... loading ...
حمیداللہ بھٹی
جمہورکو اقتدار میں شامل کرنے کا ذریعہ انتخابات ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نو اگست کو قومی اسمبلی تحلیل ہوئی مگر ابھی تک اِدارے آئندہ عام انتخابات کے لیے کسی تاریخ کا تعین نہیں کرسکے۔ جب بھی کسی تاریخ کے تعین کی بات ہوتی ہے تو کچھ عناصررخنہ ڈالنے آدھمکتے ہیں۔ الیکشن عمل سے فرارمیں شکست کا خوف کارفرماہوسکتاہے۔ اسی بناپر متوحش عناصر حیلے بہانے سے التوا چاہتے ہیں حالانکہ بلاسبب التوا جمہوریت کی خدمت نہیں۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے چھ نومبر کو ایک ہی دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی تجویز دی ہے۔ بظاہر اِس تجویز کو الیکشن کمیشن کی طرف سے قبول کیاجانا محال ہے۔ اِس اندازے کی وجہ یہ ہے کہ صدر کی دعوت کے باوجود جس اِدارے کا سربراہ ملاقات کرنے سے انکاری ہو، وہ کسی تجویز کی بھی پزیرائی نہیں کر سکتا۔ قومی امور پر نگاہ رکھنے والے مکاتبِ فکر صدر کی طرف سے ملاقات کی دعوت ٹھکرائے جانے پر ہنوز حیران ہیں۔ حالانکہ امریکی اور برطانوی سفیروں سے چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجہ نے بخوشی ملاقاتیں کیں اور تجاویز سُن کر عملدرآمد کرانے کی یقین دہانی بھی کرائی جس پرسنجیدہ فکر لوگوں نے ملک کی آزادی وخودمختاری کے حوالے سے سوالات اُٹھائے۔ ملک کے مخدوش معاشی حالات سیاسی استحکام کے متقاضی ہیں لیکن اہم ترین اِداروں نے ایک دوسرے کی عزت وتوقیر سے کھیلنا شروع کررکھاہے اور ایک قسم کی ضد پرمبنی پالیسی رائج نظر آتی ہے۔ اب تو عام کہا جانے لگا ہے کہ جس اِدارے کی ذمہ داری ملک میں آزادانہ و منصفانہ الیکشن کا نعقاد یقینی بنانا ہے، وہ آئینی دفعات کا سہارا لے کر تاخیری حربوں کی کوشش میں مصروف ہے۔ ظاہر ہے ایسے طرزِ عمل کو ناتو آئین وقانون کے مطابق کہا جا سکتا ہے نہ ہی تحسین کی جا سکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آئینی حدودکے اندررہ کر انتخابات کویقینی بنائے فرائض سے فرارکے لیے مصنوعی ہتھکنڈوں پر انحصار صائب طرزِ عمل نہیں ۔
صدر نے دو ہفتوںکے دوران الیکشن کمیشن کو دو خطوط ارسال کیے ہیں مگر جواب میں ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنانے کی بجائے یہ باور کرانے پرزورہے کہ اپنے کام سے کام رکھیں ہمیں سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ہوناتو یہ چاہیے کہ اگر آنے والی کوئی تجویز قبول نہیں تو کسی مناسب دن کااعلان کرتے ہوئے سب کے منہ بند کردیے جائیں لیکن الیکشن کمیشن تاریخ کا اعلان اپنا اختیارسمجھتاہے مگر یہی اختیار استعمال کرنے سے بھی پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔ صدر سے ملاقات پر آمادہ وتیار نہ ہونے والے اِدارے کے سربراہ کاعالمی طاقتوں کے سفیروں سے ملنا اور انتخابی عمل کے بابت یقین دہانیاں کرانا کم سے کم الفاظ میں ملک کے اعلیٰ ترین آئینی منصب کی توہین ہے۔ اگر ایسی روش پر دیگر اِدارے بھی چل پڑے تو ملک میں سیاسی بحران بڑھنے کے ساتھ آئینی بحران کا امکان بڑھ جائے گا۔حالات کا تقاضا ہے کہ ہوش مندی اور سنجیدہ فکری کا مظاہرہ کیا جائے تاخیری حربے نہیں ذمہ داریوں کی ادائیگی ہی مستحسن ہے۔ اِدارے ذہن میں رکھیں اختیارات کی جنگ کہیں ملک کوکمزورجمہوریت سے بھی محروم نہ کر دے۔ صدرنے عام انتخابات بارے تاریخ تجویز کرتے ہوئے اِس معاملے میں مزید رہنمائی کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ قبل ازیں صدر کے خط میں چیف الیکشن کمشنر نے وزارتِ قانون سے رائے طلب کی جس نے تاریخ کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن کاحق قرار دیا۔مگر عدالت سے آئین سے متجاوز کسی حربے کو پزیرائی نہیں مل سکتی۔ اب تو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جیسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے طرزِ عمل پر تنقید کرنے لگی ہیں۔ بظاہرایسا محسوس ہوتا ہے کوئی جواز پیش کرنے یا سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے کی بجائے مطالبات، تنقید اورالزام تراشی کو پائے حقارت سے ٹھکرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ اگر سنجیدگی ،دانش اور حکمت سے کام لیا جائے تو انتخابی تاریخ کے تعین کا مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہ ہو سکے ۔
سپریم کورٹ ملک میںآئین و قانون کی تشریح کا سب سے بڑا اِدارہ ہے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صد ر عابد زبیری کی طرف سے دیے گئے الوداعی عشایئے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطابندیال غیرمبہم الفاظ میںکہہ چکے ہیں کہ نوے روز میں الیکشن کے انعقادکا آئین میں واضح حکم ہے تو پھر باربار تکرارکیوں کی جارہی ہے؟اُن کی سربراہی میں ایک بینچ نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن کرانے کی تاریخ دی لیکن حکومت اور الیکشن کمیشن نے جس طرح عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے دیا،اُسے کسی صورت قابل تعریف یا قابل رشک نہیں کہا جا سکتا۔ اب بھی ایک بارپھر معاملہ عدلیہ کی طرف جا سکتا ہے کیونکہ عام انتخابات کے التوا بارے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا موقف یکساں ہے ۔نگران وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ ایک ٹی وی سے گفتگو کے دوران برملا کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن تیاریاں مکمل کرنے کے بعد ملک میں عام انتخابات کی حتمی تاریخ دے گا۔ اِس حوالے سے جنوری کے وسط یا اختتام پر کوئی دن رکھا جا سکتا ہے صدر کی تجویز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے الیکشن تاریخ کی تجویز دی ہے جبکہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن کاہے جس سے کوئی ابہام نہیں رہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت کی طرح اب نگران حکومت بھی الیکشن کے التوا میں الیکشن کمیشن کے ساتھ ہے۔ ظاہرہے اِن حالات میںصدر کی تجویز کے قبول کیے جانے کا امکان نہیں اور چھ نومبر کی تجویز دینے کا عمل بھی ایک اور لاحاصل سعی تک محدودرہ سکتاہے۔
حیران کُن امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اورنگران حکومت کی طرح ن لیگ بھی الیکشن کے التوا پر متفق ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ا سپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے نگران وزیرِ اعظم کے سیکریٹری توقیر شاہ کوایک مراسلہ بھیجاہے کہ ایسا تاثر دیاجارہاہے جیسے نگران حکومت سابق حکومت کا تسلسل ہے ۔مراسلے میں وفاقی کابینہ میں سیاسی افراد کی شمولیت پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے لیکن مراسلہ ارسا ل کرتے ہوئے اِس حقیقت کو فراموش کردیا گیا ہے کہ شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں اُن کے ساتھ توقیر شاہ بطورپرنسپل سیکریٹری کام کرتے رہے اور شہبازشریف کی سفارش پر ہی اب تک اپنے عہدے پرموجودہیں۔ ایسے اقدمات پر ہی نگران حکومت کوجانبداراور سابق حکومت کا تسلسل کہنے کے جواز ملتے ہیں مگر الیکشن کمیشن اِس حوالے سے کسی قسم کی ہدایات جاری کرنے یا ایکشن لینے پر آمادہ نہیں جس سے تمام مکاتب فکر یہ پیغام لیتے ہیں کہ جو بھی ہورہا ہے اُس میں الیکشن کمیشن کی مرضی و منشا شامل ہے۔
اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ کچھ جماعتیں فوری طورپر انتخابات کا خطرہ مول لینے کوتیارنہیں کیونکہ ناقص کارکردگی کی بناپر انھیں عام انتخابات میں عوامی عتاب کاخدشہ ہے ۔یہ معیشت کے نام پرکچھ عرصہ انتخابی عمل کا التواچاہتی ہیں جن میں سرفہرست ن لیگ ہے ۔یہ سوچ جمہوری نہیں اگر ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا اور جمہور کو قومی معاملات میں شامل رکھناہے تو آئین کے مطابق انتخابی عمل مکمل کرنا ہوگا لیکن حالات سے ایسے اِشارے ملتے ہیں کہ آئین کی پاسداری کی بجائے مخصوص چہروں کو روکنے کے لیے انتخابات میں تاخیرکی جارہی ہے۔ جمہوریت پسند ہونے کی دعویدارکچھ سیاسی جماعتوں کا ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کرنا ایسے خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ ملک میں عام انتخابات اگلے برس تک معرضِ التوا میں ڈالے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے بعید از قیاس نہیں کہ صدر کی طرف سے عام انتخابات کے بارے میں تجویز کی گئی چھ نومبرکی تاریخ پر عملدرآمدکی نوبت ہی نہ آئے۔