... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال 15ستمبر کو جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کی منظوری اقوام متحدی کی جنرل اسمبلی نے سن2007میں دی تھی۔اس سال اس دن کا تھیم ہے ”نئی نسل کوبا اختیار بنانا”۔یونان کے شہر ایتھنز کو جمہوریت کی جائے پیدائش کہا جاتاہے۔ تاہم کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ رومن تہذیب حقیقی معنوں میں جمہوری تہذیب تھی کیونکہ وہاں عوام کی حکمرانی تھی ،اس کے باوجود جب بھی جمہوریت کا نام آتا ہے تو سب سے پہلے یونان کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔430قبل مسیح میں جب یونان میں جمہوریت کا آغاز ہوا تواس وقت یونانی سکوں پر ایسے الفاظ کندہ کیے گئے جن کا مطلب تھا ”لوگوں کی حکومت”۔ تاریخ دانوں کے مطابق بدھ مت کے روحانی پیشوا”گوتم بدھ” کی پیدائش سے قبل ہندوستان میں بھی جمہوری ریاستیں موجود تھیں جنھیں ”جن پد”کہا جاتا تھا۔اٹھارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں جمہوریت کے تصور کو جب مزید فروغ ملا تو اسے” آزاد خیال جمہوریت” کے طور پر پیش کیا جانے لگا تب سے لے کر آج تک آزاد خیال جمہوریت کا تصور دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے۔
مشہور فلسفی افلاطون یونان کے جمہوری شہر” ایتھنز” میں ہی پیدا ہوا تھا ۔افلاطون کا خاندان ایتھنز کے شاہی خاندان کی باقیات میں سے تھا۔کہا جاتا ہے کہ افلاطون کو جمہوریت سے اختلاف تھاشاید اس اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ یونان کی جمہوریت نے اس کے شاہی خاندان کی حیثیت کو ختم کرکے رکھ دیا تھا ۔بعد میں افلاطون کے استاد سقراط کوجب یونانی جمہوریت پسندوں سے موت کی سزا ملنے پر زہر کا پیالہ پی کر موت کو گلے لگانا پڑا تب افلاطون کی نظر میں جمہوریت کا تصور فتنہ،فساد،دھوکا،تعصب اور تنگ نظری بن گیا۔جمہوریت کے نقصان دہ اثرات کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے افلاطون نے سیاست کو باضابطہ طور پر اپنے مطالعہ کاموضوع بنایا اورایک لمبے عرصہ تک سیاست اور جمہوریت پر تجزیات اور تجربات کرنے کے بعد بڑی بے باکی سے اپنے نظریات دنیا کے سامنے پیش کردیے ۔افلاطون نے اس حوالے سے اپنی تین تصانیف ”ریاست”،”قوانین”اور”فلسفی حکمران” میں سیاسی نظریات پر بڑے جاندار انداز میںدلائل بھی پیش کیے۔افلاطون کی تصانیف عوام میںمشہور ہونے کے باوجود تنازعات کا شکار رہیں کیونکہ یونان کے ماہرین سیاست اسے جمہوریت مخالف قرار دیتے رہے۔ ماہرین نے افلاطون کی کتابوں کا نتیجہ جمہوری نظام کی مخالفت نکالا، حالانکہ افلاطون اپنی تصانیف میں جمہوریت کی ان خامیوں پر بات کررہا تھا جو معاشرے کو تباہ کردیتی ہیں ۔
افلاطون نے اپنی تیسری کتاب ”فلسفی حکمران” میں بتایا کہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد ذہنی اورجسمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں یعنی کچھ افرادزیادہ ذہنی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں جبکہ کچھ زیادہ جسمانی قوت رکھتے ہیںاور کچھ معمولی صلاحیتیںرکھتے ہیں۔افلاطون کے مطابق انہی خصوصیات کے لحاظ سے ذہنی صلاحیت رکھنے والے افراد کو اوپری طبقہ میں شمار کیا جانا چاہئے جبکہ جسمانی قوت رکھنے والے کو اس سے نچلے اور معمولی صلاحیت رکھنے والے افراد کو سب سے نچلے طبقہ میں شمار کیا جانا چاہئے یعنی افلاطون یہ کہنا چاہتا تھا کہ ذہنی صلاحیت رکھنے والے افراد کو حکمران ہونا چاہئے، جسمانی طور پر مضبوط افراد کودفاعی امور سنبھالنے چاہئے اور معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو کاشت کاری ،کاریگری اور عام شعبوں میں اپنی خدمات انجام دینی چاہیے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے توافلاطون کے سیاسی نظریات میں جمہوریت کی مخالفت کی بجائے اس کی اصلاح کے پہلو سامنے آتے ہیں مثلا آج کے جمہوری نظام میں جب سیاسی ناخواندہ ووٹرزکسی ایسے نمائندے کو چن لیتے ہیں جو بہترین ذہنی صلاحیتوں کا حامل نہ ہو توایسا نمائندہ عوام کی بہتری ،ترقی ، صحت، تعلیم اور خوشحالی کے لئے بہترین اور موثر اقدامات نہیں کرپاتا جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ووٹرز کو اپنے ہی دیے ہوئے ووٹ پر پچھتانا پڑتا ہے۔اسی طرح بہت سے سیاسی خواندہ ووٹرز اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے نہیں جاتے جس کے نتیجہ میںبھی باصلاحیت لیڈر شپ سامنے نہیں آپاتی۔مہنگائی، غربت ،بجلی ،پٹرول کی بڑھتی قیمتوںنے اب عوام میں اتنا شعورضرور بیدار کردیا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کے انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے ایک مرتبہ ضرور سوچیں گے کہ جس کو ووٹ ڈال رہے ہیں وہ ان کی امیدوں پر پورا اتر پائے گا یا نہیں؟ مظلوم عوام سڑکوں پرہاتھ اٹھا کر اللہ سے فریاد کررہی ہے کہ ہمیں ایسے حکمران عطا فرمادے جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کو بحال کرسکیں ۔آمین