا نہ ہی وہ ذاتی شہرت کے اسیر تھے۔ وہ سچے اور کھرے مفکر کی طرح ارتقائی منازل طے کرتے رہے اور ان کی فکر میں بلوغت آتی رہی۔اقبال نے مغرب میں تعلیم حاصل کی اور مغربی علوم و فنون کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب نے مختلف حوالوں سے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ متحد ہوکر پھر سے عظیم قوم نہ بن سکیں۔
دینی اور عصری علوم میں یکساں درک رکھنے والا علامہ کے برابر کوئی دوسرا رہنما ملت کو سہارا دینے والا موجود نہیں تھا۔ حالانکہ اس وقت جید علماء تھے، مگر وہ جدید علوم سے نا آشناتھے، جبکہ دوسری طرف عصری علوم کے دانشور تھے ، مگر وہ قرآن وسنت سے بے بہرہ تھے۔ وہ مغرب سے یا تومرعوب تھے یا متاثر۔ ملت کو ذہنی غلامی سے آزاد کرانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ بلکہ غلامی کے احساس سے بھی وہ عاری ہو چکے تھے۔ علامہ نے نہایت دکھ بھرے انداز سے اس صورتحال کی تصویر کشی کی ہے۔
شاعر بھی ہیں پیدا ،علماء بھی، حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ !
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ !
علامہ اقبال نے نہ صرف مذہب کے امکان پر شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے بلکہ انھوں نے اسلام کے اساسی اور بنیادی عقائد اور عبادات پر نظری حوالے سے بحث بھی کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان کے عملی پہلوئوں کی بڑی مؤثر تعبیر پیش کی ہے۔ انھوں نے رموز بے خودی میں توحید اور رسالت کے ضمن میں ایسی تفسیر بیان کی ہے کہ چند اشعار میں موضوع کا حق ادا کر دیا ہے، اسی طرح انھوں نے دیگر عقائد اسلامیہ کے بارے میں نظم و نثر میں عمدہ اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے۔اقبال کے نزدیک قرآن کریم کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گونا گوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے، جو اس کے اور کائنات کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے کلام اور افکار میں اسلام کے بنیادی عقائد کی نہایت ہی خوبصورت اور عالمانہ تعبیر پیش کی ہے۔ توحید اور رسالت کی اہمیت اور افادیت کا جیسا عالمانہ اظہار علامہ کے ہاں ملتا ہے اس سے قبل شاید ہی ایسا تعبیراتی اور تفسیراتی اظہار کسی شاعر کے کلام کاحصہ بن سکا ہو۔ علامہ نے فکر و فلسفہ کی بوقلمونی میں الجھنے اور کش مکش سے دو چار ہونے کے بجائے سیدھے سادے انداز میں اسلامی تصورات اور عقائد کی جامعیت کو بیان کیا ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر تحسین فراقی ، ڈائریکٹر بزم اقبال نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ اقبال نے مسلم فکری و اخلاقی زوال کی صرف نشان دہی ہی نہیں کی بلکہ اس سے نجات کے لیے بھی رہنمائی کی۔انہوں نے حاضرین کا شکریہ بھی ادا کیا۔