... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
امریکی ماہرین ماحولیات نے 1974 میں اوزون کی تہہ کے متعلق بتایا تھا کہ اگر زمین پر سے یہ تہہ ختم ہوگئی تو دنیا کا درجہ حرارت شدید بڑھ جائے گا اور قطب جنوبی میں برف پگھل جائے گی جس سے ساحلی شہر تباہ ہوجائیں گے اور شدید درجہ حرارت سے جاندار معدوم ہوجائیں گے۔اس وقت ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اگر اوزون کی تہہ کو بچانے کے لئے مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو اگلے 75 برسوں میں اوزون کی تہہ کا وجود بالکل ختم ہوجائے گا۔اوزون پرت کو مزید تخفیف سے بچانے کے لئے عالمی پیمانے پر 1980کی دہائی میں کوششیں تیز ہوئیں۔ 16ستمبر 1987کو بہت سارے ممالک کی حکومتوں نے اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادوں پر کم سے کم انحصار رہنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک معاہدہ پر دستخط کئے جسے مونٹریل پروٹوکول ( Montreal Protocol )کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1994میں اس معاہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مونٹرئیل پروٹوکول کی تاریخ یعنی 16ستمبر کو ہی اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ کیا جس کا مقصداوزون کی تہہ کونقصان پہنچانے والے عوامل کا خاتمہ تھا ۔اس سال اس دن کا تھیم ہے ”مونٹریل پروٹوکول۔اوزون پرت کو ٹھیک کرنا اور آب و ہوا کی تبدیلی کو کم کرنا”۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اونتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ اگر ہم موسمیاتی کارروائی کو فوری اوربنیادی طور پر تیز کردیں توگلوبل وارمنگ کو1.5سینٹی گریڈ تک محدود کرنااب بھی ممکن ہے۔
ہر کوئی یہ نہیں جانتا کہ زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک اوزون کی تہہ پائی جاتی ہے یہ فضائی غلاف ایک طرح سے زمین کاگارڈ ہے جو سورج سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکتا ہے اگر سورج سے نکلنے والی یہ خطرناک شعاعیں برائے راست زمین پر پہنچ جائیں توجانداروں کو موت کے منہ تک پہچا سکتی ہیںاسی لئے ا اللہ تعالیٰ نے زمین کو ان شعاعوں سے بچانے کے لئے ایک خاص فلٹر تخلیق کررکھا ہے جسے اوزون کی تہہ کہتے ہیں۔اوزون کی تہہ سورج سے نکلنے والی نہایت خطرناک شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی فلٹر کرلیتی ہیںاگرچہ بین الاقوامی برادری نے اوزون کی تہہ کو ختم کرنے والے مواد پر پابندی لگانے کے لئے ایک معاہدہ کیا تھاجس کے بعدسے دنیا بھر میں” سی ایف سی گیسوں”کی اشیاء میں استعمال کو ترک کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی بھی اوزون کی تہہ کو شدیدخطرات لاحق ہیں۔بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی،درختوں کی کٹائی،بدلتے موسم،صنعتی کارخانوں کے دھوئیں اوردیگر زہریلی گیسوںکے اخراج سے اوزون کی تہہ دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے دنیاکے بعض مقامات پرسورج کی شعاعیں مکمل طور پر فلٹر نہیں ہورہیں ۔سورج کی تابکار شعاعوں کا زمین پر براہ راست پڑنے کی وجہ سے انسانوںا ور جانوروں میں جلدی بیماریاں اور مختلف اقسام کے کینسر میںبھی کئی گنا اضافہ ہورہا ہے۔ تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت کی وجہ سے اکثریت پانی کی کمی، ہیپاٹائٹس اور گردوں کے شدید امراض میں مبتلا ہو رہی ہے۔
ادھرماہرین حیاتیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 ء تک معدوم ہوجائے گی جس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کا آخری سنہری مینڈک جو 1999 ء میںموسمیاتی تغیرات کے باعث مر گیا تھااسے جانوروں کی پہلی معدومیت قرار دیاجارہا ہے۔پاکستان نے 1992 میں مونٹریال پروٹوکول میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور 1996 میں اوزون کے تحفظ کے لیئے نیشنل اوزون یونٹ قائم کیا۔سائنس دانوں ،ماہرین فلکیات نے موجودہ سال کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عالمی سطح پر کوششوںکی بدولت اوزون کی تہہ بحال ہونا شروع ہوگئی ہے تاہم اوزون کی تہہ کومکمل طور پربچانے کے لئے صنعتوں کے زیریلے دھوئیں،ٹریفک کے دھوئیںسمیت ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ اوزون کی تہہ مزیدمضبوط ہوجائے اور سورج کی شعاعیں براہ راست زمین پر اثرانداز نہ ہوسکیں ۔