... loading ...
معصوم مرادآبادی
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا مندر کہی جانے والی ہماری پارلیمنٹ اب ایک نئی اور زیادہ بڑی عمارت میں منتقل ہوگئی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ یہاں جمہوری قدروں کی ایک نئی کہانی لکھی جائے گی، لیکن اس نئی پارلیمنٹ کے مختصر اجلاس کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے جمہوری قدروں کے ہی پرخچے اڑا دئیے ہیں۔ اس واقعہ کا تعلق حکمراں بی جے پی کے ایک ممبر سے ہے جس نے ایک مسلمان ممبر کو وہ سب کچھ کہا ہے جو سڑک چھاپ قسم کے جنونی فرقہ پرست آئے دن کہتے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ بی جے پی میں کام کرنے والے تمام لوگ ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اور ان کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس نفرت نے آج یہ دن دکھائے ہیں کہ مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور وہ خود کو کہیں بھی محفوظ تصور نہیں کررہے ہیں، یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی ان کی عزت وآبرو محفوظ نہیں ہے ۔
ہوا یوں یہ کہ گزشتہ جمعرات کو لوک سبھا میں چندریان3کی کامیابی پر بحث ہورہی تھی، جس میں بی جے پی کے ارکان اس کا تمام کریڈٹ وزیراعظم نریندر مودی کو دے رہے تھے ، جبکہ اپوزیشن ممبران کا بجا طورپرکہنا تھا کہ یہ کارنامہ دراصل ملک کے سائنسدانوں کا ہے ،اس لیے اس کا کریڈٹ بھی انھیں ہی ملنا چاہئے ۔ ظاہر ہے کہ چندریان 3 کا مشن کوئی سیاسی مہم جوئی نہیں تھی بلکہ یہ سائنسی مہم جوئی تھی جس کی کامیابی کے لیے ہمارے سائنسداں مبارکباد کے مستحق ہیں، لیکن بی جے پی کو چونکہ ہر چیز کاکریڈٹ لینے کا شوق ہے تو وہ اس معاملے میں بھی دوہاتھ آگے ہے ۔ لوک سبھا میں اسی بحث کے دوران جب جنوبی دہلی سے بی جے پی ممبررمیش بدھوڑی نے لن ترانیاں شروع کیں تو اس پر دیگر ممبران کے ساتھ بی ایس پی رکن دانش علی نے بھی اعتراض درج کرایا۔ پھر کیا تھا بدھوڑی نے انھیں ‘اگروادی”کٹوا”آنتک وادی’ جیسے القاب سے نوازنا شروع کردیا۔ المیہ یہ ہے کہ جس وقت وہ یہ بکواس کررہے تھے تو ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے بی جے پی کے دیگر ممبران مسکرارہے تھے ۔ان میں سابق وزیرصحت ڈاکٹر ہرش وردھن اورروی شنکر پرشاد بھی شامل تھے ،جو خود کو بڑا مہذب اور باشعور سیاست داں قرار دیتے ہیں۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ بی جے پی میں شامل بیشتر لوگوں کی ذہنیت یہی ہے اور وہ اس ملک سے مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹانا چاہتے ہیں۔
جو لوگ اس قسم کی زبان بولتے ہیں، ان کا قد بی جے پی میں سب سے بلند ہوجاتا ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جاری مہم کے دوران جس مرکزی وزیر نے دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو جیسا بے ہودہ نعرہ لگایا تھا، وہ آج مرکزی کابینہ میں کئی اہم عہدوں کا وزیر ہے ۔آئینی عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو بدترین فرقہ پرستوں کو پسند آتی ہے ۔آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا شرما آئے دن مسلمانوں کے خلاف جو بیانات دیتے رہتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔خود وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ انتخابی ریلیوں میں جو تقریریں کرتے ہیں،ان میں مسلمانوں کی حب الوطنی پر براہ راست چوٹ ہوتی ہے ۔قصور ان کا نہیں ہے بلکہ اس تربیت کا ہے جو انھوں نے اپنی سرپرست تنظیم کی شاکھاؤں میں حاصل کی ہے ۔
اب آئیے ایک نظر رمیش بدھوڑی کے پس منظر پر بھی ڈالتے ہیں، جو دوسری بار جنوبی دہلی سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے ہیں۔ وہ اس سے قبل تین بار اسی علاقہ سے ممبر اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ ان کاخاندانی تعلق آرایس ایس سے ہے اور اسی کی طلباء تنظیم اے بی وی پی کے چینل سے سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔ وہ بی جے پی کے ضلع صدر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے 2019میں ایک عوامی جلسے کے دوران دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو بھی ‘دلال’ کہا تھا۔یہی ان کی اصل بھاشا ہے جس کا اظہار وہ اکثر وبیشتر کرتے رہتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ جنوبی دہلی کے جس پارلیمانی حلقہ سے منتخب ہوتے چلے آئے ہیں، وہ دہلی کا سب سے پوش علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ نفرت کے پجاری آج کل سب سے زیادہ کن علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ زہر ان ہی اعلیٰ طبقوں کے لوگوں میں ہے جو بظاہر بڑے مہذب نظر آتے ہیں، لیکن اپنا نمائندہ رمیش بھدوڑی جیسوں کو منتخب کرتے ہیں۔
گزشتہ منگل کو جب پارلیمانی کام کاج پارلیمنٹ کی پرانی عمارت سے نئی عمارت میں منتقل ہوا تو وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں ایستادہ کئے گئے سینگول (راج دنڈ)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمارت نئی ہے ، انتظامات بھی نئے ہیں، لیکن یہاں ماضی اور حال کو جوڑتی ہوئی بڑی وراثت کی علامت بھی موجودہے ۔انھوں نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ چناؤ تو ابھی دور ہے اور اس لوک سبھا میں جتنا وقت باقی ہے ، اس میں ممبران کا طرزعمل یہ طے کرے گا کہ اقتدار میں کون بیٹھے گا اور کون اپوزیشن میں۔آئندہ مہینوں میں ملک اس فرق کا مشاہدہ کرے گا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت صرف ایک نئی عمارت نہیں بلکہ ایک نئی شروعات کی علامت بھی ہے ۔وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کی روشنائی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ان ہی کی پارٹی کے ایک ممبر نے اپنے طرز عمل سے حقیقت عیاں کردی ہے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ آئندہ الیکشن کے بعد نئی پارلیمنٹ میں کون کہاں بیٹھے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مودی جی کی سرپرستی میں ملک کے اندر منافرانہ سیاست کو جو جگہ ملی ہے ،وہ آگے بھی جاری رہے گی۔
یوں تو ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی داستان کافی پرانی ہے اور فسادات کا سلسلہ بھی انگریزوں کے دورمیں انیسویں صدی میں شروع ہوگیا تھا۔آزادی کے بعدکانگریس کے دور حکومت میں مسلمانوں نے ہزارہا فسادات کو اپنے وجود پر جھیلا ہے ، لیکن 2014میں جب سے بی جے پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا ہے تب سے مسلمانوں کی ذہنی،جسمانی اور کاروباری لنچنگ کا خوفناک سلسلہ جاری ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا سب کچھ حکومت کی مرضی سے ہورہا ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس دوران جن شرپسندوں
اور بدترین فرقہ پرستوں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کی دعوت دی ہے ،وہ بدستورآزاد گھوم رہے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ لگاتا ر ہیٹ اسپیچ کے خلاف وارننگ دے رہی ہے ، لیکن حکومت کی مشنری ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے ۔
رمیش بدھوڑی کو لو ک سبھا اسپیکر اوم برلا نے بھی وراننگ دی ہے اور بی جے پی نے انھیں وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کردیا ہے ۔ یہاں تک کہ وزیرداخلہ نے اس معاملے میں معافی بھی مانگی ہے ۔ اپوزیشن نے بدھوڑی کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے ، لیکن اطمینان رکھئے کہ بدھوڑی کا کچھ نہیں بگڑے گا اور وہ2024 کے چناؤمیں بی جے پی کا ایک نمایاں چہرہ بن کرسامنے آئیں گے اور انتخابی جلسوں میں سب سے زیادہ ان ہی کی مانگ ہوگی۔ یہی بی جے پی کی سیاست ہے اور یہی اس میں شامل لوگوں کی تربیت بھی۔ آپ کا احتجاج اور غم وغصہ بھی کچھ دن میں ٹھنڈا پڑجائے گا اور سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔حالانکہ بھدوڑی کا یہ بیان محض ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کی توہین نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے سب سے بڑے جمہوری ادرارے پارلیمنٹ کی بھی توہین ہے ۔