وجود

... loading ...

وجود

ایک نئی صبح کی تلاش

پیر 25 ستمبر 2023 ایک نئی صبح کی تلاش

عطا محمد تبسم

صبح فجر کے بعدایک سفر درپیش تھا ، نماز کے بعد میں نے چائے کی فرمائش کی تو اہلیہ نے گیس نہ آنے کی نوید سنائی ۔ صبح سویرے گھروں میں گیس نہیں آتی ۔ شام کو بھی گیس کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ ہماری زندگیوں میں دیکھتے ہی دیکھتے کتنی تبدیلی آگئی ، سحر خیزی کی جگہ اب دن چڑھے گھروں میں چولہے جلتے ہیں، اکثر بچوں کو بغیر ناشتہ یا ڈبل روٹی اور دودھ چائے پر ہی اسکول بھیج دیا جاتا ہے ۔ پیٹرول کے دام بڑھتے جارہے ہیں ، اور بجلی گیس کو مہنگا کرکے عوام کی کھال کھینچی جارہی ہے ، عوام کی کھال بھی بہت موٹی ہوگئی ہے ، اسے کچھ فرق ہی نہیں پڑتا۔ حکمران ٹولہ اشرافیہ کو دی جانے والی اربوں کی مفت بجلی گیس پیٹرول اور دوسری بے شمار مراعات بند کر کے مالی وسائل بڑھا نے پر تیار نہیں ہے ۔ وہ مسلسل اپنے تیر آزما رہے ہیں، اور عوام اپنے صبر کو آزما رہے ہیں۔ لیکن چند دن کے حکمرانوں کو لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے ، انھیں عوام کو ریلیف دینا چاہیے ، ڈالر کی قیمت کم ہونے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے ، آٹا اور روٹی کی قیمت کم ہونی چاہئے ، پیٹرول کی قیمت کم ہونی چاہئے ، اشیاء صرف کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہئے ۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو پھر وہ وقت قریب آجائے گا، جب تخت اور تاج اچھالے جائیں گے اور راج ہوگا خلق خدا کا ۔ اس کے بعد حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے ۔آئی ایم ایف کو آنے والے خطرات کا شاید اندازہ ہے تب ہی تو نگران وزیر اعظم سے آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ امیروں پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیروں پر عملاً کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے اگر کچھ رقم وہ ٹیکس کے نام پر دیتے بھی ہیں تو اس سے کئی گنا مالیت کی مراعات حاصل کرلیتے ہیں ۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی مغربی دنیا کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے کیا گیا ہے ۔ لیکن ابھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ واقعی الیکشن ان تاریخوں پر ہوجائیں گے ۔
پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے کروڑوں دماغ سوچتے ہیں، لیکن ملک کے وسائل پر ایک مخصوص ٹولہ قابض ہے ۔ جو ان کی فکر سے استفادہ نہیں کرتا ۔ یہ ٹولہ ملک پر 76 سال سے قابض ہے ، ابتدائی دو تین سال کے علاوہ اس ٹولے نے پاکستان میں اپنی حکمرانی قائم کر رکھی ہے ، جو ہمارے وسائل پر قابض ہے ، سیاست دان ، اشرافیہ ، اور اسٹیبلشمنٹ کا تکون جو باری باری حکومت کرتے ہیں، آج مادر پدر آزاد ڈالر اور تیل کی قیمتوں پر شور کرنے سے بہتر ہے ہم اس معاشی دلدل میں پھنسنے کے وجوہات ڈھونڈلیں۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب 2016 میں پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرکے خدا حافظ کہہ دیا اور اس وقت کے وزیراعظم نے قوم کو خوشخبری دی تھی کہ مزید آئی ایم ایف قرضوں کی ضرورت نہیں ہوگی ، تو ملک کو معاشی بدحالی کی دلدل میں کس نے دھکیلا تھا۔ مشرف دور کے دس سال نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو آج پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا ہوتا۔ نگران حکومت سے پہلے پی ڈ ی ایم کی حکومت نے جو معاہدے کئے ہیں، وہ ملک کو غلامی میں دینے اور معاشی نظام کو تباہ کرنے والا ہے ۔ ایک معاشی طور پر مستحکم ملک کیسے چند سالوں میں اس حال پر پہنچا کہ آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے اتنا بے بس ہے کہ مجبورا ڈالر اور پٹرول کی قیمت کو آزاد چھوڑ دیا ہے ؟ سادہ سا جواب ہے کہ “مقتدر حلقوں کے درمیان کرسی کی جنگ کی جاری ہے ۔ ایک کو گرا کو دوسرے کو اٹھانے کا یہ کھیل جانے کب تک جاری رہے گا۔
پاکستان دنیا کی نویں بڑی افرادی قوت ہے ۔دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے ۔ ہر سال اس کی افرادی قوت میں ایک بڑا اضافہ ہوتا ہے ۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای)کی رپورٹ ملک بھر میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک سنگین تصویر دکھاتی ہے ۔ ملک میں اس وقت 24 فیصد سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد بے روزگار ہیں۔ملک سے ذہین افراد بیرون ملک جار ہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ملک میں 40 فیصد تعلیم یافتہ خواتین بے روزگار ہیں۔یہاں ‘تعلیم یافتہ’ کی اصطلاح سے مراد وہ افراد ہیں جنہوں نے انڈر گریجویٹ یا گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے ۔یہاں محکمہ تعلیم کے استاد سے لے کر ایک چپراسی کی نوکری کے لیے بھی لاکھوں افراد درخواست دیتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے چپراسی کی نوکری کیلئے ایم فل ڈگری یافتہ سمیت 15 لاکھ افراد نے درخواست دی تھی ۔ یہ سب ورلڈ یکارڈ بھی ہم نے اس دور میں قائم کیے ہیں۔ بے روزگاری پر کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ حکومتی سطح پر کوئی تحقیق نہیں کی جا رہی ۔اس طرح کے تمام مطالعے بیرون ملک سے کیے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار گمراہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا اس پر ہم نے کچھ سوچ بچار کیا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیپرا سمیت تما م اہم بل جو پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے ہیں۔ وہ باہر بیٹھے افراد نے بنائے ہیں۔ ملک میں ریسرچ کے لیے بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئی ہیں لیکن ان میں کوئی تحقیق نہیں کی جارہی۔تحقیق ہماری جامعات اور اداروں سے رخصت ہوگئی ہے ۔ پاکستان کو تبدیل کرنے کے لیے بہت محنت اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے ، جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے ۔ عوام کو ان سیاست دانوں کا محاسبہ کرنا چاہئے ، ان پارٹیوں کو منتخب کرنا چاہئے ، جو ملک کو ایک واضح پروگرام کے تحت خوشحالی کی طرف لے جاسکیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر