وجود

... loading ...

وجود

پاکستان سے محبت کرنے والے

جمعه 15 ستمبر 2023 پاکستان سے محبت کرنے والے

میری بات/روہیل اکبر
پاکستان سے محبت کرنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کب حالات ساز گار ہوں اور وہ جاکر اپنے ملک کی خدمت کرسکیں۔ لیکن بدقسمتی سے حالات ٹھیک ہوئے اور نہ ہی وہ لوگ واپس آئے جنہوں نے پاکستان کی حالت بدلنی تھی اور جو لوگ پاکستان میں رہ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ہمارے ادارے جینے نہیں دیتے۔ آسٹریا میں بیٹھا ہوا شاہد عرفان ہو یا انکا بیٹا یوشع عرفان جس نے ابھی حال ہی میں لند ن سے ایم فل کیا، پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کے لیے بے چین ہیں اور ہم لوگ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ۔ہم تو 75سالوں میںپاکستان کے حالات ٹھیک نہیں کرسکے ۔یہاں کراچی میں علما ئے دین کو سرعام قتل کردیا جاتا ہے ۔بلوچستان میں دین کی خدمت کرنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔ وکلاء کو ٹارگٹ کرکے مار دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو اغوا کے بعد نامعلوم بنا دیا جاتا ہے۔ معصوم بچوں کوا سکولوں میںجاکر بے دریغ قتل کردیا جاتا ہے۔ خواتین کو مار مار کر مار دیا جاتا ہے۔ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ ان ہونے والی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کا الزام بھارت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ جبکہ بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے اذیت پہنچانا مودی سرکار کا وطیرہ بنا ہوا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں ایک مسلمان شخص محمد عمران کو ہجوم نے برہنہ حالت میں پریڈ کروائی ۔ جبراً جیے سری رام کے نعرے لگوائے گئے اور پھر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے مسلم شخص کو غلاظت سے بھری فٹ پاتھ کو چاٹنے کے لیے کہا گیا ۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں آئے روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جبکہ پاکستان میںاقلیتوں کے ساتھ کوئی تفریق نہیںرکھی جاتی اوربھارت نے مقبوضہ کشمیر کا جو حشر کررکھا ہے، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بھارتی درندہ صفت حکمرانوں نے ریاست جموں و کشمیر کی صدیوں پر محیط تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں غیر ریاستی ہندووں کو ڈومیسائل جاری کرکے وہاں کی آبادی کے تناسب کو جبر و استبد اد کے ذریعے تبدیل کر رہا ہے۔ ہندوستان کی غاصب حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کی خصوصی متنازع حیثیت اور ریاستی درجے کے خاتمے کو 1500 دن بیت چکے ہیںجس پر لاہور میں کشمیری رہنمائوں فاروق آزاد ،آفتاب نازکی اور شہزاد نازکی کی قیادت میں بھارتی حکومت اور قابض افواج کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا ۔ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو اقوامِ متحدہ کے اصولوں اور ضابطوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع ریاست جموں کشمیر کی خصوصی متنازع حیثیت اور ریاست کے تاریخی درجے کو یکطرفہ طور پر ختم کردیا تھا اور آج بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں بھارت کے بدترین اقدامات کو 1500 دن ہوگئے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کو حکومت ہند نے کشمیر پر بدترین قانونی جارحیت کرتے ہوئے ریاست کا درجہ ختم کردیا تھا ۔بھارت نے ایک طرف اقوامِ متحدہ کے ضابطوں کو پاؤں تلے روندا تو دوسری طرف مسئلہ کشمیر کے اہم فریق پاکستان کی فریقانہ حیثیت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع مسئلے کو سیاہ ترین اقدامات سے اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مقبوضہ ریاست دس لاکھ دہشت گرد فوجیوں کے پہرے میں ایک جیل بن چکی ہے۔ بدترین کالے قوانین کے نفاذ سے حکومت ہند نے ایک کروڑ تیس لاکھ لوگوں کو غلام بنا کر محصور کررکھا ہے گزشتہ 1500 دنوں میں مقبوضہ ریاست کے عوام کے تمام بنیادی انسانی، سماجی، سیاسی اور مذہبی حقوق بندوق کی نوک پر چھین لیے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتحال وہاں ہزاروں سیاسی کارکنوں، آزادی پسند راہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی مذہبی لیڈروں کی گرفتاریوں کی وجہ سے آزادی ٔ اظہارِ رائے پر مکمل پابندیوں سے بدترین صورتحال پید ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت ہمسایہ ممالک سے بھی پنگے بازی میںمصروف ہے۔ پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہی ہاتھ نکلتا ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان اور تمام متعلقہ ایجنسیوں سے گزارش ہے کہ بیرونی حملہ آوروں اور ان کے سہولت کاروں پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ پاکستانی تو خود اپنی غربت کے نیچے دب رہی ہیں۔ انہیں اب مزید نہ دبائیںہمیں اپنے ملک کو آگے لیکر چلنا ہے۔ اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا تو تو باقی سب باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں ۔ہمارے لوگ دھڑا دھر غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں۔ اس وقت بھی 2 کروڑ لوگوں کا غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے کا خدشہ جبکہ بیروزگاری میں10 فیصد سالانہ اضافے کے باعث ہر سال 30 لاکھ افراد غریب طبقے میں شامل ہورہے ہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقہ 42 فیصد سے گھٹ کر 33 فیصد رہ گیااور د ن بدن معاشی بدحالی کے سبب متوسط طبقے میں نمایاں کمی ہو رہی ہے۔ یہ طبقہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیتا ہے ۔دنیا کی سہولتوں اور آسائشوں سے کہیں دور یہ طبقہ دوسروں کی نوکری کے لیے پیدا ہوتا ہے اور انہی کی خدمت کرتا کرتا موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور اشرافیہ معاشرے پر تسلط برقرار رکھنے کے لیے متوسط اور غریب طبقے کو خوشحال ہی نہیں ہونے دیتے۔ معاشی عدم استحکام اورقوت خرید میں کمی جیسے عوامل بڑی وجہ اور افراط زر کے باعث پاکستان میں غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امیر طبقہ آمدن کا 20 سے 30 فیصد حصہ جبکہ متوسط اور غریب 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں ۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے امیر مزید امیر ہوتا جا رہا ہے ۔اگر یہی حالات رہے تو کچھ عرصے میں مزید 2 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ جب ایسے حالات بن جائیں تو ملک خانہ جنگی کی طرف چلا جاتا ہے اور پھریوشاعرفان جیسے سینکڑوں قابل اور ذہین بچے پاکستان کا رخ کیسے کرینگے اور پاکستان کا مستقبل تابناک کیسے بنے گا آخر میں سابق وفاقی وزیراطلاعات محمد علی درانی نے کہا ہے کہ چند کار آمد باتیں اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں جو سمجھنے والوں کے بہت اہم ہیں ۔ جن کاکہنا ہے میاں صاحب کو کہا تھا کہ امپائر کے سر پر گیند ماریں گے تو چیئرمین پی ٹی آئی نے آئوٹ نہیں ہونا۔ اب بھی کہتا ہوں کہ امپائر کو گیند مارنے سے نقصان ہوگا۔ میں ان سب سے زیادہ پی ٹی آئی چیئرمین کو جانتاہوں۔ مجھے پتہ ہے وہ کیا کریں گے، جب چن چڑھے گا توسب دیکھ لیں گے۔ جبکہ کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو ٹکرائو پیدا کرکے اپنی اہمیت بتاتے ہیں جو پھڈا ڈالناچاہتے ہیں ۔ان سے درخواست ہے کہ پیڑنہ گنیں آم کھائیں۔ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم صلح کراتے کراتے آخری نوابزادہ نصراللہ بن رہے ہو ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر