... loading ...
عطااللہ ذکی ابڑو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
28 ستمبرکی تاریخ بخشو کا جنم دن ہے اور وہ میرے ساتھ اداس بیٹھا ہے میں نے وجہ پوچھی؟ تو بولا صاحب؟ کیک کے بغیر سالگرہ کی خوشی کتنی ادھوری سی لگتی ہے اورمیرے پاس اپنی اس چھوٹی سے خواہش کو پورا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ اس پر ستم یہ نکلا کہ کے الیکٹرک کا سرچڑھ کربولتا بل جمع کرانے کی آخری تاریخ بھی 28 ستمبرآچکی ہے؟ میں نے سوچا بخشو سمیت کتنے اورایسے ہوں گے جن کی سالگرہ، شادی بیاہ اورمنگنی کی تاریخیں آتی ہیں اورصرف اس لیے رک جاتیں ہوں گی کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں؟ بخشو بولا صاحب یہ پیسہ ہمارے پاس تو نہیں ہے؟ آخر یہ جاتا کہاں ہے؟ میں نے کہا بخشو کو سب بتادوں کہ یہ پیسہ ہمیں چھوتا ہوا امیروں کی تجوریوں میں چلا جاتا ہے؟ بخشو پھربول اٹھا؟ میری کسی کوفکرنہیں؟ ان سے تو میرے فیس بک والے دوست ہی اچھے ہیں جو ایک دن پہلے سالگرہ کے ایموجی بھیج کرمبارکباد کا تانتا باندھ دیتے ہیں۔ قسم سے پچاسیوں تو کیک آجاتے ہیں، دعائیں دینے کا انبارلگ جاتا ہے اورسچ تویہ کہ میں ان کی محبتوں کا مقروض ہوچکا ہوں؟ بخشو کے جذبات آنکھوں سے چھلک پڑے۔
میں نے بڑی مشکل سے انہیں واپس دھکیلا؟ اوردلاسہ دیتے ہوئے بولا بخشوتو فکرنہ کراس سال یہ سارے امیرزادے بھی اپنی سالگرہ دھوم دھام سے نہیں مناسکیں گے؟ یہ سب ریڈار پرآچکے ہیں؟ ملکی عدالتیں اور احتساب کے ادارے ان کیخلاف پکڑدھکڑکے لیے سرگرم ہیں۔ ان امیروں کوبس اپنا مال ٹھکانے لگانے کی فکر ہے جب سے تیرا شناختی کارڈ بنوایا ہے مجھے اب تیری بھی فکر ہونے لگی ہے کہ یوسف ٹھیلے والے کی طرح کہیں پھر سے زمین کا کوئی ٹکڑا اورخفیہ خزانے کا کوئی اکاؤنٹ تیرے نام پر بھی نہ نکل آئے؟ اب تو خفیہ گوداموں پر بھی چھاپے پڑ رہے ہیں وہاں سے چینی، گندم، چنا، چھالیہ اوردالوں کی بوریاں نکل رہی ہیں؟ فیکٹریاں سیل ہورہی ہیں؟ ہرطرف مال ہی مال بکھرا پڑا ہے ۔اب ساری چیزیں سستی ہوجائیں گی ہم بھی ایک اچھا اورسستا سا کیک لاکر تیری سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائیں گے؟ بخشو بولا صاحب پانچ ہزار کے نوٹ کی طرح کچھ بھی نہیں بدلنے والا؟ ان کے خلاف گواہ اور ثبوت پیش کرتے کرتے کیس ہی ختم ہوجائے گا؟ اور کسی عدالت سے کوئی فیصلہ نہیں آئے گا؟ صاحب آپ صرف الیکشن کی تیاری کریں ،سنا ہے یہ نوے روز بعد ہونے والے ہیں۔ حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع ہونے کے ٹھیک 54 دن بعد جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں الیکشن الیکشن کا کھیل کھیلا جائیگا؟ اوراقتدار کٹہرے میں کھڑا کرنے کے قابل ان شرفا کے حوالے کردیا جائے گا، میں نے کہا نہیں بخشونہیں اس بار ایسا ہوتا بظاہر تو نہیں لگتا پر ہوبھی سکتا ہے؟ تیرا مطلب ہے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے، نیب کے چکر، خفیہ ایجنسیوں کے چھاپے، کرپشن مافیا کے خلاف آپریشن کیا یہ سارا ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا؟ یعنی کوئی کسی کے ہاتھ نہیں آئے گا؟ اور یہ جو نیب میں کرپٹ افسران،کرپٹ شخصیات کیخلاف میگا کرپشن کے یہ جو سارے شواہد ہیں سب کے سب بے کارجائیں گے؟ بخشو بڑی رازداری میں بولا صاحب یہ سب الیکشن تک کا کھیل ہے میں تو کہتا ہوں یہ الیکشن کی تاریخ نہیں؟ بس یوں سمجھ لیں ان سیاستدانوں کے سالگرہ، شادی بیاہ اور بھنگڑے ڈالنے کے دن آنیوالے ہیں، اب یہ سارے بڑے دھوم دھام سے بن سنورکر الیکشن مہم کے دوران ایک ایک تقریب جائیں گے اور بڑی دھوم دھام سے اسے منائیں گے بلکہ کئی ایک نے توجنازوں کی فہرستیں بھی بنوالی ہیں اور تعزیت کے لیے گڑے مردے بھی اکھاڑ کرمیدان میں لے آئیں گے؟ ان سارے سیاستدانوں نے چھاپوں؟ ناکوں؟ احتساب ریفرنسز اورچھان بین کے ڈر سے اوپر والوں سے اپنی اپنی سیٹنگ پکی کرلی ہے اب کچے کے ڈاکو بھی پکے میں نظرآنے لگیں گے؟ اب صرف سیٹھ کا بیٹا ہی سیٹ پر نظرآئے گا؟ ایسے میں بھلا کون چاہے گا کہ اپنا پیسہ قومی خزانے میں ڈال کر ثواب دارین حاصل کرے؟ میں سوچ میں پڑگیا کہ میرا بخشو بھی کتنا سادہ سا ہے مگرکبھی بات بڑی گہری کرجاتا ہے واقعی ہمارے خالی ہونے والے قومی خزانے کو بھرنے کا ٹھیکہ تو اب آئی ایم ایف کے پاس ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے عالمی ادارے نے گود لے لیا ہے۔ یہ جب بھی خالی ہوتا ہے ایک قسط آجاتی ہے اور سارے سیاستدانوں اسے تہہ تک خالی کرنے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں اورہم اس خزانے کو بھرنے کے لیے بڑی باقاعدگی سے ہرمہینے آنے والے بجلی،گیس اور پانی کے بل کی صورت میں بھرنے میں لگ جاتے ہیں؟ اورپھرسے اگلے ماہ کی قسط بھرنے کی خاطراپنی دیہاڑی پرنکل جاتے ہیں؟ بخشو بولامجھے تو لگتا ہے کہ اس عالمی سرکارسے یہ سارا ٹھیکہ انہی سیاستدانوں نے مک مکا کررکھا ہے ان کی ذمہ داری تو بس اپنا کمیشن رکھ کربڑی ذمہ داری سے اپنا کام کرنا ہے،گیس پانی اور بجلی کے بل بھرنے کے لیے ہماری لمبی لمبی لائنیں دیکھ کرعالمی ادارے کی ایم ڈی سے بھی رہا نہ گیا، کرسٹینا لینا جارجیوا نگراں وزیراعظم صاحب سے ملاقات میں بولیں آخر یہ غریب بھی تو انسان ہیں انسانیت کے ناطے ان کا بھی کچھ خیال کرلیا کریں، تھوڑا امیروں پربھی ٹیکس لگا دیں تاکہ ان غریبوں کا بوجھ ہلکا ہوجائے؟ اس بات پر نگراں وزیراعظم صاحب بولے میڈیم ہمارا کام تو بس الیکشن تک 90 دن کا ہی رہ گیا ہے ۔آپ ایک نئی قسط کے بہانے پھرسے چکرلگانا ہمارے بعد آنے والی سرکارآپ کی یہ خواہش بآسانی پوری کردے گی؟ ہم توسرکاری افسران کوملنے والی مفت بجلی اور پیٹرول کی سہولیات بھی ختم نہیں کرسکتے اتنی بڑی ذمہ داری اکیلے کیسے اٹھالیں؟ یہ کہہ کر وزیراعظم نے میڈم کی کہی درخواست پر ایکبارپھر نظر ڈالی اور پھر نیپرا کی جانب سے آنے والی بجلی کا فی یونٹ میں 3 روپے 28 پیسے اضافہ کرنے کی سمری پر ایک سرسری نظر ڈال کر اس کی بڑی بیدردی کے ساتھ پھرسے اس کی منظوری دے ڈالی؟