... loading ...
عماد بزدار
عمران حکومت کے خلاف جو آخری تحریک چلی اس کا نام تھا ”مہنگائی مکاؤ مارچ ”۔ آج گذشتہ حکومت کے عہدیدار جس طرح کی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ہم ریاست بچانے آئے تھے ہم ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے آئے تھے پٹرول کو ہزار روپے لٹر سے بچانے آئے تھے تو اس میں کس قدر حقیقت ہے آیئے ان کے اپنے بیانات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ وہ حکومت کیوں تبدیل کرنا چاہتے تھے اور تبدیلی کے بعد کیا تبدیلیاں لیکر آنا چاہ رہے تھے اور یہ کہ کیسے بتدریج اپنے ایک ایک دعوے اور وعدے سے پسپائی اختیار کرتے گئے ۔یہ 27 مارچ ، 2022 کی خبر ہے:۔
”مریم نوازاور حمزہ شہبازکی قیادت میں مسلم لیگ ن کا مہنگائی مارچ لاہورسے روانہ ہو گیا۔حمزہ شہباز
نے کہاکہ عوام کی آنکھوں میں خون اتراہواہے ان کے پاس اپنے بچوںکوکھلانے کیلئے پیسے نہیں”۔
28 مارچ کی خبر کے مطابق
”مہنگائی مکاؤ مارچ ”کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے مزیدکہابات یہ ہے کہ
پاکستان کا سب سے بڑا چوہا ، جو کھا کھا کر موٹا ہوگیا ہے ، اس چوہے کا نام ہے ”عمران خان ”ہے ،
یہ دنیا کا واحد چوہا ہے جو22کروڑ لوگوں کا آٹا کھا گیا، جو 22کروڑ لوگوں کی چینی کھا گیا ، جو22
کروڑ لوگوں کا گھی کھا گیا، ان کی نوکریاں کھا گیا”۔
اس موقع پر قائدحزب اختلاف پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز نے مزید کہا کہ
عمران خان نے نوجوانوں کے خواب چرائے ہیں، اس شخص نے مزدوروں کوبے روزگار کردیا،
پاکستان کی معیشت جو ترقی پر گامزن تھی اس کا دھرن تختہ کردیا، آج بچوں کو دودھ پلانے کیلئے ماں
باپ کے پاس پیسے نہیں ، اپنی بیمار ماں کی ادویات کیلئے پیسے نہیں ہیں۔
مہنگائی مکاؤ مارچ کرتے ہوئے یہ ٹولہ بڑے جوش و خروش سے مسلط ہوا۔ابتدا میں ان کے بیانات کیا تھے ؟12اپریل کی خبر کے مطابق
”وزیراعظم شہباز شریف کے تنخواہوں’ پنشنوں اور مزید سستا معیاری آٹا فراہم کرنے کے اعلان پر
خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ پنشنروں نے اپنی پنشن میں 10فیصد اضافے پر وزیراعظم کیلئے دلی دعائیں کی
ہیں جبکہ کم سے کم ساڑھے 17سے 20ہزار روپے ماہانہ تنخواہ داروں نے اپنی تنخواہ میں یکم اپریل سے
پانچ سے ساڑھے سات ہزار روپے اضافے کو غریب خاندانوں کیلئے مژدہ جان فزاء قرار دیا ہے ”۔
”وزیراعظم کے نام کا اعلان ہونے کے بعد سیاسی صورتحال مستحکم ،روپیہ مزید تگڑا ہوگیا، اسٹاک مارکیٹ
میں تاریخی تیزی دیکھنے میں آئی ،اسی طرح سونے کی قیمت 900روپے فی تولہ کم ہو کر ایک لاکھ 31ہزار
400روپے فی تولہ ہو گئی جبکہ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قیمت میںاضافہ سے انٹربینک میں ڈالر 1.95
روپے کم ہو کر 182.93روپے کا اور اوپن مارکیٹ میں 3روپے کم ہو کر 184روپے کا رہ گیا”۔
13 اپریل مہنگائی میں کمی کیلئے نیشنل اکنامک کونسل بنانے کا فیصلہ، ہفتہ وار 2 کے بجائے ایک تعطیل، افسران کمر کس لیں، ایک لمحہ ضائع نہیں کرنا، وزیراعظم شہباز شریف
شہباز شریف مقررہ دفتری اوقات شروع ہونے سے قبل ہی صبح 8 بجے دفتر پہنچ گئے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے وزیر اعظم شہباز شریف کے جلد آفس پہنچنے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ان سے پہلے والا تو دوپہر سے قبل دفتر ہی نہیں آتا تھا۔وزیر اعظم شہباز شریف گزشتہ روز صبح 7 بجے ہی وزیراعظم آفس پہنچ گئے ،14 اپریل ، 2022شہباز شریف وزیر اعظم ہاؤس کے کھانے پینے کے
اخراجات خود اٹھائیں گے۔15اپریل ایندھن کی کمی فنی خرابیاں، 25 پاور پلانٹس سال سے بند، لوگ لوڈشیڈنگ سے پریشان، ایسی لاپروائی ناقابل برداشت،شہباز شریف جمعرات کو وزیراعظم صبح سات بجے میٹرو بس سروس پرجاری کام کا جائزہ لینے کیلئے پشاور موڑ میٹرو بس کی سائٹ پر پہنچے ۔ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری، 181.60 روپے کا ہوگیا۔16 اپریل ، 2022 باتیں نہ کریں، 15 دن مہنگائی کم ہونی چاہیے ، شہبازشریف معاشی ٹیم پر برس پڑے”۔
چونکہ ان بلند و بانگ دعووں کے باوجود مہنگائی میں کوئی کمی نہیں ہوئی نہ ہی معیشت میں بہتری کے کوئی آثار نظر آئے تو میاں و ہمنوا نے اپنے دست مسیحا سے لوگوں کی امیدوں کو زندہ رکھنے کے لئے ایک نیا سپر مین تخلیق کیا۔ اس سپر مین کا نام اسحاق ڈار تھا۔ اب نیا بیانیہ یہ پیش کیا گیا اگر شروع ہی سے اسحاق ڈار معیشت چلاتے تو اب تک یہاں دودھ اور شہد کی نہریںبہہ رہی ہوتیں۔27 ستمبر ، 2022 کی خبر ہے کہ ”اسحاق ڈار کی واپسی کیساتھ ڈالر کا بھی ریورس گیئر، 4.70روپے سستا”۔۔۔
ڈار صاحب خود کیا فرماتے ہیں
”ایک دن میں صرف ایک دن میں 1350 ارب ہمارا قرضہ کم ہوگیا تھا ”۔
ڈار صاحب نے 28 ستمبر کو وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا اور دس اگست کو اسمبلیاں ختم ہوگئیں۔ اس حساب سے ڈار صاحب کا دور وزارت 317 دنوں پر محیط تھا اگر ایک دن میں روپے کی قدر میں اضافے سے 1350 ارب روپے کا ہمارا قرضہ کم ہوا تو د317 دنوں میں ہمارا قرضہ 427،950 ارب روپے کم ہوجانا چاہیے تھا۔
اس دوران ہمارے اینکر حضرات کو بھی متحرک کردیا گیا کہ ہمارے دکھوں کا مداوا ہوگیا ۔اب قوم بے فکر ہوجائے جیسے سلیم صافی صاحب نے لکھا :۔
”قول نیازی ہے کہ گھبرانا نہیں لیکن ڈار کے آتے ہی ڈالر بھی گھبرا کر نیچے آگیا اور پی ٹی آئی بھی گھبرا گئی”۔
غریدہ فاروقی صاحبہ لکھتی ہیں”اسحاق ڈار کی واپسی شروع ہوتے ہی ڈالر گھبرا گیا ایک ہی دن میں 7 روپے
گر گیا”۔
عاصمہ شیرازی صاحبہ اور غریدہ فاروقی کے پروگرام میں ڈار صاحب نے دعویٰ کیا کہ گو کہ ہمیں محنت زیادہ کرنی پڑے گی لیکن ہم ڈالر کو 160 تک لے آئیں گے ”۔
مریم نواز نے کہا کہ” ان کی میٹنگز جو بنی گالہ میں ہورہی ہیںناں ان کے اپنے لوگوں نے مجھے بتایا کہ ان میٹنگز میں اب بات یہ ہوتی ہے کہ ڈار صاحب واپس آگئے ہیں تو ڈالر کی جو قیمت ہے وہ نیچے آرہی ہے، روپیہ مستحکم ہورہا ہے، اسٹاک مارکیٹ جو ہے وہ بہتری کے سائنز دکھا رہی ہے اوپر جا رہی ہے ڈیزل اور پیٹرول کی پہلی بار کی قیمتیں اس طرح کم ہوئی ہیں اور ڈار صاحب چونکہ ایکسپیرینسڈ آدمی ہیں بہت دفعہ ملک کومعاشی بحرانوں سے نکال چکے ہیں ایسے معاشی بحرانوں سے بھی نکالاجب امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی توتکلیف ان کو اصل میں یہ ہے جو ان کی گفتگو ہے آپس کی وہ یہ ہے کہ اب ڈار صاحب واپس آگئے ہیں،اکانومی کی بہتری کے اشارے مل رہے ہیںاور اکانومی اگر بہتر ہوگئی تو ہمیںکون پوچھے گا”۔
اسحاق ڈار سے بھی جب کچھ نہ بن پڑا تو مریم بی بی نے پسپائی اختیار کرناشروع کیا۔فروری میں مریم کا بیان آیا کہ ن لیگ کی حکومت 29 نومبر کو آئی ، 10اپریل سے 28 نومبر تک لاڈلے کے سرپرست حکمران تھے ”۔
یہ تمام وعدے بلند و بانگ دعوے اور ان سے پسپائی یہاں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہی پرانے اداکار شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ میاں صاحب کو نیا مسیحا بنا کر پیش کرنے لگے ہیں ۔جیسے عدم اعتماد کے وقت سب کچھ نئی حکومت نے بدل دینا تھا ۔گزرتے وقت کے ساتھ سب کچھ مفتاح پر ڈال کراسحاق ڈار کو سپر مین بنایا گیا ۔فرمائشی انٹریو خبریں اور ٹوئٹس کرائے گئے۔جب ڈار صاحب سے بھی کچھ نہیں ہوا تو مریم بی بی کے مطابق 28 نومبرتک ہماری حکومت ہی نہیں تھی۔ کچھ دن گزرنے کے بعد مریم بی بی حکومت کی اونر شپ لینے سے مکمل انکاری ہوگئی ۔ 16 فروری کو مریم بی بی نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا یہ میری حکومت نہیں، ہماری تب ہوگی جب نواز شریف یہاں ہونگے ”۔
آخر میں ابراہیم ذوق کا یہ شعر مریم بی بی کی خدمت میں
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
٭٭٭