وجود

... loading ...

وجود

نوازشریف کی واپسی ،فائدے اور نقصانات

پیر 25 ستمبر 2023 نوازشریف کی واپسی ،فائدے اور نقصانات

راؤ محمد شاہد اقبال

 

نواز شریف کی واپسی ملکی معیشت کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کے لیے تو شاید اتنی ضرور ی نہ ہو،جتنا کہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے رنگ آمیزی کی جاری ہے ۔مگر بہرکیف پارٹی کی اعلان کردہ تاریخ پر نوازشریف کا ملک میں واپس آکر بھرپور انتخابی مہم چلانا اگلے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی انتخابی جیت کے لیے لازم و ملزوم ہے ۔ جبکہ اگلے قومی انتخابات سے پہلے نوازشریف کے ملک میںواپس نہ ہونے سے اتنا زیادہ سیاسی فائدہ اٹک جیل میں ایام ِ اسیری کاٹنے والے عمران خان کو نہیں ہوگا ،جتنا اِس بات کا انتخابی فائدہ اُٹھانے کا منصوبہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے ذہن رَسا میں پنپ رہا ہے۔ بظاہر بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قومی ذرائع ابلاغ میں تاثر یہ دیا جارہاہے کہ وہ اور اُن کی جماعت میاں محمد نوازشریف کو قومی انتخابات کی انتخابی مہم کا آغاز ہونے سے پہلے ملک کے اندر دیکھنا چاہتی ہے ۔ لیکن دوسری جانب بلاول کی جانب سے ایسے سیاسی بیانات بھی تسلسل کے ساتھ دیئے جارہے ہیں ، جن سے یہ تاثر اُبھرتاہے کہ اگر نوازشریف ملک میں واپس آکر انتخابی مہم کی پیشوائی کرتے ہیں تو یہ سراسر مقتدار حلقوں کے ساتھ اُن کی خفیہ ڈیل کا نتیجہ ہوگا۔
یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ جیسے جیسے قومی انتخابات قریب آتے جارہے ہیں ،ویسے ویسے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی اختلافات، ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بیان بازی کی صورت میں شدت اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ کیونکہ دونوں سیاسی جماعتوںکے درمیان انتخابات سے قبل صف آراء ہونا بالکل ایک فطری عمل ہے ۔خاص طور پر جب معاملہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ انتخابی نشستیں حاصل کرکے وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہونے کا ہو تو پھر دونوں طرف کے سیاسی قائدین کا ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور انداز میں پنجہ آزمائی کرنا بھی بنتاہے۔ مگر انتخاب جیتنے کے لیے کی جانے والی” انتخابی لڑائی” اور ایک دوسرے کو رسوا کرنے کے لیے کی جانے والی ” ذاتیاتی لڑائی ”میں بہت فرق ہوتاہے۔ فی الحال ہم پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں جسم قسم کی سیاسی معرکہ آرائی ملاحظہ کر رہے ہیں ۔ اُسے کم سے کم اگلے قومی انتخابات جیتنے کے لیئے ہونے والی صرف ہلکی پھلکی ”انتخابی لڑئی ” تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اندیشہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔جس کا سب سے بڑا اور ناقابل تردید ثبوت ،مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کا میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان سیز فائر کروانے کے لیئے منظر عام پر سامنے آنا ہے۔
یاد رہے کہ چوہدری شجاعت حسین ایک انتہائی زیرک اور بردبار سیاست دان ہیں ،جو فقط خبر بننے یا خبر بنانے کے لیئے کبھی بھی کسی سیاسی معاملہ کے بیچ میں اپنی ٹانگ نہیں اڑاتے ۔ہاں ! سیاسی معاملات سنگین ہوجائیں تو پھر وہ پس منظر سے پیش منظر میں آنے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کرتے ۔اِس بار بھی شایدمعاملہ سنگین کے ساتھ ساتھ کچھ رنگین بھی ہوگیا ہے اور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کے درمیان اگلے انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل اور عہدوں کی بندر بانٹ پر ابھی سے شدید اختلافات اور ابہامات پیدا ہوگئے ہیں۔ دراصل آصف علی زرداری کا موقف یہ ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد میاں محمد شہباز شریف کو وزیراعظم بناتے ہوئے یہ طے پایا تھا کہ اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوگا۔ جبکہ اِس معاملہ پر مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا یہ کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی میں سے جس سیاسی جماعت کو بھی اگلے قومی انتخابات میں عددی برتری حاصل ہو جائے گی تو اُس کا حکومت بنانے کا حق تسلیم کرلیاجائے گا اور برتری رکھنے والی جماعت کی نمبر گیم پی ڈی ایم تمام جماعتیں مل کر پورا کردیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ پیپلزپارٹی انتخابات میں اقلیتی جماعت بن کر سامنے آئے اور مسلم لیگ ن اکثریتی جماعت ہونے کی صورت میں بھی پیپلزپارٹی کے وزیراعظم کے حق میں رضاکارانہ دست بردار ہوجائے۔
اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہاں مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف کی دلیل بالکل درست محسوس ہوتی ہے کہ ہر سیاسی جماعت بھرپور قوت کے ساتھ اگلے قومی انتخابات میں حصہ لے اور جو بھی جماعت بعد از نتائج سرفہرست رہے ۔وزیراعظم کا قرعہ فال اُسی سیاسی جماعت کے نام نکال دیا جائے ۔ مگر یہاں پاکستان پیپلزپارٹی کو اندیشہ یہ لاحق ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنا جھکاؤ مسلم لیگ ن کے سیاسی پلڑے کی جانب کردیا تو پھر مسلم لیگ ن تنہا صوبہ پنجاب کے بل بوتے پر ہی عددی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لہٰذا، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ کسی طرح سے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے ،جب مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے آپسی تعلقات کشیدہ ہوجائیں ۔ یہ جو ٹی وی چینلزپر اچانک سے اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان فاصلے اور دوریاں پیدا کرنے کے حوالے سے خبریں ، تجزیے اور بحث و مباحثہ نشر ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ اِن سب کے پیچھے مقصد یہ ہی ہے کسی طرح مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائے جانے والے پرانے اختلافات کو ہوا دے کر بجھتی ہوئی چنگاری کو ایک بار پھر سے آگ کے روشن الاؤ میں تبدیل کیا جائے ۔
دوسری جانب مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو پریشانی یہ ہے کہ کہیں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کے لیے ہونے والی رسہ کشی کے نتیجے میں سب کچھ ہی اُلٹ پلٹ کر رہ نہ جائے اورحالات اُس نہج پر نہ پہنچ جائیں ،جہاں سیاست دان صرف مہمان اداکار بن کر رہ جائیں ۔ اِس لیے چوہدری شجاعت حسین مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان عارضی سیز فائر کروانے کے لیئے سامنے آئے ہیں ۔ اَب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موصوف دونوں سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو اقتدار کے تقسیم کے کسی ایک متفقہ فارمولے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تو ہمارا خیال یہ ہے وہ اپنے مقصد میں سو فیصد کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ آصف علی زرداری ہوں یا پھر میاں محمد نوازشریف یہ دونوں رہنما اپنے سیاسی اختلافات کو کسی بھی صورت میں اُس آخری حد تک نہیں لے کر جائیں گے ،جہاںاُن کے لیے ایوانِ اقتدار کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتے ہوں ۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر