... loading ...
ریاض احمدچودھری
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ایک مقبول ترین عمل ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے اس نسبت سے یہ جہاں شانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثل ہونے کی دلیل ہے وہاں اس عملِ خاص کی فضیلت بھی حسین پیرائے میں اجاگر ہوتی ہے کہ یہ وہ مقدس عملِ ہے جو ہمیشہ کے لئے لازوال، لافانی اور تغیر کے اثرات سے محفوظ ہے کیونکہ نہ خدا کی ذات کیلئے فنا ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی انتہا۔بعض اللہ والے ایسے ہوتے ہیں جو خود کو شہرت سے دور رکھتے ہیں مگر ان کی فیض رساں شخصیت بے شمار عقیدتوں کا مرکز ہوتی ہے۔ جالندھر کی ایک ایسی ہی ممتاز روحانی شخصیت سید عبدالعزیز شرقی تھے ۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے تیس سے زائد حج کیے بعد ازاں وہ مدینہ منورہ میں مقیم ہوگئے جہاں وہ مسجد نبوی میں روزانہ اصحاب صفہ کے ستون کے پاس بیٹھا کرتے اور درود و سلام اور وظائف پڑھنے میں مصروف رہتے۔
راقم الحروف کو دوسری بار 1986 میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کرنے کا موقع ملا۔ اس سال جنرل ضیاء الحق شہید بھی اپنی فیملی کے ساتھ حج پر گئے ہوئے تھے۔ ان سے ملاقات بھی رہی۔ وہ سید عبدالعزیز شرقی مرحوم کو اصحاب صفہ کے پاس تلاش کر رہے تھے کیونکہ وہ عام طورپر یہیں بیٹھا کرتے تھے۔ جب شرقی صاحب وہاں نہ ملے تو مدینہ منورہ میں پی آئی اے کے دفتر میں جہاں ان کے صاحبزادے فضل لرحمن ملازم تھے ، ان سے دریافت کرنے وہاں جا پہنچے۔ کچھ دیر بعد میں بھی پی آئی اے کے دفتر پہنچا تو میںنے پوچھا فضل الرحمن صاحب کہاں ہیں۔ تو مجھے بتایا گیا کہ وہ جنرل صاحب کو اپنے والد سے ملوانے گھر گئے ہیں۔ میں بھی شرقی صاحب سے ملاقات کیلئے ان کے گھر پہنچا وہاں انہوں نے انکشاف کیا کہ اہل مدینہ ایام حج میں نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد نبوی نہیں جاتے۔ تاکہ رش کے باعث اللہ کے مہمانوں کومشکلات پیش نہ آئیں۔ وہاں جنرل صاحب نے الحاج عبدالعزیز شرقی صاحب کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔
شرقی صاحب پہلے ملتان میں ہی قیام پزیر تھے۔ ہجرت کے وقت ممتاز شاعر اور دانشور جناب ماہر القادری بھی ہجرت کر کے پاکستان آئے تو انہوں نے کچھ عرصہ ملتان میں قیام کیا تھا۔ شرقی صاحب یوں تو کئی بار میرے ہاں کھانے پر تشریف لاچکے تھے۔ 1986 میں جب وہ جنرل صاحب کی دعوت پر ملتان آئے تو مجھے ان کے ہمراہ اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ اسلام آباد کی فلائٹ تقریباً تین گھنٹے لیٹ تھی تو شرقی صاحب سے کافی دیر تک ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں بات چیت ہوتی رہی۔ اس کے بعد جہاز میں بھی اکٹھے سفر کیا۔ راستے میں تاریخی واقعات پر بات ہوتی رہی۔ پاکستان میں کچھ دن قیام کے بعد وہ واپس مدینہ منورہ چلے گئے جہاں چند برس پہلے ان کی رحلت ہوگئی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ بہت عظیم انسان تھے۔ وہ خوش الہانی کے ساتھ میلاد کی محافل میں اپنا لکھا ہوا درود و سلام سنایا کرتے تھے۔
شرقی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک بار ماہر القادری حج کیلئے سعودی عرب میں تھے اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ کسی نے ماہر القادری صاحب کے طبع شدہ درود و سلام کی کاپی ان کو پیش کی۔ پیش کرنے والے کو قطعاً علم نہ تھا کہ میں ہی ماہر القادری ہوں۔ جیسے ہی ماہر القادری نے اپنا کلام دیکھا تو سجدہ شکر بجالائے ۔ کہنے لگے کہ اب مجھے روز محشر حضورۖ کی شفاعت کا یقین ہوگیا ہے۔ نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہِ و سلم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ اسلام پرانی ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہِ و سلم کے دور میں ہی نعت پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ عہد نبوی کے نعت خوانوں میں ایک بڑا نام حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے۔ عہد نبوی سے لے کر اب تک نعت خوانی کا سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ معیاری نعت کہنا، پڑھنا اور سننا بڑے شرف کی بات ہے۔ صحیح اور بلند مضامین کی نعت سے حب ِ رسول ۖ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایمان میں تازگی آتی ہے۔ خیالوں میں شادابی پیدا ہوتی ہے اور دل ودماغ میں روحانی سرور کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔
نعت گوئی کا اولین محرک مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ آنحضرت ۖکا ذکر کرنا،آپۖ کی سیرت و شخصیت سے عوام کو روشناس کرانا،آپۖ کی پیروی و تقلید کی ترغیب دینا اور آپۖ پر درود وسلام بھیجنا کار ثواب اور ذریعہ نجات ہے۔ مسلمان چھٹی صدی عیسوی میں اپنے انقلاب آفریں عقائد کے ساتھ عرب کی سرزمین سے نکل کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوئے اور توحید و رسالت کا آفاقی پیغام دیتے رہے۔عربی فارسی اور دیگر زبانوں کا شاید ہی کوئی مسلمان شاعر ایسا ہو جس نے نعت کی صورت میں حضور سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار نہ کیا ہوبلکہ اکثر غیر مسلم شعرا نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔نعتوں کا جتنا بڑا ذخیرہ عربی فارسی اور اردو میں موجود ہے وہ کسی اور زبان میں نظر نہیں آتا۔