... loading ...
عماد بزدار
فیس بک ، ٹوئٹر یا گوگل ،کہیں بھی آپ مولانا آزاد کی پیشین گوئیاں لکھیں توآپ کو پتہ چلتا ہے مولانا نے پاکستان کے بنتے وقت پاکستان کے بارے میں کچھ پیشین گوئیاں کیں جو حرف بہ حرف حقیقت ثابت ہوئیں۔ بد قسمتی سے یہی بات اپنے ٹی وی شو میں کامران خان نے بھی بتائی کہ مولانا آزاد کتنے بڑے صاحب بصیرت تھے۔پہلے ایسی باتیں تیئس مارچ یا چودہ اگست جیسے خاص موقعوں پر ایک مخصوص مکتبہ فکر پیش کرکے قوم کی ” فکری رہنمائی ” کا فریضہ سرانجام دیا کرتی تھی اب تو یہ روز کا معاملہ لگتا ہے۔ اس کے پیچھے مقصد یہی ہے کہ نئی نسل کو یہ بتایا جائے کہ تقسیم کے وقت کوئی ویژنری لیڈر تھے تو وہ مولانا آزاد تھے ۔محمد علی جناح کا فیصلہ گویا جلد بازی، ضد اور بصیرت سے خالی تھا۔
پیشین گوئیوں کی حقیقت پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ ہندو لیڈر شپ مولانا آزاد کی رائے کو کس قدر اہمیت دیتے تھے۔یہ بات جاننا اس لئے ضروری ہے کہ نئی نسل کو پتہ چلے ایسا کیا ان کے پاس متبادل تھا۔ جو محمد علی جناح کی ” انتہا پسندی” کی نذر ہوگیا۔
دو اگست کو مولانا آزاد نے گاندھی کو ایک خط لکھا جس میں بتایا کہ پاکستان اسکیم کو میرا ذہن تسلیم نہیں کرتا البتہ مسلمانوں کے خدشات درست ہیں پھر انہوں نے اپنے تجاویز دیں کہ یہ سب کچھ ہو تو پاکستان کے متبادل کے طور پر مسلمانوں کے حق میں بہتر رہے گا۔ جواب میں گاندھی نے مولانا آزاد کو ٹال دیا کہ اپ فرقہ وارانہ مسئلے پر بات نہیں کرو گے کانگریس ورکنگ کمیٹی اس پر بات کرے گی۔ اس پر ایچ ایم سیروائی لکھتے ہیں کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی نے کبھی ان تجاویزپر بات نہیں کی۔ اور اس خط کا تذکرہ نہ ٹنڈولکر نے اپنی کتاب میں کیا نہ مولانا آزاد نے۔
اسی طرح ایم او متھائی جو کہ نہرو کے پرنسپل سیکریٹری تھے “نہرو دور کی یادیں ” میں لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد نے بطور صدر کانگریس گاندھی اور کانگرس ورکنگ کمیٹی کو بتائے بغیرکیبنٹ مشن کو ایک خط لکھا ۔ متھائی کے مطابق سدھیر گوش کے ذریعے گاندھی نے کیبنٹ مشن سے اس خط کی نقل عاریتاً حاصل کرلی۔ گاندھی وہ خط پڑھ کر فارغ ہوئے کہ مولانا آزاد آگئے۔ گاندھی نے مولانا آزاد سے پوچھا کہ آپ نے کیبنٹ مشن کو کوئی خط لکھا ؟ مولانا نے کوئی بھی خط لکھنے سے انکار کردیا۔مولانا آزاد بظاہر تو کانگرس کے صدر تھے لیکن ایسے واقعات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بطور صدر ان کے فیصلے کس قدر آزادانہ ہوا کرتے تھے اور ہندو لیڈر شپ ان پر کس حد تک اعتماد کرتی تھی۔
اب آتے ہیں پیشین گوئیوں کی طرف ۔ابو سلمان شاہجہانپوری جو پاک و ہند میں آزاد پر اتھارٹی مانے جاتے تھے اور مولانا آزادکی فکر کے مبلغ تھے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے سخت ناقدین میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو بتاؤں کہ انہوںنے ماہنامہ سیپ کے شمارے میں ان پیشین گوئیوں کے بارے میں کیا کہا ، میں بانی پاکستان کے بارے میں ان کی رائے کی ایک جھلک ان کی کتاب سے پیش کرتا ہوں:۔
” درحقیقت جناح صاحب کی شخصیت اور سیرت میں ایسی خوبی تھی ہی نہیں کہ ان پر کوئی سوانح نگار قلم اٹھاتا۔جناح صاحب کی شخصیت کا پس منظر ، ان کا خاندان ، ان کے بزرگ، ان کا بچپن ، ان کی تعلیم ،اساتذہ، دوست ، ان سے تعلقات ،دلچسپی کے پہلو، ان کے کھیل، ان کے سماجی، تعلیمی،تہذیبی پہلو ان کا مطالعہ، ان کی تفریحات ،تجربات ، مشاہدات ،ان کے عادات ،اطوار،ان کی ملنساری،احباب نوازی، مذہبی، علمی ، اخلاقی، مسلمانوں اور اسلام دشمنی اور ان کے پس منظر کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو بچوں کو پڑھایا جائے اور ان میں موضوع علیہ شخصیت کی پیروی اور ان جیسا بننے کا شوق پیدا ہو۔اس دنیا میں ایک ہستی ایسی تھی جو ان سے متاثر ہوئی ، ان کے عشق میں مبتلا ہوئی ، اپنے ماں باپ کو چھوڑا ، ان کی زوجیت کو قبول کیا لیکن جب شوہر کے حق ازدواج ادا کرنے کا وقت آیا تو اس نے بیوی کو مایوس کردیا۔ وہ ایک ہسپتال میں شوہر کو یاد کرتے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر گئی”۔
ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری ، ابوالکلام آزاد پر سندہی نہ رکھتے تھے بلکہ وہ ان کے سچے عاشق بھی تھے اور قائد اعظم کے متعلق بھی اُن کے خیالات مذکورہ الفاظ سے بالکل واضح ہیں۔ اب ابوالکلام کی پیشن گوئیوں کے متعلق اُن کی گواہی پڑھ لیجیے۔ ماہنامہ سیپ کے٨٣ ویں شمارے میں صفحہ نمبر دو سو چوہتر پر ابو سلمان شاہجہانپوری کا انٹرویو موجود ہے جس میں ان سے سوال ہوتا ہے کہ”ڈاکٹرجاوید نے مزید پوچھا کہ ایک مشہور ٹی وی چینل پر مولانا ابو الکلام آزاد کی ایک تقریر نشر کی گئی آپ چونکہ مولانا آزاد پر اتھارٹی ہیں اس لئے آپ بہتر بتا سکتے ہیں کہ یہ تقریر کہاں سے حاصل کی گئی ہے؟ فرمایا ” جناب والا! ابو الکلام کی یہ تقریر محض فراڈ ہے ۔میرے ایک شاگرد قاری یوسف نے مختلف تقریروں کے ٹکڑے جوڑ کر خود اپنی آواز میں ریکارڈنگ کرائی ہے، کہیں کلکتہ کہیں دہلی،اور کہیں کانگرس کی میٹنگ کے خطاب سے جستہ جستہ چمن میں بکھری داستان کے ورق اٹھا کر تقریر بنا ڈالی ہے۔ مجھ سے کہا تھا کہ آپ ایک مبسوط تقریر مولانا کی بنا لیں مگر میں نے صریح انکار کردیا کہ یہ قوم سے بھی مذاق ہے اور مولانا کی بھی تضحیک ہے۔ میں اس علمی فراڈ میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اسے بھی روکا مگر وہ نہ مانے اور اب تو ایک چینل نے بھی نشر کردی”۔
یہ ان پیشین گوئیوں کی حقیقت ہے جن کو بنیاد بنا کر کچھ مخصوص حلقے بانی پاکستان اور پاکستان کے مقدمے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کے ملک کے موجودہ مسائل کے بارے میں رائے مختلف ہوسکتی ہے ،ان مسائل کے حل کے بارے بھی ہم الگ الگ رائے رکھ سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مایوسی اور پروپیگنڈا کا شکار ہوکر اپنی ہی بنیادوں پر کلہاڑا چلانا شروع کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔