... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،وکالت بڑا مقدس پیشہ ہے، وکیل ہونا آج کل کے دور میں کسی نعمت سے کم نہیں۔ پاکستان کے بانی بھی اپنے وقت کے نامور اور مہنگے ترین وکیل تھے۔ ہمارے چچا ، بھائی، کزن اور بہن بھی وکیل ہیں، خود ہم نے وکالت بیچ راستے میں چھوڑ کر صحافت کا پلو تھاما۔۔ اس لیے اگر وکیل اور وکالت کے حوالے سے ہماری اوٹ پٹانگ باتوں سے کسی کا دماغ گھومے تو اسے کسی قریب دیوار پر دے مارے، کیوں کہ ہماری عادت ہے اوٹ پٹانگ لکھنا،کسی کے دماغ گھومنے کا ہم نے کوئی ٹھیکا نہیں لے رکھا۔۔
سردار لطیف کھوسہ آج کل خبروں میں بہت چل رہے ہیں، ان کے حوالے سے ان کے حلقے میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ وہ اپنے کسی کلائنٹ کے مقدمے میں پیش ہوئے، جج نے انہیں دیکھا کہ اتنے بڑا وکیل ایک چھوٹی عدالت میں روبرو پیش ہوا ہے، تو تکلف میں پڑکر کہنے لگا۔۔ کھوسہ صاحب آپ دلائل رہنے دیں، میں آپ کے موکل کو ضمانت دے رہا ہوں۔ کھوسہ صاحب ضد پر اڑگئے کہ نہیں، عدالت پہلے دلائل سنے پھر فیصلہ دے۔۔ پھر کھوسہ صاحب نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، دلائل ایک گھنٹے تک جاری رہے، جج نے دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ۔۔ ایک گھنٹے بعد فیصلہ سنایاجائے گا۔ ایک گھنٹے بعد جو فیصلہ آیا ، کھوسہ صاحب کے کلائنٹ کی ضمانت مسترد ہوگئی۔۔کہتے ہیں کہ کسی وکیل صاحب نے قانون کی پریکٹس میں کافی پیسہ کمایا۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت نامہ لکھوایا۔ چونکہ بے اولاد تھے اس لیے اپنی وصیت میں انہوں نے کہا کہ میری ساری دولت اور جائیداد میرے مرنے کے بعد پاگل لوگوں میں تقسیم کر دی جائے، کسی نے اس کار خیر کی وجہ پوچھی تو وکیل صاحب نے جواب دیا۔میرے پاس جو کچھ ہے وہ پاگلوں ہی سے تو مجھے ملا ہے۔۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون کا کاروبار پاگل انسانوں کے ذریعہ دنیا میں قائم ہے، آدمی انتقام کے جوش میں آ کر کسی کو قتل کر دیتا ہے، کوئی شخص کسی کی جائیداد ہڑپ کر لیتا ہے ۔کوئی حسد اور بغض کا شکار ہو کر کسی کو پریشان کرنا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو بے بس پا کر اس کو عدالت کے شکنجہ میں الجھانے کے لیے اس کے اوپر جھوٹے مقدمے قائم کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعہ وکیلوں کی تجارت قائم ہے۔
ایک دن شہر کے مشہور وکیل اپنی بڑی سی گاڑی میں ایک سڑک سے گزرے۔ قریب ہی دیکھا کہ دو افراد بیٹھے سڑک کے کناروں پر لگی ہوئی گھاس اکھاڑ اکھاڑ کر کھا رہے ہیں۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ اس نے جلدی سے گاڑی رکوائی تا کہ چھان بین کر سکے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ لوگ بے حد غریب ہیں اور کھانا کھانے کے ان کے پاس کچھ نہیں ہے اس لیے وہ گھاس کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔یہ سن کر وکیل بولا۔ ”تم میرے ساتھ چلو” ۔گھاس کھانے والوں میں سے ایک نے کہا۔۔”لیکن جناب! میری بیوی اور تین بچے کہاں جائیں گے؟” وکیل نے کچھ سوچا اور بولا۔ ”انہیں بھی ساتھ لے چلو” ۔ وکیل نے دوسرے شخص کی جانب دیکھا جو رحم طلب نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ وکیل نے اسے بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ جس پر وہ گھبراتے ہوئے بولا۔ ”لیکن جناب میری بیوی اور پانچ بچے ہیں” ۔وکیل نے ہنس کر کہا۔”بہت خوب تم بھی اپنے بیوی بچے ساتھ لے لو”۔ دونوں خاندان پھنس پھنسا کر وکیل کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جب گاڑی چل پڑی تو ایک شخص مشکور نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا: ”جناب! آپ بڑے رحم دل اور سخی آدمی ہیں’ آپ کا بے حد شکریہ۔ آپ اب ہمیں کہاں لے کر جا رہے ہیں؟” ۔۔وکیل نے ترچھی نظر سے سوال کرنے والے کو دیکھا اور انتہائی اطمینان سے جواب دیا۔۔”کوئی مسئلہ ہی نہیں’ میرے گھر کے باغ کی گھاس ایک فٹ سے بھی زیادہ اونچی ہو گئی ہے” ۔
ایک وکیل نے ڈاکٹر سے پوچھا، کیا آپ نے پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے لاش کی نبض چیک کی تھی، ڈاکٹر نے جواب دیا نہیں، وکیل نے پوچھا بلڈ پریشر چیک کیا تھا، ڈاکٹر کا جواب تھا نہیں، وکیل نے استفسار کیا سانس چیک کی، ڈاکٹر نے ایک مرتبہ پھر نفی میں جواب دیا۔ وکیل نے کہا کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ متوفی اس وقت تک زندہ ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا بالکل نہیں کہ اس وقت اس لاش کا دماغ الگ سے کمرے میں میز پر رکھا ہوا تھا۔ وکیل نے کہا، بہت خوب، مگر کیا اس کے باوجودیہ ممکن نہیں کہ وہ پھر بھی زندہ ہو۔ ڈاکٹر نے جواب دیا ممکن تو یہ بھی ہے کہ اس نے وکالت کا امتحان پاس کر لیا ہو اور اس وقت مجھ پر جرح کر رہا ہو۔اسی طرح ایک دوسرے مقدمے میں وکیل نے ڈاکٹر سے پوچھا، آپ نے کس وقت متوفی کا پوسٹ مارٹم شروع کیا، جواب ملا رات ساڑھے دس بجے، وکیل صاحب نے پوچھا کیا اس وقت متوفی وفات پا چکے تھے، ڈاکٹر نے جواب دیا نہیں وہ میرے ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ایک وکیل اپنے دوستوں میں بیٹھا گپ شپ کررہا تھا۔۔ اچانک کہنے لگا۔۔ بچپن کی عمر بھی عجیب ہوتی ہے۔ ایک بار میں نے فلم بہرام ڈاکو کو دیکھی تو دل میں بڑا ہو کر ڈاکو بننے کی خواہش کرنے لگا ۔۔ یہ سن کر ایک دوست نے برجستہ کہا۔۔ ”جناب! آپ بڑے خوش قسمت ہیں’ ورنہ اس دنیا میں بہت کم خواہشات پوری ہوتی ہیں”۔
لاء کالج کے اسٹوڈنٹ کے ایک گروپ نے وکیل صاحب سے پوچھا۔سر! وکالت کے کیا معنی ہیں؟وکیل صاحب نے کہا ،میں اس کے لیے ایک مثال دیتا ہوں،مان لو کہ میرے پاس دو آدمی آتے ہیں۔ ایک بالکل صاف ستھرا اور دوسرا بہت گندہ ہے۔ اب میں ان دونوں کو صلاح دیتاہوں کہ وہ دونوں نہا کر صاف ستھرے ہو جائیں۔اب آپ لوگ بتائیں کہ ان میں سے کون نہائے گا؟۔۔ایک اسٹوڈنٹ نے کہا۔ جو گندہ ہے وہ نہائے گا۔وکیل نے کہا، نہیں صرف صاف آدمی ہی نہائے گا کیونکہ اسے صفائی کی عادت ہے جب کہ گندے آدمی کو تو صفائی کی اہمیت ہی نہیں معلوم۔اس کے بعد وکیل نے پھر پوچھا، اب بتاؤ کون نہائے گا؟دوسرے اسٹوڈنٹ نے کہا، صاف آدمی۔۔وکیل بولا، نہیں گندہ شخص نہائے گا کیونکہ کہ اسے صفائی کی ضرورت ہے ، وکیل نے پھر سوال کیا۔اب بتاؤ کون نہائے گا؟ دونوں اسٹوڈنٹ ایک ساتھ بولے کہ۔۔جو گندہ ہے وہ نہائے گا۔۔وکیل نے کہا، نہیں دونوں نہائیں گے کیونکہ صاف آدمی کو نہانے کی عادت ہے اور گندے آدمی کو نہانے کی ضرورت ہے۔وکیل کا اگلا سوال تھا،اب بتاؤ کون نہائے گا؟ سب اسٹوڈنٹ ساتھ بولے جی دونوں نہائیں گے۔۔وکیل نے کہا، غلط! کوئی بھی نہیں نہائے گا ،کیونکہ گندے کو نہانے کی عادت نہیں اور صاف آدمی کو نہانے کی ضرورت نہیں۔وکیل کا پھر سے سوال تھا کہ بتاؤ اب کون نہائے گا؟؟ ایک اسٹوڈنٹ نے جھلا کر کہا۔۔ا سر آپ ہر بار الگ الگ جواب دیتے ہیں اورہر جواب صحیح معلوم پڑتا ہے توہمیں صحیح جواب کیسے معلوم ہو گا؟ اسٹوڈنٹ کی بات سن کر وکیل صاحب مسکرائے اور کہنے لگے۔۔ بس یہی وکالت ہے۔ اہم یہ نہیں کہ حقیقت کیا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کتنی ممکنہ دلیل دے سکتے ہیں! کیا سمجھے؟ نہیں سمجھے؟ یہی وکالت ہے!
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی آبادی اور دوسرا مردانہ کمزوری ہے،اگر دوسرا مسئلہ نہ ہوتا تو سوچیں پہلا مسئلہ کتنا بڑا ہوتا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔