... loading ...
سمیع اللہ ملک
میں ہمیشہ دل کی بات کرتاہوں آپ سے۔خودکوکبھی حرف اول وآخرنہیں سمجھامیں نے۔میں انکسارسے نہیں کہہ رہاکہ میں کچھ نہیں جانتا، واقعی ایساہی ہے۔میں لوگوں سے گفتگو کرتاہوں،انہیں پڑھتاہوں۔ہاں میں بہت کتابیں پڑھتاہوں اورہرطرح کی۔آج بھی میرے پاس ہزاروں کتب ہیں۔میں وسیع المطالعہ ہونے کادعوی دارکبھی بھی نہیں رہا۔ میں نے بہت کچھ دل لگاکرپڑھاہے اورکچھ سے میں سرسری گزرا ہوں۔
میں کوئی دانش ورنہیں ہوں،عام سابندہ ہوں۔میرے رب کاکرم ہے کہ مجھے بہت سے اہل علم وفضل کی صحبت حاصل ہے۔ان سے خوب بحث مباحثہ کی کیفیت بھی رہتی ہے۔بس یہ کرم ہے میرے رب کا،توفیق ہے میرے پا لنہارعلیم وخبیرکی۔میں تواپنے بچوں سے بھی بہت سیکھتاہوں اورکھلے دل سے اس کااعتراف بھی کرتاہوں۔اس کااظہاراکثرآپ کو میری تحریروں میں بھی ملے گا۔آج کل مسجدمیں نوجوانوں کے ہفتہ وارپروگرام میں نوجوانوں کے ذومعنی ،کھرے اورنرالی منطق کے سوالات سے بہت کچھ سیکھنے کوملتاہے۔بہت معا ملات میں کوراہوں،ہما رے بچے بہت ذمہ داراورسمجھدارہیں۔منافقت سے مبرا، بالکل صاف سیدھی اور آسان زبان میں عمدگی کے ساتھ حالات پرتبصرہ کر تے ہیں۔مجھے اس کااعتراف ہے اورکرنابھی چاہئے۔
ہما راایک بڑامسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اعتراف نہیں کرتے،تسلیم نہیں کرتے،ہم غلطی کرتے ہیں اوراس پردلیل لاتے ہیں۔یہ توکہاگیا ہے کہ احسان کرواوربھول جاؤ،مت جتلاؤلیکن یہ کب کہاگیاہے کہ جس پراحسان کیاجائے وہ بھی اپنے محسن کا تذکرہ نہ کرے!اسے ضرور اپنے محسن کاذکرکرناچاہئے اوربہت پیارسے کرناچا ہئے۔جبکہ ہم نہ تواعتراف کرتے ہیں اورنہ ہی ہم میں غلطی تسلیم کرنے کی خوہے۔غلطی ہوجائے توہمیں کھلے دل سے تسلیم کرناچاہئے کہ ہم غلطی پرتھے۔ہم انسان ہیں،ہوگئی ہم سے غلطی،ہمیں نادم ہوناچاہئے،پشیمان ہونا چاہئے،معذرت کرنے میں ذرابھی تاخیرنہیں کرنی چاہئے۔لیکن ہم نہیں کرتے۔ہمارے اندرایک بہت بے حس اورسفاک آدمی رہتا ہے، وہ ایک ٹنڈ منڈدرخت ہے،بغیر پھل کے،جھکتاہی نہیںہے۔ہاں بہت سی باتیں اورمعاملات ایسے ہیں کہ سرکٹ جائے توغم نہیں، جھکنا نہیں چا ہئے۔خاک بسرانسانوں کے سرظالموں کے سا منے کیوں جھکیں؟ جھوٹ، فریب،دغا بازی، مکاری اورعیاری کے سا منے کیوں جھکیں؟ باطل کے سامنے سرتوبلندرہناہے،لیکن انسا ن کوجھکاہواہی رہناچاہئے۔جب پھل لگ جا تے ہیں توشجرجھک جاتے ہیں۔
اسلام نے عبادات کاجوتصوردیاہے کیاوہ اپنااثرا ت نہیں رکھتا؟کیایہ رب نے ویسے ہی کہہ دیاہے؟یہ انسان کوانسان بناتاہے،اسے ثمربارکرتاہے،اوراگرہم سب کچھ کرتے ہوئے یہ پھل نہیں پاتے توسوچناچاہئے کہ کہیں کوئی گڑبڑہے۔رب کے فرمان میں تونہیں ہو سکتی، ہم میں ہی ہے۔تووہ ہمیں تلاش کرنی چاہئے۔ہم دوسروں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں اورہمیں اتنی مہلت ہی نہیں کہ اپنے عیبوں کو کھوج سکیں۔ہمیں پردہ پو شی کا حکم دیاگیاہے،تشہیر کی بجائے اس سے بچناچاہئے،بس!میرے رب کی توہے یہ ساری کا ئنات ، سب کچھ، سارے موسم،سارے ماہ وسال،اوروہ سب کچھ جونظرآتاہے اورجوپو شیدہ ہے……!
اورپھرہمارے رب سے ہمارایہ معاہدہ بھی توہے کہ:کہو،میری نماز،میرے تمام مراسِم عبودیت میراجینااورمیرامرنا،سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس کاکوئی شریک نہیں۔ اسی کامجھے حکم دیاگیاہے اورسب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والامیں ہوں۔جب ہم نے اپنا سب کچھ اپنے خالق کے ہاں قربان کردینے کاعہدکیاتواس پرعملدرآمدکی توفیق بھی انہی کوملتی ہے جوجذبہ صادق کے ساتھ مانگتے ہیں۔یعنی کائنات کی ساری چیزوں کارب تواللہ ہے،میرارب کوئی اورکیسے ہوسکتاہے؟کس طرح یہ بات معقول ہوسکتی ہے کہ ساری کائنات تواللہ کی اطاعت کے نظام پرچل رہی ہو،اورکائنات کاایک جزہونے کی حیثیت سے میرااپناوجودبھی اسی نظام پرعامل ہو، مگرمیں اپنی شعوری و اختیاری زندگی کیلئے کوئی اور رب تلاش کروں؟کیاپوری کائنات کے خلاف میں اکیلاایک دوسرے رخ پر چل پڑوں؟حقیقتاً ایک مومن زندگی کی عکاسی ہے کہ مسلمان کاجینا،مرنا،اورعبادت وریاضت سب کچھ اللہ عزوجل کیلئے ہونا چاہیے۔زندگی اللہ عزوجل کی رضاکے کاموں میں اورجینے کامقصد اللہ عزوجل کے دین کی سربلندی ہو۔یونہی مرناحالت ِ ایمان میں ہو اورہوسکے توکلمہ حق بلندکرنے کیلئے ہو۔ یونہی عبادت کاشرکِ جلی سے پاک ہوناتوبہرحال ایمانیات میں داخل ہے،عبادت شرک ِخفی یعنی ریاکاری سے بھی پاک ہواورخالصتاًاللہ عزوجل کی رضاو خوشنودی کیلئے ہوجائے توتب رب کریم بڑی چاہ وپیار سے فرماتاہے کہ یہ میراہے،میں خوددوں گا اس کاصلہ۔ہم بھی جب کسی سے کہیں کہ ”ہیں توبہت سے لوگ میرے اردگرد لیکن یہ جوفلاں ہے،یہ بہت خاص ہے،میراہے تودل کتناشادہوجاتاہے خوشی سے،مسرت سے۔تویہ بہت خاص ہے کہ میرے رب نے کہاہے یہ میراہے۔
اگرہمیں اپنے رب کوراضی کرناہے توضبطِ نفس پرعمل کرتے ہوئے اپنے اندرکے بت کوتوڑناہوگاکیونکہ یہی عمل بندہ نفس بننے سے بچاتاہے،بندوں سے محبت کرناسکھاتاہے۔جس تربیت کی انسان کوضرورت ہے وہ مکمل جا مع شکل میں ہم تک پہنچاتاہے۔ہم روزانہ اس کامشاہدہ کرتے ہیں۔ہم نے برداشت کرناسیکھا؟ہم نے حق تلفی سے دامن بچایا؟ہم نے دل آزاری چھوڑدی؟ہم نے معذرت کی اورآئندہ وہ کام نہ کرنے کاعہدکیا؟ہم نے انسانوں کی خدمت کی؟ہم نے صبرکیا؟ہم نے اپنے نفس کوپچھاڑا؟نہیں ناں!ہم اب بھی ایسے ہیں،اپنی اناکے بت کے پجاری اگرہم روزہ،نماز،حج زکو اورعمرے کرکے بھی ویسے کے و یسے ہی ہیں توبے کار ہے ناں یہ سب کچھ ….. کیا حاصل اس کا!مجھے بتائیے۔بس اسی سے توفیق کے طلبگاررہو، وہ دیکھتا ہے کہ بندے نے سر تسلیم خم کرلیا۔اورپھرکریم اتناہے کہ تو فیق بھی خوددیتاہے،ورنہ ہم کیااورہما ری اوقات کیا؟
مجھے توخود پرتوجہ دینی چاہئے کہ میرے اندرکوئی گڑبڑہے،میرے اندرہے کوئی خرابی!میں خودکوچھوڑکردوسروں کے پیچھے پڑارہتاہوں،مجھے توخودکودیکھناچاہئے،مجھے اپنامحاسبہ کرنا چاہئے،نہیں کرتے ناں ہم ایسا!بس دوسروں کوڈستے رہتے ہیں۔ہمیں بندہ بننا چاہئے اورہم خدائی لہجے میں بات کرتے ہیں۔نہ عجزہے ہم میں اورنہ انکساری،نہ رحم دلی نہ خلوص، اصل درکار ہے میرے رب کی بارگاہ میں، وہاں جعلی کا گزرنہیں ہے،بالکل بھی نہیں ۔ہم نمازروزہ کی ادائیگی کے بعددوسروں سے ایسابرتا ؤکرتے ہیں جیسے ہم نے کوئی احسان کر دیاہے۔میں سرتاپاغصے میں لتھڑاہواہوں،میں آگ اگل رہاہوں اورپھرمیں خودکومتقی بھی کہتاہوں،عجیب بات ہے جبکہ میں توانتہائی مفلس،ٹنڈ منڈدرخت ہوں،بغیر کسی پھل پھول کے۔