... loading ...
عماد بزدار
حالیہ رجیم چینج نے صفیں واضح کر دیں کہ کونسا لکھنے والا کس طرف کھڑا ہے لیکن اس سے پہلے عام آدمی کے لیے لکھنے والوں کی باریک وارداتیں نظروں سے اوجھل رہتی تھیں کیونکہ سارے لکھنے والے ”غیر جانبدار”اور ”حق سچ”کے علمبردار ہوا کرتے تھے۔ سلیم صافی صاحب کا شمار ان کالم نگاروں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ ”غیر جانبدار”رہے۔
آیئے ان کے لکھے گئے کالم ”جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامی”جو کہ 03اکتوبر 2017ء کو جنگ اخبار میں چھپاہے ، میں ان کی غیر جانبداری پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ عنوان یاد رہے کہ سلیم صافی صاحب اپنے اس کالم میں جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامیاں بتا رہے ہیں۔ نمبرنگ میری ہے مواد صافی صاحب کے کالم پر مشتمل ہے۔
ناکامی نمبر ایک:گزشتہ پانچ سالوں میں سراج الحق نے نتھیاگلی کے وزیراعلیٰ ہائوس میں ایک دن بھی نہیں گزارا لیکن عمران خان صاحب نے اسے جتنا استعمال کیا، اتنا شاید گزشتہ بیس سالوں میں بھی استعمال نہیں ہوا۔
ناکامی نمبر دو:عوامل اور بھی بہت سارے ہیں لیکن ماضی قریب میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا ہے ۔ یہ جماعت اپنی ساخت میں اور مقصد کے لحا ظ سے جماعت اسلامی سے کوسوں دور ہے لیکن چونکہ اس کی نوک پلک امپائروں نے درست کی، اس لئے اس کی قیادت کو زیادہ تر جماعت اسلامی کے نعرے تھمادیے گئے ۔ اس نے جماعت اسلامی کے کرپشن کے خلاف نعرے کو بھی اپنا لیا۔
ناکامی نمبرتین:چونکہ عمران خان ایک سیلیبرٹی تھے اور ان کے ساتھ وابستگی کی صورت میں انہیں جماعت اسلامی کی طرح پابندیوں کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑ رہا تھا۔
ناکامی نمبر چار:جماعت اسلامی کی صفوں میں کئی سال تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ تصویر حلال ہے یا حرام ہے جبکہ موسیقی کے بارے میں اب بھی یہ بحث جاری ہے جبکہ تحریک انصاف میں ہر طرح کے حدودو قیود سے آزاد رہ کر بھی انسان انقلاب کا نعرہ لگاسکتا ہے ۔ اس لئے اس نے میدان میں آتے ہی نوجوان نسل میں انقلابی سوچ رکھنے والے جماعت اسلامی کے ووٹروں اور سپورٹروں کو اپنی طرف کھینچ لیا
ناکامی نمبر پانچ:تاہم جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی عوامی سیاست کے تابوت میں آخری کیل خیبرپختونخوا میں چند وزارتوں کی خاطر پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے خود ہی ٹھونک دی۔
ناکامی نمبرچھ:ہر کوئی جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلے سراج الحق گئے اور جب لاک ڈائون ناکام ہوا تو امپائروں نے خان صاحب کو سراج الحق کی اقتدا میں سپریم کورٹ بھجوادیا لیکن کریڈٹ سارا عمران خان لے گیا۔
. ناکامی نمبر سات:دوسری طرف خیبرپختونخوا میں بھی اگر کریڈٹ ہوتو وہ پی ٹی آئی لے جارہی ہے جبکہ ڈس کریڈٹ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کررہی ہے ۔ مثلاًبلدیاتی اداروں کے قانون کا کریڈٹ ملکی سطح پر تحریک انصاف نے لیا حالانکہ یہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اسی طرح پشاور کی سڑکوںکا کسی حد تک حلیہ درست کرنے کا کریڈٹ بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بلدیات کے وزیر
عنایت اللہ کو جاتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ ملک بھر میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف لے گئی”۔
ذرا سوچیں نتھیا گلی کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کتنا وقت عمران اور کتنا سراج الحق نے گزارا اس بات کا جماعت کی سیاسی ناکامی سے کیا تعلق ہے لیکن چونکہ صافی صاحب تحریک انصافی کے بانی کے ”گرفتار محبت” ہیں اس لئے جو موضوع اٹھاتے ہیں انہیں” تیری تصویراں” ہی نظر آتی ہے۔ایسے کسی موقع کے لیے شاعر نے کہا تھا
اتنی کاوش بھی نہ کرمیری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھاجائے
مرضی کے واقعات لکھ کر کیسے انہیں ایک مخصوص رنگ دیا جاتا ہے کس طرح اپنے ممدوح کو کلین چٹ اور ناپسندیدہ شخص کو شیطان ثابت کیا جاتا ہے اس کی چھوٹی سی مثال کے لیے صافی صاحب کا کالم ”الطاف حسین اور اﷲ کی چوائسز”جوجنگ میں 04جولائی 2020ء چھپا ہے ، پڑھ کر دیکھیں ۔
کالم میں دو کرداروں کا تذکرہ ہے ۔ مصطفیٰ کمال ، فروغ نسیم ۔ ہم اگر تفصیلات میں نہ جائیں تو دونوں ایک وقت میں الطاف بھائی کے دست و بازو تھے بلکہ صافی صاحب خود اپنے اسی کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک وقت میں مصطفی کمال نمبر ٹو تھا لیکن صافی کاکالم پڑھ کر مصطفی کمال سے ہمدردی و محبت اور فروغ نسیم سے نفرت ہوتی ہے ۔۔ ۔ کیوں؟ کیونکہ فروغ نسیم عمران کا ساتھی بنا ۔
مصطفی کمال کے بارے میں فراخ دلی سے لکھتے ہیں ۔
”مصطفی کمال کے طرزِ سیاست سے میں نے کبھی اپنے آپ کو متفق نہیں پایا لیکن اس کے باوجود
وہ سگے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور رہیں گے ۔ کچھ بھی کر لیں، میرے دل میں ان کی قدر کم
اس لیے نہیں ہو سکتی کیونکہ میں ان کے بڑے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوں”۔
مصطفی کمال صافی صاحب کو اس لیے سگے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں کہ بقول صافی صاحب ایک وقت میں اس نے صافی صاحب کے سامنے کچھ خبریں بریک کیں،ورنہ وہ بھی ایک وقت میں الطاف بھائی کا نمبر ٹو تھا اگر برائی کا معیار الطاف بھائی کا ساتھی ہونا ہے تو مصطفی کمال کو زیادہ برا ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں زیادہ برا فروغ نسیم کو”ثابت”کیا جائے گا۔ کیسے ؟ذرا فروغ نسیم کا تذکرہ پڑھیں ۔
”آج جب میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ مصطفی کمال نے تو بالکل اولیاء اللہ جیسی کمال کی بات کی تھی۔
چند سالوں میں اللہ نے ہمیں دکھا دیا کہ وہ شخص جس کے بغیر کوئی چوائس نہیں تھی، اس پوزیشن میں آگیا
کہ مہاجروں کی قیادت کیلئے ہر کوئی چوائس ہو سکتا ہے لیکن وہ نہیں۔ ان سے گالیاں کھا کر بھی ہر کیس میں
ان کی وکالت کرنے والے فروغ نسیم آج عمران خان کے وکیل بن گئے ہیں”۔
دیکھا آپ نے عمران خان کتنے بُرے ہیں فروغ نسیم ایک وقت میں الطاف بھائی کا وکیل تھا وہ آج عمران کا بھی وکیل ہے اور مصطفی کمال اتنے اچھے ہیں گو کہ وہ ایک وقت میں الطاف بھائی کے نمبر ٹو تھے لیکن وہ اچھے ہیں کیونکہ اس نے ایک وقت میں میرے سامنے یعنی سلیم صافی کے سامنے کچھ خبریں بریک کی تھیں۔
اپنے کالم ”جہانگیر ترین اور تین واقعات” میں پی ٹی آئی اور عمران پر اپنی تنقید کی سب سے بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”پی ٹی آئی سے میرا زیادہ اختلاف جہانگیر ترین اور اُن جیسے لوگوں کو پارٹی میں لانے اور پھر
جہانگیر ترین ہی کو طاقتور ترین بنانے پر ہوا”۔
اور جہانگیر ترین پر صافی صاحب کو غصہ کیوں تھا ؟
”جہانگیر ترین پر میرے غصے اور زیادہ تنقید کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنی پارٹی میں موجود
ہمارے بہت سارے دوستوں سے ناک رگڑوا دی”۔
جب ترین کے عمران خان کے ساتھ فاصلے پیدا ہوئے تو صافی صاحب لکھتے ہیں کہ
”جہانگیر ترین ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ تھے اور اگر ان کا پیسہ، ذہن اور محنت بروئے کار
نہ آتے تو خان صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیںہو سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ
یہ کوشش کرتے رہے کہ میری اور خان صاحب کی دوستی کرادیں”۔
”گزشتہ روز جہانگیر ترین سے فون پر بات ہوئی۔ میں نے ازراہِ مذاق ان سے کہا کہ آپ
تو میری صلح کرارہے تھے لیکن خود عمران خان کی حکومت میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ
ہنس دیے اورچپ رہے کیونکہ اب بھی کچھ لوگوں کا پردہ رکھنا چاہتے ہیں”۔
پی ٹی آئی پر صافی صاحب کے کالم کے مطابق تنقید اس لیے شروع کی کیونکہ ترین جیسے لوگ عمران نے اپنی پارٹی میں لیے ۔ اور ترین پر غصہ صافی صاحب کو اس لئے تھا کیونکہ اس نے صافی صاحب کے کچھ دوستوں کی ناک رگڑوا دی۔ لیکن اسی ایک کالم میں جب ترین کے عمران خان سے فاصلے پیدا ہوتے ہیں تو صافی صاحب ترین کے لئے اچانک نرم گوشہ پیدا کرتے ہیں حالانکہ اپنے کالم کے شروع میں پی ٹی آئی پر تنقید کی زیادہ وجہ ترین جیسے لوگوں کی شمولیت بتاتے ہیں اور ترین کے پارٹی سے نکلنے اور عمران سے فاصلے پیدا ہونے پر بجائے صافی صاحب خوش ہوتے ،الٹا ترین کے لیے اپنے قارئین کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چوں چوں کا مربہ کالم پڑھ کر سوچیں کہ یہ رانگ نمبر دانشور بن کر ہمارے ملک کے سب سے بڑے اخبار میں کالم لکھتے اور سب سے بڑے ٹی وی چینل پر ٹاک شو کرکے قوم کی فکری رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔