... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
میرے ملک کے جمیع” حکمران ” اختیارات کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔اس لیے انہیں صرف ملکی خزانے نظر آتے ہیں ،غریب عوام کی خالی جیبیں دکھائی نہیں دیتیں۔ان کی کوشش ہے کہ ”حقِ حکمرانی ” ہاتھ سے جانے سے پہلے پہلے ملکی خزانے کی ایک ایک پائی سات سمندر پار واقع اُن کے سوئس بنک اکاؤنٹوں تک پوری رازداری سے پہنچا دی جائے۔ کیونکہ کسے خبر ہے کہ کل”حکمرانی کا یہ تاج ” اُن کے سر پر سجا رہے یا نہ رہے۔اِن ”اہل حکمرانوں” کو پاکستان اسٹیل مل ایک ”کباڑ خانہ ” نظرآتی ہے، جسے یہ ایک لے پالک بچے کی طرح کسی بھی من پسند”ساجھے دار” کی جھولی میں ”ازراہِ کمیشن ”بالکل بے دام ہی ڈالنے کے لیے مرے جارہے ہیں، لیکن انہیں اپنی ”سونا اُگلتیں فیکٹریاں”ملک کا قیمتی اثاثہ دکھائی دیتی ہیں ۔جنہیں ترقی دینے کے لیے یہ ملک کے ہر بینک سے وسیع تر ملکی مفاد میں خوب قرضے لے بھی رہے ہیں اور اُنہیں معاف بھی کروا رہے ہیں۔
میرے ملک کاسابقہ لاڈلا، حالیہ قیدی نمبر943اور منافرت کا چالاک”کھلاڑی” ایک بے ایمان ایمپائر کی نظرو ں سے ہماری اِس حسین دنیا کو دیکھتا ہے۔ اس لیے اُسے اپنے خلاف کیے جانا والا ہرمنصف کا ہر فیصلہ ہی انتہائی غیر منصفانہ اور ”بچگانہ” سا نظر آتا ہے ۔جس پر اُس کے پیروکار، سوشل میڈیا پر ہر پوسٹ ، ہرٹوئٹ اور ہر وی لاگ میں خوب جی بھر کر ایوانِ عدل کو طعن و طشنیع کا نشانہ بناتے ہوئے کوس رہے ہیں، اس اُمید پر کہ شاید منصفوں کو کوسنے دینے سے اُن کے رہنماکو مستقبل میں ملنے والی متوقع سزاؤں میں کچھ کمی واقع ہوجائے ۔لیکن اِن ”نونہالوں”کو سابق صدر پاکستان فاروق لغاری ، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو ، سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اورسابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے خلاف سنائے جانے والے سارے کے سارے فیصلے ”مدبرانہ ” اور مبنی بر انصاف نظر آتے ہیں ۔
میرے ملک کی بیوروکریٹ اپنے ماتھے کے ”اُوپر ” چڑھی ہوئی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہے ۔اس لیے اگر انہیں فائل کے اُوپر ”کُچھ چائے پانی” رکھ کر نہ دیا جائے تو یہ فائل کو کاغذوں کے قبرستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور اِن کے مشاق فنکارانہ ہاتھوں سے دفن کی ہوئی فائلیں ان کے علاوہ کوئی اور دوسرا پھر سے زندہ بھی نہیں کرسکتا ۔فائلیں زندہ کرنے اور فائلوں کو پَر لگانے کا منتر صرف ایک گھاگ بیوروکریٹ ہی جانتا ہے اور وہ منتر ہے ”اُوپر کی کمائی” ۔اس منتر سے بیوروکریسی کی” دفتری ِ اقلیم ”کا ہر دروازہ آسانی سے کھولا جاسکتا ہے اور جب کوئی ادارہ ان کی ممنوع دنیا میں بغیر اس منتر تنتر کے داخلے کی کوشش کرتا ہے تو یہ آگ بگولہ ہوکر دفتروں کو تالے لگاکر قلم چھوڑ ہڑتال شروع کردیتے ہیں تاکہ ان کے چہیتے اور کماؤ پوت ”اعظم خانوں” کو منطقی انجام تک پہنچایا نہ جاسکے۔
میرے ملک کے سرمایہ دار ”منافع ” کی سفید آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں ۔اس لیے اُنہیں ”زائد المیعاد ” روزمرہ استعمال کی عام سی اشیاء میں پوشیدہ ہزاروں جان لیوا خطرات میں سے ایک بھی خطرہ نظر نہیں آتا کہ ان سب کی نظریں صرف اور صرف اپنے حاصل ہونے والے منافع پر جمی ہوئی ہوتیں ہیں۔ شاید اسی لیے یہ اپنی غیر معیاری چیزوں کے اعلیٰ معیار کی قسمیں کھا کھا کر سادہ لوح گاہکوں کو بیچتے ہیں کہ اس طرح مال فروخت کرنے سے بھلے ہی برکت ختم ہوجائے مگر ان کا منافع کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔ یہ سرمایہ دار اتنے عقلمند ہیں کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی ایک بھی چیز کو نہ تو خود ہاتھ لگاتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت دیتے ہیں ۔ ان کے حلق میں تو پانی بھی صرف ”امپورٹڈ” ہی اُترتا ہے کیونکہ یہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ اُن کی برادری سے تعلق رکھنے والے دیگر سرمایہ دار بھی ”منافع” کی سفید آنکھوں سے ہی دنیا کو دیکھتے ہیں۔
میرے ملک کے جاگیر دار ”بدمست طاقت ” کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں ۔اس لیے یہ اپنے مقابل ہر شخص کو فقط اپنا مزارع یا غلام سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے ،یہ ہی وجہ ہے عبدالمجید اچکزئی جیسے قبائلی سردار اور جاگیردار اپنی لینڈ کروزر کے سامنے آنے والے غریب ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ کوفقط اس لیے کچل دیتے ہیں کہ اس کے نزدیک اپنی تیزرفتار گاڑی کو بریک لگانا،اُسکی جاگیردارانہ قبائلی آن ،بان اور شان کے سخت خلاف تھا اور شاہ رخ جتوئی جیسا عفریت جوشاہ زیب خان کو صرف اس گستاخی پر قتل کردیتے ہیں کہ اُس نے شاہ رخ جتوئی کے ناپاک ارادوں سے اپنی بہن کو بچانے کی ایک چھوٹی سی غلطی کرنے کی جسارت کی تھی۔
میرے ملک کے تنگ نظر مذہبی رہنما ”چندے ”ماہتاب کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں ۔اس لیے اُنہیں ہر ذخیرہ اندوز،رشوت طلب کرنے والا، منافع خور اور ظالم شخص صرف اس لیے دین اسلام کا مدد گار اور فرشتہ صفت نظر آتا ہے کہ وہ ان کی طرف سے کاٹی گئی ”چندے کی رسیدوں ” میں لکھی ہوئی من چاہی رقمیں ، بغیر کسی چوں چراں کیے فوراًان کو ”ہدیہ”کر دیتا ہے جس کے جواب میں یہ اُسے ”پروانہ بخشش” عنایت کرکے کسی بھی رنگ و نور سے سجی پاک صاف محفلِ نعت یا میلاد میں ”مہمانِ خصوصی ” کی مسندِ عالیشان پر اپنی دستار سے بھی اُوپر بٹھا دیتے ہیں۔
میرے ملک کے دانشور ”مصلحت” کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں ۔اس لیے فی الحال یہ کسی بھی موضوع پر یقین سے کچھ نہیں کہہ پارہے کیونکہ انہیں کچھ بھی یقین سے کہنے سے پہلے ”رائے عامہ” کی ہواؤں کا رُخ دیکھ رہے ہیںتاکہ ان کی عوامی مقبولیت برقرار رہے ۔یہ دانش ور، ایسی بات کہنے سے اپنے آپ کو روک لینے میں خاص مہارت رکھتے ہیں جن سے ان کی شہرت کی بلندی میں کمی واقع ہونا کا ذرہ برابر بھی اندیشہ پایا جاتا ہو ،چاہے پھر وہ بات کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں یہ ہر اُس بات کو کہنے میں ذرا تامل یا تاخیر سے کام نہیں لیتے جس سے انہیں سوشل میڈیا پر لائک، شیئر، ٹیگ اور ویوز کی صورت میں شہرت اور پیسہ ملنے کی ذرہ برابر بھی اُمید ہو۔چاہے پھر یہ بات کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔میرے ملک کے صاحبِ عظمت و جلال اور بااختیار لوگ جن آنکھوں سے بھی چاہیں اِس دنیا کو دیکھتے ہوں ،مگر سب سے زیادہ اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ آپ کن آنکھوں سے اپنی اِس خوب صورت دنیا کو دیکھتے ہیں ؟
٭٭٭٭٭٭٭