... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔
قیام پاکستان سے خوشحالی کی امید لیے چلتے چلتے آج ہم اس مقام پر آکھڑے ہیں جہاں بدقسمتی سے ہر طرف خوف اور موت کے سائے ہیں ،پیچھے جا نہیں سکتے اور آگے کھائی ہے۔ گزرے ہوئے ان سالوں میں ایک قوم بننا تو درکنار ہم مذہبی بھی نہ بن سکے۔ سنی اور شیعہ لڑائی میں جو قتل غارت ہوئی وہ ناقابل معافی اور ناقابل تلافی نقصان تھا ،اس پر بھی ہم نہ سنبھل سکے۔ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے کے مسلمان کی مسجد میں جاکر نماز پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔ یہ نفرت اور رویہ قیام پاکستان سے پہلے تو نہ تھا لاالہ کے نام پر بننے والے پاکستان میں یہ دنگا فساد ایک سازش تو تھی ہی لیکن اس کے آلہ کار بننے والے ملا ،مولوی ،رہنما اور سیاستدان تھے جنہوں نے مال ودولت سے اپنی جھولیا ں بھر کر عوام کو جھولی پھیلانے پر مجبور کردیا۔آج نہ صرف ہم مذہبی طور پر تقسیم ہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی تقسیم ہوچکے ہیں۔ قومی ادارے کھوکھلے ہو چکے ہیں ۔عوام بدحال ہو چکی ہے اور سیاستدان مالا مال ہوچکے ہیں ۔ملتان سے ملک وقوم کا درد رکھنے والے سیاستدان خلیل خان نورزئی نے اس صورتحال پر بہت خوبصورت تبصرہ کیا ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جو سب سے پہلی ذمہ داری امت بنانے کی تھی وہ تھی دینی جماعتوں کی لیکن دینی جماعتوں نے اپنا یہ فریضہ اپنے وقت پر ادا نہیں کیا اور انہوں نے اپنی اپنی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے نئی قوم کو جماعتوں میں تقسیم کرکے خود بھی تقسیم ہوئے اور اپنے نظریات کے ذریعے نئی بنتی ہوئی قوم کو بھی تقسیم کر دیا۔اگر آپ انگریزوں کے آنے سے پہلے یا 1800 سے پہلے کی تاریخ دیکھیں تو نہ کوئی وہابی تھا نہ دیوبندی تھا نہ بریلوی تھا بلکہ سبھی مسلمان تھے۔ انسان کی ایک نفسیات بھی ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا معتقد ہو جاتا ہے اور پھر اس شخصیت کو اپنے اوپر حاوی کرکے اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔ اس کو خوشی محسوس ہوتی ہے اس وجہ سے لوگوں نے ان دینی طبقوں کے جو مشہور حضرات تھے جنہوں نے اپنی طرف سے تو اسلام کی خدمت کی لیکن وہ لوگ جو اسلام کی اس خدمت کو خود تو نہ کر سکے لیکن انہوں نے ان کے نام کو اپنے نام کیساتھ ملا کر زندگی کو جینا شروع کیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ شروع ہوا اور قوم جو ہے وہ تقسیم ہوتی چلی گئی قائد اعظم کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا وہ اللہ جانے اور قائد اعظم جانے لیکن انہوں نے ملک پاکستان بنا کے دیا اللہ کی مہربانی سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کرم نوازی سے۔ اب ان دینی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ یہ اسلام کااصل تشخص جو ہے وہ قوم میں بیدار کرتے ۔قوم کو اس اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند کرتے اور قوم کو اس سطح پہ لے آتے کہ یہ ایک قوم کی شکل اختیار کرکے ایک مسلمان قوم یعنی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حصہ بن جاتی ہے لیکن ان لوگوں نے یہ موقع ضائع کر دیا اور اپنی اپنی جماعتوں میں لوگوں کو تقسیم کر دیا۔ اب عام لوگ جو ہوتے ہیں ان کی جب تک تعلیم و تربیت صحیح نہ ہو تو وہ خام مال کی طرح ہی رہتے ہیں۔ یہ ان سے ان کی سب سے بڑی غلطی ہوئی اگر یہ قوم کو اس وقت جو کہ قوم بننے والی تھی یعنی کوئی کہیں سے تھا تو کوئی کہیں سے تھا کو اس وقت اگر یہ قوم بن جاتی تو آج یہ دنیا کی بہترین امت اور بہترین مسلمان قوم ہوتی، پھر اس پر ظلم یہ کہ ان دینی جماعتوں کے سرداروں نے مفتیوں نے قوم کو آج تک اکٹھا نہیں ہونے دیا۔ اگر یہ اکٹھا ہونے دیتے تو قوم سیاسی طور پہ بھی مختلف جماعتوں میں تقسیم نہ ہوتی کیونکہ ان کے اندر تقسیم کا عمل جو ہے وہ نہ پنپتا۔ اگر یہ ذمہ داری علمائے دین لیتے وہ اس قوم کو متحد کرتے اور ان کو بنیادی اسلامی دینی تعلیمات سے متعارف کرواتے تو آج بلا شبہ ہم صفائی ستھرائی میں ،ایمانداری میں،حب الوطنی میں ،خوشحالی میں،بھائی چارے میں ،امن وامان میں ،خودداری میں اور گھر داری میں دنیا ہماری مثال دیتی اور یہ ذمہ داری ہماری دینی جماعتوں اور علماء کرام کی تھی لیکن ہوا اس کے برعکس آج ہم میں ان میں سے کوئی صفت بھی موجود نہیں بلکہ اوپر سے لیکر نیچے تک چور بازاری کا بازار گرم ہے۔ لوٹ گھسوٹ اپنے عروج پر ہے شخصیات پرستی کا رنگ لوگوں نے اپنے اوپر چڑھایا ہوا ہے اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔اب اس کا حل یہ ہے کہ یہ دینی جماعتیں جو ہیں یہ اپنے اپنی طبقات یا اپنی اپنی جماعتوں کی پیروی چھوڑ کر ایک مسلمان امت بن جائیں اور پھر قوم کو دینی تعلیم کا سبق دیں قوم کو اس لیول پہ لے آئیں کہ یہ مسلمان کہلانے کی خود کو مستحق سمجھے اوراس پر فخر بھی کرے کیوں کہ پاکستان کے وجود کا مقصد ہی یہیں سے شروع ہوتا ہے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔
اب سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ جس کام کی ابتدا ہی لاالہ اللہ سے ہو اور پھراس کے باوجود ہم رسوائی ،بدنامی اور بھکاریوں والی زندگی گزار رہے ہو تو سب سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ اس کلمہ کے باوجود معاشی پریشانیاں سیاسی پریشانیاں، معاشرتی پریشانیاںاور سماجی پریشانیاں ہمارا ہی مقدر کیوں بنی ہوئی ہیں آج تو تعلیم عام ہے یہاں علامہ بھی ہیں ،مفتی بھی ہیں بڑے بڑے سیاستدان بھی ہیں اور اسٹبلشمنٹ بھی ہے۔ اس کے باوجود اب حالات یہ ہیں کہ بنے بنائے پاکستان کو نہ سیاسی لوگ خوشحال بنا سکیں نہ دینی لوگ پاکستان کوپائیدار بنا سکے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ اسے مضبوط بنا سکی اور یہ سب مل کر بھی آج تک اس قوم کو قوم نہ بنا سکے اور ملک کو ملک نہ بنا سکے جو ہمارا دشمن تھا اور ہے وہ کاغذوں میں یا حقیقت میں چاند پہ بھی پہنچ گیا۔ اس نے ہم سے بڑھ کر کوریڈور بنا لیا اس نے دنیا کی مسلمان پیسے والی حکومتیں بھی اپنے ساتھ ملا لی اور ہم منہ دیکھتے رہ گئے کیونکہ دنیا بھر کے حکمرانوں کو علم ہو گیا تھا کہ پاکستان کے حکمران چور ہیں۔ اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ ان سب نے مل کر آج تک پاکستان کے لیے کوئی کام نہیں کیا، بلکہ ملک توڑا ،لوٹا اور پھر ملک سے فرار ہوئے۔ پاکستان 75 سالوں سے اسی بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ آزادی کے بعد بھی ہمیں آزاد نہیں ہونے دیا گیا۔ ابھی چند دن پہلے ملک میں پی ڈی ایم کی حکومت تھی جسے ایک سازش کے ذریعے مسلط کیا گیا جنہوں نے آتے ہی قومی خزانہ کو مال غنیمت سمجھ کر ہاتھ صاف کیا۔عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری اور بھوک کی چکی میںخوب رگڑا دیا اور پھر آخری قطرہ بھی نچوڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس قوم کو شعور اور ملک کو ترقی دینے والے عمران خان کے خلاف سب مل گئے اور پھرجو حشر اس کے ورکروں کا ہوا وہ قابل افسوس ہے۔ اس صورتحال کے بعد صرف وہی آگے ہوںگے جو خود بھی کماتے ہیں دوسروں کو بھی خوش رکھتے ہیں اور انکے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔ نامم نہاد پیر اور گدی نشین جو اپنے مریدوں کو سیدھا نہیں کر سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب ملکر پاکستان کے بارے میں سوچیں کہ علماء کرام قوم کو کیسے ایک بہترین عمدہ امت محمدیہ کا حصہ بنا سکیں اور ان کے اندر اسلامی شعور، انسانی شعور ،معاشرتی شعور ،سیاسی شعور اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا شعور پیدا کر سکیں تب ہی ہم ایک بہترین قوم اور ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں۔
ہمیں تو لوٹ لیا مل کے سیاستدانوں نے