وجود

... loading ...

وجود

ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پیر 18 ستمبر 2023 ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے گزشتہ روز تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیرکی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جا سکے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم فل کورٹ میٹنگ میں تھے، ہم نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔ درخواست گزار کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بنیچ مل کر کام کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینیئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے، ہمیں مناسب یہی لگا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کون سی درخواست میں وکیل ہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا، اس پر آپ کیا دلائل دیں گے؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں، اُس کا کیا ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کو سننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، ’پارلیمنٹ اومنی پوٹینٹ ہے‘ کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا، آپ فوکس رکھیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں، آج کی بات کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگرقانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس عائشہ اے ملک نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ اگر فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنی مرضی سے دلائل دیں اور بنیچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟ بتائیں پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، اپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی  جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کہا کہتا ہے؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا، آئین اور قانون دونوں کا الگ کیا گیا اس پر آپ کی کیا تشریح ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے ہیں اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بینچ کی تشکیل سے متلعق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا ہارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی یے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کی کوئی ذاتی دلچسبی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے، رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججز کے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ جس شق پر آپ کو اعتراض ہے آپ کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اپ اس پر مطمئن ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو، آپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس 2 سینئیر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں، آپ نہیں چاہتے، آپ سے کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بےاخیتار سا نہیں کردیا گیا؟ خواجہ طارق رحیم کے جواب دینے ہر چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر جواب دینے لگ گئے ہیں، میں نے صرف کہا کہ ابھی صرف نوٹ کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں یہی سمجھا کہ آپ مطمئن ہی پرانے ماڈل سے ہیں، آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کی بجائے آئینی ترامیم نہیں ہونی چاہیے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایکٹ کا سیکشن فور 1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا، کیا اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ میرا بھی ایک سوال اپنی فہرست میں شامل کر لیں، اگر 17 جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں تو ٹھیک ہے پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے؟ آپ کا پورا کیس یہی ہے نا؟ یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے 100 سوالات میں اصل مدعا تو گم ہو جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 199 کے اندر اپیل کا حق دیا گیا تھا تو کیا وہ غلط تھا؟ ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے وہ ٹھیک تھے؟ اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں، جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئین سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی، خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلمینٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، میں تو پھر آپ کی درخواست 10 سال نہ لگاؤں تو آپ کیا کریں گے، آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ریکوڈک کیس میں ملک کو 615 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں نہیں لوں گا، آپ ابھی جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہیں تو ہمیں عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کروا سکتے ہیں۔ وکیل خواجہ طارق رحیم کے بعد دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا، اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟ پارلمینٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا، چیف جسٹس نے تو 2 سینیئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔ جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں، آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسجیر کے لیے ہو سکتا ہے۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہو سکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر ہی نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے؟ عوام پارلمینٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، اس ملک میں کئی بار مارشل لا لگا، میں فیصلوں کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ میں 57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں، پارلیمنٹ اگر بہتری لانا چاہ رہی ہے تو اسے سمجھ کیوں نہیں رہے؟ اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق جواب دیں۔ اس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں، سب سوالات کے جوابات دوں گا۔ اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھی؟ جسٹس منصور شاہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب ہم جو بولے جا رہے ہیں آپ وہ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلمینٹ یہ نہیں بنا سکتی؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی فرد واحد کو لامحدود ناقابل احتساب اختیار دیا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں صرف یہ بتادیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ آئینی اختیارات میں مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے معاشرے میں ہر مرتبہ مارشل لاء لگانے والے آمر کو 98.6 فیصد ووٹ ملتے ہیں، ہم قانون کو جانچنے کیلئے ریفرنڈم نہیں کروا سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے قانون اچھاہے لیکن طریقہ کار غلط اپنایا گیا، عدلیہ کو خود اختیارات کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کون ہوتا ہے کہ کمیٹی تین رکنی ہی ہوگی، 5 رکنی کمیٹی کیوں نہیں کرسکتی، کیا پارلیمنٹ فیملی کیسز سننے کیلئے 7 رکنی بنچ تشکیل دینے کا قانون بناسکتی ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے رولز کی ہی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی جانب سے دیے گئے فیصلے بھی قانون ہی ہوتے ہیں، ججز کے فیصلوں سے بنائے گئے قوانین کے خلاف پارلیمان قانون سازی کیسے کر سکتی ہے، کیا پارلیمان عدالتی فیصلوں کو قانون سازی کے ذریعے بے اثر بھی کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 3 ججز کا بینچ بنانا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے تو 17 ججز کا اختیار ایک جج کو دینا کیسے درست ہے؟ دوران سماعت جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ساتھی ججز سے گزارش ہے کہ پہلے وکیل صاحب کو دلائل دینے دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معاملہ عدلیہ کی انتظامیہ امور میں پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کا ہے، امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور سپریم کورٹ کے رولز الگ الگ ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو کے رولز جب چیلنج ہوں گے تو دیکھیں گے، آپ سپریم کورٹ رولز بتائیں۔ چیف جسٹس کے بار بار ٹوکنے پر وکیل امتیاز صدیقی غصے میں آ کر بولے کہ آپ مجھے کہتے ہیں دلائل دیں، میں دلائل دیتا ہوں تو اپ ٹوک دیتے ہیں، میں آدھے گھنٹے سے آپ کو سن رہا ہوں، صبر کے ساتھ میرے دلائل بھی سنیں، آپ اگر میری تضحیک کریں گے تو میں دلائل نہیں دوں گا۔ دریں اثنا عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں دوپہر 3 بجے تک وقفہ کر دیا۔ وقفے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اُٹھا رہی ہیں، میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی، قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں، اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ 1962 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا، یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے، قانون کےزریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گے ہیں، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا، میں آرٹیکل 191 کی طرف جاؤں گا میں بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں اس کی اہمیت کیا ہے، آپ نے دلائل درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر شروع کئے تھے وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نکات پر بات شروع کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائی کورٹ سے کم اختیارات ہیں، پاکستان میں کئی چیزیں خلاف آئین ہو رہی ہیں مگر وہ 184/3 میں نہیں آتی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے، ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں، ہمیں 184/3 اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ درخواست گز ار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کے لیے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ درخواست گزار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے، فل کورٹ کے سامنے معاملہ ہے اس لیے مدعا سامنے رکھا ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے، جسٹس اعجاز الا احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے، دوسری جانب بھی یہی مدعا ہے، قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے کیا پہلے ہائی کورٹ نہیں جانا چاہیےتھے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے بھی ایک مقدمہ میں کہا کہ ہائی کورٹس سپریم کورٹ سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں، ایک قانون بات ہی سپریم کورٹ کے اختیارات کی کر رہا ہے تو ہائی کورٹ میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اگر یہ دونوں ایک ہی ہیں تو آئین سازوں نے کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں لکھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا اور اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سوال نوٹ کریں جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں خود کو الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے تھے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے، کیا وہ گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایکڈیمک بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، سول مقدمات میں 60 دن کے اندر نظر ثانی دائر ہوتی ہے میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کے خلاف ہے، اگر میں بینچ بنانے سے انکار کر دوں چھٹی پر چلا جاؤں تو مجھے کون روک سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس 2019 سے اب تک نہیں ہوا، زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہو گئے ہیں، ہم نے اگر یہ سب کام نہیں کرنے تو سرکار سے پیسہ کیوں لے رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ رولز کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے، ایکٹ کی دفعہ دو سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں مزید شفافیت کے لیے بنایا گیا، اس کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات تقسیم کیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی دلیل پر کہا کہ یہ کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل آپ نے بہترین طریقے سے بتا دیا، جب زیادہ دماغ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تو کام زیادہ شفافیت سے ہو گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا دوبارہ پارلیمنٹ کو لگا کر 3 کے بجائے 17 جج بیٹھ کر بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ کریں تو وہ بدل دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ضروری نہیں بار بار پارلیمنٹ پر سوال اٹھایا جائے، اگر سپریم کورٹ میں اتنے مقدمے زیر التوا نہ ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ نہ کرتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ امریکی مثالیں دیتے ہیں تو امریکی سپریم کورٹ کی دیں، امریکی صدر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بس 20 منٹ ہیں، جب تک کوئی قانون خلاف آئین نہ ہو تواس کی حمایت کرنی چاہیے، اگر زیر التوا کیسز اتنے زیادہ نہ ہوتے اور کچھ فیصلے نہ آئے ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ قانون نہ لاتی۔واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کے خلاف دائر درخواستوں کی آج ہونے والی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیا تھا۔


متعلقہ خبریں


عزم استحکام نئے آپریشن کا نام نہیں،کوئی بے گھر نہیں ہوگا،آرمی چیف وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

  آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث فتنہ الخوارج کے خاتمے تک ہم انہیں جہاں پائیں گے، وہیں ان کی سرکوبی کریں گے، جب تک اس فتنے کا اختتام نہ ہوجائے ۔غیرملکی شہ پر فساد فی الارض برپا کرنے والوں پر آئندہ بھی زمین تنگ رہے گی۔غیرملکی شہ پ...

عزم استحکام نئے آپریشن کا نام نہیں،کوئی بے گھر نہیں ہوگا،آرمی چیف

چیئرمین نیب اورتمہیں باہرنکل کرنہیں چھوڑوں گا،عمران خان کی تفتیشی افسر کوتنبیہ وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

  پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے تفتیشی افسر محسن ہارون کو دھمکی دی کہ باہرنکل کرتمہیں اورچیئرمین نیب کونہیں چھوڑوں گا۔اڈیالا جیل میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ کے نئے ریفرنس کی سماع...

چیئرمین نیب اورتمہیں باہرنکل کرنہیں چھوڑوں گا،عمران خان کی تفتیشی افسر کوتنبیہ

اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے میں آپریشن، 40فلسطینی شہید وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

اسرائیلی فوج کا مقبوضہ مغربی کنارے میں آپریشن جاری ہے، صیہونی افواج نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں میں گزشتہ 9 روز کے دوران 6بچوں سمیت مزید 40فلسطینیوں کو شہید کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق آپریشن کے دوران اسرائیلی فوج نے بلڈوزروں سے فلسطینیوں کی املاک، گاڑیوں، سڑکوں کی توڑ ...

اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے میں آپریشن، 40فلسطینی شہید

36 خواتین اساتذہ 10 سال سے غیرحاضر وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

  محکمہ تعلیم سندھ کی 36 خواتین اساتذہ کے گزشتہ 7 سے 10سال تک غیر حاضر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق 36 غیر حاضر اساتذہ کی تنخواہیں محکمہ تعلیم پہلے ہی بند کرچکا ہے۔ خواتین اساتذہ کو آخری موقع فراہم کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہار کیا جائے گا۔ خواتین اساتذہ جلد اپن...

36 خواتین اساتذہ 10 سال سے غیرحاضر

سندھ اسمبلی میں 168 ارکان، 500 ملازمین وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

  سندھ اسمبلی میں ملازمین کی تعداد اراکین کی تعداد سے60فیصد سے زائد ہونیکا انکشاف ہوا ہے۔ 168 اراکین کے ایوان میں 500 ملازمین مختلف عہدوں پر تعینات ہیں۔ گریڈ 21 کے 3،گریڈ 20 کے 8، گریڈ 19 کے 11 اورگریڈ 18 کے 12افسران مختلف عہدوں پرتعینات گریڈ 17 کے 22 اور گریڈ 16 کے 19 اف...

سندھ اسمبلی میں 168 ارکان، 500 ملازمین

وفاقی حکومت کی 3 سال سے خالی آسامیاں ختم،نئی آسامیوں کی تخلیق پر پابندی وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

  وفاقی حکومت کاکفایت شعاری کے فیصلوں پر عمل درآمد گذشتہ 3 سال سے خالی تمام آسامیاں ختم کردی گئیں نئی آسامیوں کی تخلیق پر بھی پابندی عائد کردی گئی وزارت خزانہ نے وفاقی حکومت کے اخراجات کم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہر قسم کی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہوگی، نوٹیفکیش...

وفاقی حکومت کی 3 سال سے خالی آسامیاں ختم،نئی آسامیوں کی تخلیق پر پابندی

جیل میں مر جائوں گا، وقت کے یزید کی غلامی قبول نہیں،عمران خان وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جیل کی چکی میں مر جا?ں گا مگر وقت کے یزید کی غلامی قبول نہیں کروں گا‘ ملک انقلاب کی جانب جا رہا ہے، انہیں 8 فروری کے خاموش انقلاب سے جاگ جانا چاہیے تھا، یہ لوگ اب سپریم کورٹ کا بیڑا غرق کرنے لگے ہیں کہ ا...

جیل میں مر جائوں گا، وقت کے یزید کی غلامی قبول نہیں،عمران خان

کسی بھی جماعت کیخلاف ہیں نہ طرفدار ،فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ،ترجمان پاک فوج وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ پاک فوج ایک قومی فوج ہے، اِس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے نہ ہی فوج کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے، نہ ہی طرف دار ہے۔معصوم شہریوں کو کیوں نشانہ بناتے ہو ، ہمت ہے تو آؤ! ہم سے مقابلہ کرو،بل...

کسی بھی جماعت کیخلاف ہیں نہ طرفدار ،فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ،ترجمان پاک فوج

اسرائیل کو ہٹا کر امریکا خود حماس سے مذاکرات کرے، یرغمالیوں کے اہل خانہ کا مطالبہ وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

یرغمالیوں کے اہل خانہ نے امریکا پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو درمیان سے ہٹا کر حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق حال میں غزہ کی ایک سرنگ سے جن 6 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملی تھیں۔ اْن کے لواحقین نے امریکی مشیر قومی سلامتی سے ملاقات میں غزہ جنگ بندی...

اسرائیل کو ہٹا کر امریکا خود حماس سے مذاکرات کرے، یرغمالیوں کے اہل خانہ کا مطالبہ

تاجر ویلویشن ٹیبل ٹیکس ماننے کو تیارنہیں،تاجروں، ایف بی آرمیں ڈیڈ لاک برقرار وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

تاجر ویلویشن ٹیبل ٹیکس ماننے کو تیارنہیں ہیں، کاروباری حضرات اور ایف بی آر کے درمیان تاجر دوست اسکیم پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ذرائع نے کہا کہ تاجروں اور ایف بی آر کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور بے نتیجہ ختم ہوگیا، تاجروں اور ایف بی آر کے درمیان آج دوبارہ مذاکرات ہوئے، دونوں فری...

تاجر ویلویشن ٹیبل ٹیکس ماننے کو تیارنہیں،تاجروں، ایف بی آرمیں ڈیڈ لاک برقرار

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ وجود - جمعه 06 ستمبر 2024

وفاقی حکومت نے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے پاک فوج، سول آرمڈ فورسز، حکومت کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ...

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ

عدلیہ کو تباہ کیا جارہاہے، احتجاجی تحریک شروع کریں گے،عمران خان وجود - جمعرات 05 ستمبر 2024

  بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو تباہ کرنے کی کوشش کی تو ہم ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت کے بعد اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ادارہ سب کا ہے صرف آرمی چیف کا نہیں، پور...

عدلیہ کو تباہ کیا جارہاہے، احتجاجی تحریک شروع کریں گے،عمران خان

مضامین
مقبوضہ وادی میں دھونس اور دباؤ کی پالیسی وجود هفته 07 ستمبر 2024
مقبوضہ وادی میں دھونس اور دباؤ کی پالیسی

کسان خوشحال پاکستان خوشحال وجود هفته 07 ستمبر 2024
کسان خوشحال پاکستان خوشحال

چلو تم ہی بتادو! وجود هفته 07 ستمبر 2024
چلو تم ہی بتادو!

بھارت عصمت دری کے دلدل میں وجود هفته 07 ستمبر 2024
بھارت عصمت دری کے دلدل میں

پاک فوج کا تاریخی معرکہ وجود جمعه 06 ستمبر 2024
پاک فوج کا تاریخی معرکہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر